نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسااوقات واقعتا گھبرا جاتا ہوں۔ چند مہربان پڑھنے والے بہت اشتیاق سے اہم ترین سیاسی واقعات کے بارے میں میری رائے کے منتظر رہتے ہیں۔ ٹویٹر کا زمانہ ہے جہاں فہم وفراست سے مالا مال افراد اپنی رائے کا 24/7 بنیادوں پر اظہار کرتے رہتے ہیں۔ میں دیانت داری سے ’’ہم کہاں کے دانا تھے؟‘‘ والی فکر میں مبتلا رہتا ہوں۔35 برس تک پھیلے صحافتی تجربے نے ویسے بھی سمجھا دیا ہے کہ وطنِ عزیز میں بالآخر وہی ہوتا ہے جو ’’منظور…‘‘ہوتا ہے۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر اسی باعث اپنے ذہن کو سوچنے کی اذیت میں مبتلا رکھنے کے بجائے کسی ’’گیٹ نمبر‘‘ کے حوالے دیتے رہتے ہیں۔ ان کی تقلید زندگی آسان بنا سکتی ہے۔بہرحال تقاضہ ہورہا ہے کہ حزب مخالف کی گیارہ جماعتیں اتوار کے روز ایک اتحاد کی صورت جمع ہوگئیں۔
ان کی جانب سے مشترکہ اعلان بھی آگیا۔ اپنے اہداف کے حصول کے لئے انہوں نے جلسوں اور لانگ مارچ کا ٹائم ٹیبل بھی طے کردیا ہے۔ مجھے بتانا چاہیے کہ اپنے مقاصد کے حصول میں یہ جماعتیں کامیاب ہوں گی یا نہیں۔ کاش میں اس ضمن میں کوئی تسلی بخش جواب فراہم کرنے کے قابل ہوتا۔ ویسے بھی جوابات فراہم کرنے کے بجائے مجھے سوالات اٹھانے کی بیماری لاحق ہے۔فوری سوال مثال کے طورپر اتوار کے دن ذہن میں یہ گردش کرتا رہا کہ وزیر اعظم صاحب کے متحرک ترین ترجمان جناب ڈاکٹر شہباز گِل کی جانب سے ہفتے کے روز لکھے ٹویٹ کے باوجود ’’سزا یافتہ بھگوڑے‘‘ کی تقریر ہمارے ٹی وی چینلوں سے براہ راست نشر کرنے کی اجازت کیوں دی گئی۔ ’’ذرائع‘‘ کی بنیاد پر ہمیں بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے بذاتِ خود اسے نشر کرنے کی اجازت دی۔
میں ٹھوس معلومات کی بنیاد پر اس ’’خبر‘‘ کی تردید کے قابل نہیں۔ سوال مگر اٹھتا ہے کہ اگر اس تقریر کو ٹی وی چینلوں پر دکھانے کی اجازت دینا ہی تھی تو گِل صاحب نے ’’خبردار ہوشیار ‘‘والا ٹویٹ کیوں لکھا۔ اتوار کی رات عمران خان صاحب کے دیرینہ اور جانے پہچانے مصاحب فیصل جاوید صاحب نے ڈاکٹر ماریہ ذوالفقار کے پروگرام میں انکشاف کیا ہے کہ شہباز گِل صاحب نے وہ ٹویٹ اپنی ’’ذاتی حیثیت‘‘ میں لکھا تھا۔
ضمنی سوال سینیٹر فیصل جاوید کے بیان کے بعد ذہن میں یہ اٹھتا ہے کہ اگر میں کسی ٹی وی چینل کا نیوزایڈیٹر ہوں۔ نیوز ایڈیٹر اگرچہ ایسے ہی لکھ دیا ہے۔اس نام کی چڑیا اب صحافتی اداروں میں موجود نہیں رہی۔ مالک ہوتے ہیں۔ بہرحال فرض کیا کسی چینل کا مالک ہوں۔ مجھے گِل صاحب کا فون آئے کہ فلاں ٹِکر ہٹاکر فلاں ٹِکر چلایا جائے تو میں ان کے حکم کی تعمیل کروں یا نہیں؟ مجھے کون یقین دلائے گا کہ ’’وزیر اعظم کے ترجمان‘‘ اپنی ’’ذاتی خواہش‘‘ بیان کررہے ہیں یا وزیر اعظم کا پیغام پہنچارہے ہیں۔ اسی الجھن میں مارا جائوں گا۔ سوال اس کے بعد یہ بھی اٹھتا ہے کہ وزیر اعظم کی اجازت سے نواز شریف صاحب کا اے پی سی سے خطاب براہِ راست نشر ہوگیا تو وزیر اطلاعات جناب شبلی فراز نے کونسے’’ادارے‘‘ سے درخواست کی ہے کہ وہ اس کا نوٹس لیں۔ آخری خبریں آنے تک ہمارا تحریری آئین وزیر اعظم کو اس ملک کا حتمی ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ قرار دیتا ہے۔
اگر چیف ایگزیکٹو نے نواز شریف کے خطاب کو براہِ راست نشر کرنے کی اجازت مرحمت فرمادی تھی تو ’’ادارے‘‘ اس کا نوٹس کیوں لیں؟! سوال یہاں ختم نہیں ہوتے۔ نواز شریف صاحب نے اپنے سوا گھنٹے تک پھیلے خطاب میں جو کچھ بھی کہا اس میں ’’نیا ‘‘ کچھ بھی نہیں تھا۔ چونکا دینے والی بات اُن کا رویہ اور چند تگڑے افراد اور اداروں کے نام لے کر انہیں تنقید کا نشانہ بنانا تھا۔ اس سے بھی اہم ترین معمہ یہ ہے کہ تقریباََ ایک برس تک پھیلی خاموشی کے بعد انہوں نے اپنے دل کی بات برسرِ عام لانے کا فیصلہ کیوں کیا۔ پیر کی صبح چھپے کالم میں مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر آپ کو بتاچکا ہوں کہ اے پی سی سے خطاب کے لئے نواز شریف کو ان کے کسی مصاحب یا عزیز نے ہرگز نہیں اُکسایا تھا۔ ہمارے سیاسی مبصرین کی اکثریت ہمیشہ اس بدگمانی میں مبتلا رہی کہ نواز شریف ’’بھولے‘‘ آدمی ہیں۔ لوگوں کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر میں آج بھی لیکن یہ اصرار کرنے کو بضد ہوں کہ نواز شریف اگر کوئی بات منظرِ عام پر نہ لانا چاہیں تو انہیں اس امر پر مریم نواز بھی مجبور نہیں کرسکتیں۔ اپنے دل میں جمع ہوئی باتوں کو کب اور کیسے بیان کرنا ہے یہ فیصلہ انہوں نے ہمیشہ خود ہی کیا۔ موصوف بہت کائیاں اور تجربہ کار ہیں۔ پانامہ پیپرز کے منظرِ عام پر آنے کے بعد اگرچہ ایک پنجابی محاورے کے مطابق ’’رہ گئے‘‘ نظر آتے رہے۔
سیاست دان مگر ڈھیٹ ہڈی کے بنے ہوتے ہیں۔ دیوار سے لگاہوا بھی محسوس کریں تو کوئی نہ کوئی کارڈ کھیل کر ہمیں حیران کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ مجھے اس حقیقت کا بھی بخوبی علم ہے کہ اتوار کے دن اے پی سی سے خطاب ہر حوالے سے ان کا ذاتی فیصلہ تھا۔ ان کے خطاب کا متن واضح انداز میں اس امر کی نشان دہی بھی کرتا ہے کہ یہ کسی ’’تقریر نویس‘‘ کی لکھی زبان نہیں ہے۔ بنیادی طورپر دل کی بات برجستہ انداز میں ادا ہوئی۔ جس سوال کا جواب مجھے اب تک نہیں مل رہا وہ یہ ہے کہ نواز شریف صاحب نے 20ستمبر2020 کے روز ہی یہ خطاب کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔
یہ خطاب آج سے دو ماہ قبل یا دو ماہ بعد بھی ہوسکتا تھا۔ اس سوال کا جواب مجھے معلوم نہیں۔ حکومتی ترجمانوں کی اکثریت اور یوٹیوب کے ذریعے عمران حکومت کا بیانیہ پروموٹ کرنے والے اگرچہ ہمیں یہ سمجھارہے ہیں کہ اپنے خطاب کے ذریعے نواز شریف نے درحقیقت برطانیہ میں ’’سیاسی پناہ‘‘ کا بندوبست کیا ہے۔ وہ پاکستان لوٹنے کو آمادہ نہیں۔ میں نہایت اعتماد سے بیان ہوئی اس توجیہہ کو لطیفے کے طورپر لینے کو مجبور ہوں۔ نواز شریف کے دونوں فرزند کئی برسوں سے لندن میں مقیم ہیں۔ وہ کئی مقدمات میں ’’مفرور‘‘ بھی ٹھہرائے گئے ہیں۔ انہیں برطانیہ میں اپنے قیام کو یقینی بنانے کے لئے نواز شریف جیسے کسی خطاب کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ سلیمان شہباز اور اسحاق ڈار بھی ایسا خطاب کئے بغیر اسی ملک میں قیام پذیر ہیں۔ نواز شریف خاموش رہ کر بھی بدستور اس سہولت سے فائدہ اٹھاسکتے تھے۔ ’’بھگوڑے‘‘ کا لفظ روایتی اور سوشل میڈیا پر بہت کاٹ دار سنائی دیتا ہے۔
میں اگرچہ یاد دلانے کو مجبورہوں کہ جیل میں بیٹھا ’’سزا یافتہ مجرم‘‘ کوئی سرنگ کھود کر وہاں سے فرار نہیں ہوا تھا۔ موصوف کو وہاں سے علاج کے لئے لاہور کے ایک ہسپتال لایا گیا تھا۔ بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے انہیں علاج ہی کی خاطر بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔ وفاقی کابینہ نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے بجائے اس پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا۔ نواز شریف ایک باقاعدہ پرواز کے ذریعے پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کرتے ہوئے لندن پہنچے۔ وہاں کے امیگریشن والوں نے ان کے ویزے پر Enter کا ٹھپہ لگایا۔ نواز شریف جیسے ہائی پروفائل ’’سزا یافتہ مجرموں‘‘ کے پاسپورٹوں پر Enter کے ٹھپے ما بعد از نائن الیون زمانے میں ممکن ہی نہیں۔ سنا تو یہ بھی گیا ہے کہ برطانوی حکومت نے ہماری حکومت سے باقاعدہ استفسار کیا تھا کہ اپنے ’’سزا یافتہ‘‘ کو ہمارے ہاں کیوں بھیج رہے ہو۔یقینا ہماری جانب سے کوئی تسلی بخش جواب فراہم ہوا ہوگا۔ اس کے بعد ہی Enter والا ٹھپہ لگا۔ یہ ٹھپہ لگ جانے کے بعد ’’اگے تیرے بھاگ‘‘ والا معاملہ ہوجاتا ہے۔
اس ماہ کے آغاز میں جب عمران حکومت FATF کو مطمئن کرنے کے نام پر چند قوانین کو سرعت سے منظور کروانے کو بے چین تھی تو ڈاکٹر شہزاد وسیم صاحب کی بدولت ہم جاہلوں کو علم یہ بھی ہوا تھا کہ شریف خاندان کی جانب سے برسوں سے روارکھی ’’منی لانڈرنگ‘‘ کے باعث پاکستان اس ادارے کی گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا۔حکومتی ترجمان ہم بدنصیبوں کو لیکن ہرگز نہیں بتاتے کہ پاکستان کے خلاف FATF سے شکایت لگانے والوں میں برطانیہ بھی نمایاں ترین تھا۔ سوال اب یہ اٹھتا ہے کہ ہم برطانوی حکومت کو کیوں نہیں بتارہے کہ تمہاری خواہش کے مطابق ’’منی لانڈرنگ‘‘ کے خلاف انتہائی کڑے قوانین پارلیمان پاکستان سے منظور کروالئے گئے ہیں۔ہمارے ملک کا ایک اہم ترین ’’منی لانڈرر‘‘ مگر تمہارے ہاں قیام پذیر ہے۔
اسے ہمارے حوالے کرو تاکہ ہم اسے عبرت کا نشان بناتے ہوئے تمہیں اور FATF کو مطمئن کریں اور خود بھی چین سے رہیں۔ ایسا مگر ہوگا نہیں۔ کیوں؟ اس سوال کا جواب شہزاد اکبر مرزا صاحب ہی فراہم کرسکتے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے نواز شریف کے اتوار کے روز ہوئے خطاب نے میری دانست میں کلیدی پیغام یہ دیا ہے کہ وطنِ عزیز میں 2014 سے اندھی نفرت اور عقیدت کی بنیاد پر تخت یا تختہ والی جو تقسیم شروع ہوئی تھی وہ اتنے برس گزرجانے کے باوجود مدہم ہوجانے کے بجائے پریشان کن حد تک گہری اور سنگین تر ہوتی چلی گئی۔ نواز شریف کی تقریر نے اب اسے ایک ڈرامائی موڑ کی جانب دھکیل دیا ہے۔ نواز شریف کے پاکستان میں موجود حامیوں اور حزب مخالف کے بلند آہنگ رہ نمائوں کے خلاف نیب اور دیگر اداروں کو متحرک کرتے ہوئے اے پی سی کو غیر مؤثر بنانے کے اقدامات اب یقینی نظر آرہے ہیں۔ نواز شریف صاحب نے مگر اپنا ٹویٹر اکائونٹ بنالیا ہے اور فیس بک کے ذریعے لوگوں سے مسلسل رابطے میں رہنے کے ارادے کا اظہار بھی کردیا۔ یہاں ہوئی ہر بڑی گرفتاری کے بعد وہ سوشل میڈیا پر نمودار ہوں گے اور ہر بارکوئی واقعہ متعلقہ لوگوں کے نام لیتے ہوئے بتاکر ہمیں ششدرکرتے رہیں گے۔ اے پی سی اپنے کسی حدف تک پہنچے یا نہیں۔ لندن میں بیٹھ کر سوشل میڈیا پر متحرک ہوئے نواز شریف کی ’’پارٹی‘‘ البتہ ابھی تو شروع ہوئی ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ