نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

غیر مقبول یا غیرمنطقی موقف ؟۔۔۔ محمد عامر خاکوانی

جو سٹیٹمنٹ کالم کے شروع میں دی گئی، ان میں پنجابی کی جگہ پشتون، سندھی، مہاجر یا بلوچ کا لفظ ہوتا تو اس پر شدید ردعمل آنا تھا۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک معروف اور مقبول کالم نگار، اینکر نے اپنے تازہ ترین کالم میں کئی ایسے نکات لکھے ہیں،جن پر بات کرنا ضروری ہے۔اس سے پہلے ضروری ہے کہ اس کالم کے چند اقتباسات پیش کئے جائیں تاکہ جس کسی نے نہیں پڑھے، وہ باخبر ہوجائے اور اپنی ”اصلاح“فرما لے۔
وہ لکھتے ہیں:”پنجاب پاکستان کا 60 فیصد ہے‘ یہ 12کروڑ لوگوں کا صوبہ ہے چناں چہ آپ جس طرف بھی نکل جائیں آپ کو وہاں پنجابی سوچ کا غلبہ ملے گا اور ہم پنجابیوں کی سوچ یہ ہے‘ اول ہم خود کچھ کرتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کو کرنے دیتے ہیں‘ دوسرا ہم مر جائیں گے مگر اپنے ہاتھ سے اپنی چودھراہٹ نہیں نکلنے دیں گے اور تیسرا ہم دوسروں کو اکٹھا نہیں ہونے دیتے‘ ہم ”لڑائیں اور مزے کریں“ کے حامی ہیں۔مجھے یقین ہے میں ایک اور غیر مقبول کالم لکھ رہا ہوں‘ ملک کی ساٹھ فیصد اکثریت اور 12 کروڑ چوہدریوں کے خلاف بات کرنا اور انسان خود بھی ان میں سے ایک ہو یہ کہاں کی عقل مندی‘ یہ کہاں کی سمجھ داری ہے لیکن ہم نے اگر یہ ملک چلانا ہے تو پھر ہمیں اپنے ڈی این اے کو سمجھنا ہو گا‘ ہمیں ماننا ہوگا ہمارے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہم پنجابیوں کی سوچ ہے۔
”ہم خود کچھ کر رہے ہیں اور نہ کسی دوسرے کو کرنے دے رہے ہیں‘ ہم نے اس ملک میں ایک متحارب سوچ بھی پیدا کر دی ہے‘ لڑو‘ لڑو اور بس لڑو‘ آپ دیکھ لیں ہمارے ہیروز کون ہیں؟ اس خطے میں لڑنے والا ہر شخص ہمارا ہیرو ہے‘ پوری دنیا میں پروفیسر‘ سائنس دان‘ موجد‘ موسیقار‘ گلوکار‘ مصور‘ آرکی ٹیکٹ‘ ادیب‘ شاعر اور عبدالستار ایدھی جیسے لوگ ہیرو ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک میںیہ لوگ آج بھی کمی کمین سمجھے جاتے ہیں۔کیوں؟ کیوں کہ ہم پنجابی ہزاروں سال سے ہاتھ سے کام کرنے والوں کو کمی اور دوسروں کے ہاتھوں کی کمائی کھانے والوں کو چوہدری سمجھتے آ رہے ہیں۔“
یہ قبلہ چودھری صاحب کے دو تین دن پہلے شائع ہونے والے کالم کے چند اقتباسات ہیں۔ ہم چودھری صاحب کا احترام کرتے ہیں، مگر ان کی اس تحریر نے فکری مغالطے پیدا کئے ہیں، اس لئے ان نکات پر بات ہونی چاہیے۔ کالم کے ابتدا میں ایک واقعہ بیان کیا گیا، جس میں کسی گاﺅں کا چودھری دو مختلف خاندانوں میں پھوٹ ڈالنے اور لڑائیاں کرانے کے درپے رہتا ہے تاکہ اس کی چودھراہٹ چلتی رہے ۔مصنف اس واقعہ کو بیان کر کے وہ تمام نتائج اخذ کرتے ہیں جو اوپر دئیے گئے اقتباسات میں نقل کئے گئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ یہ گھڑی ہوئی کہانی یعنی فکشن ہوسکتا ہے، زیب داستاں کے لئے اس میں مبالغہ آمیزی کاامکان ہے، جبکہ اس طرح کا کوئی ایک واقعہ عالمگیر سچائی(Universal Truth)کے طور پربھی بیان نہیں کیا جا سکتا۔
ایک لمحے کے لئے فرض کر لیں کہ وہ واقعہ درست ہے اور وہ مکار ، چالباز ، خود غرض چودھری حقیقت ہے۔ ایسی صورت میں بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک خاص مائنڈ سیٹ ہے۔ طاقت کا کھیل ایسا ہی ہوتا ہے۔ بادشاہت کے تخت سے گاﺅں کی چودھراہٹ تک اسی طرح” تقسیم کرو اور حکومت کرو “کا فلسفہ کارفرما رہتا ہے۔ ایسا تاریخ کے بہت سے ادوار میں ہوا۔قدیم رومن تہذیب سے لے کر چینی، ہند ، عرب ، انگریز، فرانس، جرمن غرض کسی بھی دور کی تہذیب اور قوم لے کر اس پر یہ اصول منطبق کر دیں، آپ کو مثالیں مل جائیں گی۔ تاریخ کا سطحی مطالعہ کرنے والے ممکن ہے اسے کسی خاص قوم یا زبان یا تہذیب سے منسوب کر دیں، مگر حقیقت یہ نہیں۔ یہ کسی قوم کا نہیں، طاقت کے کھیل کی ایک سٹریٹجی ہے۔ کسی ایک واقعہ کو لے کر کروڑوں لوگوں پر اسے فِٹ کرنا اصولی اور عقلی طور پر غلط ہے۔
میرا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ پنجاب کی آبادی اگر بارہ کروڑ فرض کر لیں تو اس میں بارہ کروڑ پنجابی نہیں رہتے۔تین چار کروڑ کے لگ بھگ سرائیکی بھی موجود ہیں، جو پنجابی نہیں اور نہ اپنی شناخت پنجابی بتاتے ہیں۔ اس لئے پہلے توبنیادی اعدادوشمار درست کر لئے جائیں۔ اگلی بات یہ کہ آٹھ نو کروڑ پنجابیوں پر بھی یہ الزام لگانا صریحاً ناانصافی اور زیادتی ہے،” پنجابی خود کام کرتے ہیں نہ کسی اور کو کرنے دیتے ہیں ، اپنے ہاتھ سے چودھراہٹ نہیں نکلنے دیتے اوردوسروں کو اکٹھا بھی نہیں ہونے دیتے، انہیں لڑاتے اور مزے کرتے ہیں۔“یہ سٹیٹمنٹ غلط ہے۔ پنجاب بہترین فصلیں دیتا ہے، بے شمار ملیں ، فیکٹریاں یہاں ہیں، ان میں پنجابی ہی کام کرتے ہیں، مریخ سے لوگ تو نہیں آتے؟
جو سٹیٹمنٹ کالم کے شروع میں دی گئی، ان میں پنجابی کی جگہ پشتون، سندھی، مہاجر یا بلوچ کا لفظ ہوتا تو اس پر شدید ردعمل آنا تھا۔ فاضل مصنف چونکہ خود پنجابی ہیں، اس لئے وہ اپنا حق سمجھتے ہیں کہ کروڑوں پنجابیوں کو نالائق، نکما، دھوکے باز، سازشی ، خود غرض قرار دیں۔جی اس سٹیٹمنٹ کا یہی مطلب نکلتا ہے۔ ایسی منفی خوفناک سوئپنگ سٹیٹمنٹ دینے کا مگرکسی کو حق نہیں۔ گالی دینے کا لائسنس ہوتا ہی نہیں۔
ماہرین کے مطابق سماج کی مختلف پرتیں اور سطحیں ہوتی ہیں۔ شہروں اور دیہات کی سوچ مختلف ہے۔صنعتی خطے کاشت کاروں کے علاقوں سے مختلف ہیں۔ پھرایک زبان بولنے والوں میں مختلف برادریاں ہیں۔ پنجابیوں میں کشمیری، راجپوت، جٹ، گجر، ارائیں، مغل، انصاری، کمبوہ وغیرہ۔ ان سب کی اپنی خاص سائیکی اور خوبیاں، خامیاں ہیں۔ہر شہرکا اپنا مخصوص کلچر بھی ہوتا ہے۔ جیسے فیصل آباد میں جگت ، گوجرانوالہ میں کھابا کلچر۔ لاہور جیسے شہر کی اپنی نفسیات ہے۔جہاں زمین مہنگی ہو، گھر چھوٹے ہوں وہاں مہمانداری کی روایت کمزور پڑ جاتی ہے۔ کوہستانی اور ریگستانی علاقوں میں مسافر کا بہت خیال رکھتے ہیں کہ کٹھن راستوں پر ہر ایک کو کبھی نہ کبھی پریشانی کا,سامنا کرنا پڑتا ہے, اس لئے وہ مسافر اور مہمان کا,اکرام کرتے ہیں. ایک برادری کے اندر بھی مختلف پیشے، تعلیم اور طبع کی بنا پر اسکے موروثی خصائل طے ہوتے ہیں۔ مذہبی سوچ بھی بہت کچھ بدلتی ہے۔ صوفی ازم ایک گھر کے دو بھائیوں کو مختلف بنا دیتا ہے۔ جماعت اسلامی سے وابستہ لوگوں کی سوچ مختلف ہوسکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ سو فیصد ایسا ہو، مگر یہ فیکٹر اثرانداز ضرور ہوتے ہیں۔
یہ بات بھی غلط ہے کہ اس خطے میں ہر لڑنے والا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ براہ کرم ارطغرل کی مثال نہ دی جائے کہ اس کی مقبولیت کے اصل فیکٹرز اور ہیں۔ ہماری مقبول ترین لوک داستانیں عشق اور محبت پر مبنی ہیں۔ رانجھا نے کتنی ایک جنگیں لڑ لی تھیں؟ پنوں نے کون سی فوج کشی کی تھی؟ مرزا ایک سورما ضرور تھا، مگر اس کی داستان میں بھی محبت کا عنصر نمایاں تھا۔
یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک کمی کمین کا لفظ بھی موجود ہے، سماج میں ان کے لئے حقارت بھی۔ یہ کہنا مگر غلط ہے کہ پنجابی ہاتھ سے کام کرنے والے کو گھٹیا جبکہ دوسروں کی کمائی کھانے والوں کوچودھری سمجھتے ہیں۔ملک کے سب سے بڑے پراپرٹی ٹائیکون اور ٹاپ کے چند ایک ارب پتیوں کے بارے میں عوامی رائے کیا ہے؟ملک کے مقبول ترین لوگ یعنی سیلیبریٹیز کون ہیں؟ کرکٹر۔ یہ کروڑوں کماتے ہیں، بے پناہ شہرت، عزت اور محبوبیت حاصل کرتے ہیں جبکہ ان کی تمام تر کمائی ہاتھ کی ہے۔ اسی طرح عاطف اسلم، علی ظفر، راحت جیسے گلوکار بے حد مقبول ہیں، جہاں یہ جائیں لوگ آٹو گراف لینے جمع ہوجاتے ہیں۔ کھلاڑی، شوبز والے دنیا بھر میں مقبول ہیں، سائنس دان، پروفیسر کہیں ہیرو نہیں ہوتے۔ ان کے کام کا عوام کو پتہ ہی نہیں چلتا۔ انہیں گلوریفائی کرنا پڑتا ہے۔اعتراض کرنے والوں کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے کسی نئی کتاب پر کالم کب لکھا، کسی سکالر ، سائنس دان ، ماہر معاشیات کی نئی تھیوری پر ٹی وی پروگرام کب کیا؟
اسی کالم میں سرعام پھانسی کے تصور پر تنقید کی گئی ۔ بات یہ ہے کہ سرعام سزاﺅں کے سماج پر منفی اثرات کا دعویٰ کرنے والوں کو کچھ اعداد وشمار بھی دینے چاہئیں۔ کیا سعودی سماج میں سرعام سزاﺅں کے بعد تشدد کا عنصر بڑھا ، یا ایرانی نوجوان سرعام پھانسی دیکھنے کے بعد خدانخواستہ درندے بن گئے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ مغربی دنیا کے کئی ممالک جہاںصدیوں سے سرعام سزا نہیں ملتی، وہاں تشدد اور جرائم کی شرح کیوں بڑھ رہی ہے ؟یہ بھی کوئی دلیل نہیں کہ فلاں چیز دنیا کے اتنے ممالک نے کر دی ہے، ہم بھی کریں۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں ہم جنس پرستی ، ہم جنس شادیوں کی اجازت ہے، مرضی سے جنسی فعل پر پابندی نہیں، کیا ہمیں بھی یہی کرنا چاہیے؟
ایک اور مغالطے کی اصلاح ضروری ہے کہ ہر غیر مقبول موقف ضروری نہیں درست ہو۔فاضل کالم نگار فخریہ یہ تذکرہ کرتے ہیں کہ انہوں نے غیر مقبول موقف اپنایا ہے۔ غالباً انہیں لگتا ہے کہ یہ کوئی بہت بڑی چیز ہے ۔ ایسا نہیں ۔ بہت سے موقف اسی لئے غیر مقبول ہوتے ہیں کہ وہ نامعقول ، غیر منطقی اور بیکار ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ ضروری نہیں کہ ہر پاپولر موقف غلط ہے یا سطحیت پر مبنی ہے۔ تاریخ انسانی میں بے شمار مقبول بلکہ انتہائی مقبول موقف ہر اعتبار سے درست اور عقل ودانش کے عین مطابق رہے ہیں۔ لکھنے والے کو پاپولر یا ان پاپولر موقف کے بجائے درست یا غلط موقف پر توجہ دینی چاہیے۔ درست بات اگر ہے تو وہ مقبول نہ ہوتب بھی اس میں فرق نہیں پڑتا۔ جب بات تاریخی اور منطقی اعتبار سے غلط ہو تو پھر وہ موقف مقبول ہو یا غیر مقبول، اسے لکھنے اور کہنے والے کو ندامت کا سامنا ہی کرنا پڑتا ہے۔

About The Author