مژدم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی ادب میں عروض کی قبولیت و مقبولیت اور اکھرک و ماترک و دوہا چھند کے غیر مقبول و غیر ضروری ہونے کے محرکات کا جینیاتی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بنیادی محرک درج زیل ہیں
1- ماترائی علم سانسکرت زبان میں محفوظ تھا اور اس زبان کو سوائے برہمنوں کے اور کوئی پڑھ نہیں سکتا تھا پڑھنے کی صورت میں سزائیں مقرر تھیں،
پروفیسر کنچا ایلیہا نے ایک واقعہ نقل کیا ہے اپنی کتاب میں کہ میری والدہ کو ایک پڑھے لکھے شخص نے کہا کہ تم اپنے بچوں کو سکول کیوں نہیں بھیجتی ؟
تو اُس نے جواب دیا اس لئے کہ بڑے بیٹے کو ایک نجی استاد کے پاس تعلیم لینے کو بھیجا تو وہ کچھ ہی عرصے میں قدرتی طور پر فوت ہو گیا
میں نہیں چاہتی کہ سرسوتی (دیوی) میرے دوسرے مظلوم بچوں کو بھی مار دے، سرسوتی صرف برہمنوں کے بچوں کے لئے رحم دل ثابت ہوتی ہے جب شودر تعلیم کا سوچتے ہیں تو وہ انکی جان لے لیتی ہے ،
یہاں پروفیسر اُس متھ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو کم و بیش ہمیشہ سے چلتی آ رہی ہے، ایک واقعہ میں بھی نقل کر دیتا ہوں میرے ایک عزیز رشتے دار کے حوالے سے اس کی والدہ کو بہت سارے بیٹے پیدا ہوئے مگر وہ پیدا ہوتے ہی مر جاتے تھے، پھر اسکی ماں نے ایک فقیر سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ تم اس کا انسانوں والا نام نہ رکھو جب تک کہ وہ 18 سال کا نہ ہو جائے تو اس نے پوچھا کیا نام رکھیں؟ تو اُس نے کہا گدھا۔۔ اس رشتے دار کو تقریباََ اٹھاراں سال کی عمر تک کھوتا ہی پکارا جاتا رہا، اور وہ واقعی بچ بھی گیا
اس کے پیچھے جو تصور کار فرما ہے وہ یہ ہے کہ فرشتہ روح قبض کرنے آئے گا انسان کی اور آگے اُسے گدھا ملے گا تو وہ واپس چلا جائے گا
2- مدارس اسلام کی آمد سے ہی اس خطے میں ماخذِ علم کے طور پر سامنے آئے
جہاں ان میں دینی علم پڑھایا جاتا تھا اسکے ساتھ درسِ نظامی کا چلن بھی تھا
درسِ نظامی میں علمِ عروض خاص طور پر پڑھایا جاتا تھا
دوسرا مدارس کی زبان بدلتی رہی ہے شروعات میں عربی رہی ہو گی اور بعد میں فارسی اور رفتہ رفتہ فارسی سے اردو کا سفر
1947 میں پورے پاکستان کے اندر محض ایک سو پچاس مدارس تھے
اور اب تک ایک اندازے کے مطابق انکی تعداد باراں ہزار سے چالیس ہزار کے قریب ہے
انہیں مدارس کے فارغ التحصیل شاعر بھی بنتے رہے سیاست دان بھی اور معلم بھی
اور دیگر تخلیقی کاموں سے وابستگان بھی انہیں کا ایک حصہ تھے،
مدارس جہاں اخلاقیت پر اثرانداز ہوئے وہیں ردھم پر بھی اثر انداز ہوئے،
شاعر تو مسلمان ہو گئے تھے مگر انکے ردھم کو بھی مسلمان کرنا بہت ضروری تھا سو اس کے لئے درسِ نظامی کی اشد ضرورت محسوس 18ویں صدی میں ہوئی
ایک ایسی قوم جو پہلے بہت دور تھی اپنے مقامی ماتروں سے وہاں انہیں علمِ عروض تھما دیا گیا جبکہ علمِ عروض کسی بھی صورت میں سرائیکی زبان یا ایسی کسی بھی مقامی زبان کے لئے ویسے ہی ہے جیسے ایک صحت مند کو ایک خستہ تن کا لباس پہنانے کی کوشش کی جائے،
مقامی ردھم کے لئے حقارت پیدا ہوتی چلی گئی اور اس حقارت کی واحد وجہ مدارس نہیں ہیں بلکہ وہ تمام وجوہات ہیں جو میں اوپر بتا چکا ہوں ان میں مدارس کا بھی بہت بڑا کردار ہے،
3- مقامی صوفیا کرام کے حوالے سے ایک ناپسندیدگی کی بنیادی وجہ اسی درسِ نظامی کا عروض و فکری نظام ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسی شاعری کو پسند کر لیا جائے جو مقامی ردھم و زبان میں ہو؟ مقامی ردھم و زبان یعنی ناپاک ۔۔ اگرچہ مقامی صوفیوں نے بہت کوشش کی اس ناپاک ردھم و زبان میں پاک مضامین کھپانے کی تصوف کی تفہیم کے باوجود وہ کبھی کسی اہلِ مدرسہ کو متاثر نہ کر سکے ، کسی بھی بڑے عالم کے بیان میں آپ مولانا روم کے اشعار سنتے ہوں گے جنید و شبلی و عطار کی زندگی پر روشنی ڈالتے دیکھیں گے اس مولانا کو ۔ مگر آپ کسی مقامی صوفی کا تذکرہ نہ سنیں گے ، یا اسکی شاعری کو نقل کرتے نہ دیکھیں گے
اردوئی مفکرین و معلمین کے نزدیک مقامی صوفی غیر شرعی صوفی ہے جبکہ داتا صاحب ایک شرعی صوفی تھے نظام الدین ایک شرعی صوفی تھے مگر بھلے شاہ نہیں تھے کیونکہ وہ گھنگرو باندھنے کی ترغیب دیتے ہیں سب کے ساتھ بیٹھنے کی ترغیب دیتے ہیں سب کو پہلے انسان بعد میں کچھ اور مانتے ہیں،
مقامی صوفیوں سے تعصب کے اسباب ردھم اور زبان ہیں دیکھیے زبان کو براہمنک ہونا چاہیے ،
4- سرائیکی جدید غزل اردو کی متاثرہ ہے اور اس کے متاثرہ ہونے کو اس کی خوبی بتایا جاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے اردو ادباء فارسی سے متاثرہ غزل کو ایک خوبی کے طور پر دیکھتے آئے ہیں ،، جب ایک سرائیکی ادیب کو یہ کہا جائے کہ آپ دھڑا دھڑا اردو کے الفاظ استعمال کیوں کرتے ہیں ؟ سرائیکی شاعری میں ؟ تو وہ کہتا ہے تم زبان کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنا چاہتے ہو
اسی طرح عروض کے حوالے سے جب بات کی جائے تو وہ علمِ عروض کو ایک ترقی سمجھتا ہے اپنی زبان کے لئے، بنیادی طور پر علمِ عروض ہو یا اردو ہو
انکی قبولیت کی وجہ ترقی ہو یا نہ ہو مگر یہ وجہ ضرور ہے کہ انکے لاشعور میں یہ بات سرایت کیے ہوئے ہے کہ باہر سے آنے والی ہر چیز ہماری چیز سے بہتر ہوتی ہے، اور اس کا تعلق اسی براہمن ڈسکورس سے ہے جو صدیوں سے یہاں کے لوگوں میں ٹھونسا گیا، یا شاید شکست کا ایک پہلا اور آخری مطلب یہی ہوتا ہے کہ جو جیت گیا وہ بہتر تھا تو جیتا اگرچہ یہ احساس بھی اسی کلامیے سے متاثر ہونے کی علامت ہے
5- اکرم قریشی نامی ایک سرائیکی ادیب جو عروض کے بہت بڑے خودساختہ چمپین تھے انہوں نے ایک دیوانِ فرید مرتب کیا جس میں انہوں نے دیوانِ فرید میں پائے جانے والے عروضی مسائل کی تصیح کی ، انکے نزدیک خواجہ فرید عروض سے ناآشنا تھے ۔۔جبکہ اصل بات یہ تھی کہ وہ خود ناآشنا تھے اُس علم سے جو خواجہ فرید (رح) کے دور میں مستعمل تھا یا جو ان تک راگوں کے فہم سے پہنچا
ہر وہ شخص جو ماترائی نظام میں لکھتا ہے اُسے بے وزن سمجھا جاتا ہے
اس میں میں گلزار کی مثال دوں گا زیادہ تر ادیب یہ سمجھتے ہیں کہ گلزار ایک بے وزن شاعر ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسکی زیادہ تر شاعری ماترائی نظام کے تحت لکھی ہوئی ہے، ماتروں میں لکھنے والے شعراء کو آسانی سے گایا جا سکتا ہے ، کیونکہ گلزار خود ایک گیت نگار ہیں تو انکے ہاں اسکی تفہیم موجود ہے
جاری ہے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر