اسلام آباد: سابق وزیراعظم نوازشریف نے اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا ہے۔
سابق وزیرعظم نواز شریف نے تحریک انصاف کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان پر شدید تنقید کی ہے۔ اپوزیشن کی اے پی سی میں اپنے ویڈیو خطاب میں انہوں نے سوال اٹھایا کہ وزیراعظم عمران خان کا احتساب کب ہو گا۔
عمران خان کے پاس زمان پارک گھر کے لیے پیسے کہاں سے آئے، کیا کوئی پوچھے گا؟ چینی کی قیمت بڑھانے میں عمران خان کی ذات ملوث ہے۔ ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسا دینے والوں کو جواب دینا ہو گا ۔ کہا سی پیک کے ساتھ بی آر ٹی جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔
سابق وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ ڈکٹیٹر کے بنائے ادارے نیب کو برقرار رکھنا ہماری غلطی تھی۔ نیب اندھے حکومتی انتقام کا آلہ کار بن چکا ہے ۔ چیئرمین نیب جاوید اقبال ڈھٹائی سے اپنے عہدے پر براجمان اور اپنے ایجنڈے پر عمل کرتے ہیں ۔ سوال اٹھایا کہ بنی گالہ میں عمران خان کے ذاتی گھر کی فائل کیا یوں ہی بند رہے گی۔
نواز شریف نے کہا ہے کہ اگر پاکستان میں ووٹ کو عزت نا ملی تو ملک مفلوج ہی رہے گا، سابق وزیراعظم کہتے ہیں آئین پر عمل کرنے والے ابھی تک کٹہروں اور جیلوں میں ہیں لیکن کیا کبھی کسی ڈکٹیٹر کو سزا ملی۔
ایک ڈکٹیٹر پر مقدمہ چلا خصوصی عدالت بنی،کارروائی ہوئی، سزا سنائی گئی لیکن کیا ہوا؟ووٹ سے بنا وزیراعظم کوئی قتل، کوئی پھانسی اور کوئی غدار قرار دیا گیا، منتخب وزیراعظم کی سزا ختم ہونے کو آہی نہیں رہی، یہ سزا عوام کو مل رہی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے خارجہ پالیسی پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے ۔ کہتے ہیں بھارت نے کٹھ پُتلی حکومت دیکھ کر کشمیر کواپنے اندر ضم کرلیا ہم احتجاج بھی نہ کرسکے ،، حتی کہ اپنے دوستوں کی حمایت بھی حاصل نہ سکے۔ پاکستان کو دیگر ممالک کیساتھ ملکر او آئی سی کو مضبوط کرنا چاہیے، خارجہ پالیسی کو بچوں کا کھیل بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیصلہ کن موڑ پراے پی سی منعقد ہورہی ہے۔ رسمی اورروایتی طریقے سے ہٹ کراے پی سی کوبامقصد بنانا ہوگا۔ پاکستان کی خوشحالی کیلئے ضروری ہے کہ اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں۔ مولانا فضل الرحمان کی اس بات سے متفق ہوں کہ روایتی طریقوں سے ہٹ کے فیصلے کرنا ہوں گے۔ آب سب جانتے ہیں کہ پاکستان کو 73سال سے کن مسائل کا سامنا ہے۔
پاکستان کو جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا ہے۔ ملک کا نظام وہ چلائیں جن کوعوام کی اکثریت ووٹ دے۔ جب ووٹ کی عزت کا احترام نہیں ہوتا تو جمہوریت نہیں رہتی۔ جمہوریت کی روح عوام کی رائے ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 73سالہ تاریخ میں ایک بھی وزیراعظم کو 5سال کی مدت پوری نہیں کرنی دی گئی۔ ہر ڈکٹیٹر نے اوسطاً 9سال غیرآئینی مدت پوری کی۔
نواشریف نے کہا کہ اگر کوئی نمائندہ حکومت بنتی ہے تو اس کو سازش سے ناکام کر دیا جاتا ہے۔ انتخابی عمل سے پہلے مطلوبہ نتائج پورے کرلیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کو تجربات کی لیبارٹری بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت پرضرب لگے،ووٹ کی عزت پامال ہوتوسارا جمہوری عمل بےمعنی ہوجاتا ہے۔ ملک کا نظام وہ چلائیں جن کو عوام کی اکثریت ووٹ دے سیاستدانوں کی سزائیں ختم ہونے میں نہیں آرہیں۔
ہماری تاریخ میں 33 سال کا عرصہ آمریت کی نظر ہوا۔ ڈکٹیٹرز کو ملک سے کھلواڑ کرنے کا موقع دیا گیا۔سیاستدانوں کے خلاف منظم کردار کشی کی جاتی ہے اور مخلص سیاستدانوں کو غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔
ان سیاستدانوں کودیکھیں جوعوام کے ووٹ سے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ اگر کوئی جمہوری حکومت بن جائے تو کس طرح اس کے ہاتھ پاوں باندھ دیئے جاتے ہیں۔
انتخابی عمل سے قبل یہ طے کرلیا جاتا ہے کہ کس کو ہرانا کس کو جتانا ہے، جب ووٹ کی عزت کو پامال کیا جاتا ہے توجمہوری عمل بے معنی ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی حکومت بن بھی گئی تو اسے پہلے بے اثر پھر فارغ کردیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں یا مارشل لا ہوتا ہے یا جمہوری حکومت کے متوازی حکومت بنا دی جاتی ہے۔ یہ نہیں سوچتے عالمی برادری میں ہماری ساکھ ختم ہوکر رہ جائیگی۔
سابق وزیراعظم نے کہا 2018کے انتخابات میں کھلے عام دھاندلی کی گئی۔ پاکستان میں مارشل لا ہوتا ہے یا پھر متوازی حکومت قائم ہوجاتی ہے۔ اب معاملہ ریاست کے اندر ریاست سے باہر نکل گیا ہے۔
عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم نہ کرنے اور متوازی حکومت بننا ہی اصل مسائل کی جڑی ہے۔ آج قوم جن حالات سے دوچار ہے انکی بنیادی وجہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان حکمرانوں کو مسلط کیا۔ عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنا سنگین جرم ہے، 2018کے انتخابات میں گھنٹوں آرٹی ایس کیوں بند رکھا گیا؟ پولنگ اسٹیشنز سے سیاسی جماعتوں کے ایجنٹوں کو باہر کیوں نکالا گیا؟ چیف الیکشن کمشنر سمیت تمام ذمہ داران کو جواب دینا ہوگا۔
نوازشریف نے کہا کہ نااہل حکومت نے دو سالوں میں پاکستان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو تباہ کردیا گیا ہے۔ پاکستانی روپیہ بھارت اور بنگلہ دیش ہی نہیں افغانستان سے بھی گر چکا ہے۔
کٹھ پتلی حکومت دیکھ کر بھارت نے کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا ہے اور ہم احتجاج تک نہ کرسکے، حتیٰ اپنے دوستوں کی حمایت بھی حاصل نہ سکے۔ پاکستان کو دیگر ممالک کے ساتھ ملکر او آئی سی کو مضبوط کرنا چاہیے۔
سابق وزرائے اعظم جانتے ہیں کہ کسطرح جمہوری وزرائے اعظم کے گرد شکنجہ کس دیا جاتاہے؟ 2016 میں قومی سلامتی کی بحث کے دوران توجہ دلائی گئی دنیا بھر کے ممالک کو شکایت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سی پیک کو ناکام بنانے کا سلسلہ 2014 میں اس وقت شروع ہوا جب چین کے صدر کا دورہ ملتوی کرا دیا گی۔ سی پیک کے ساتھ بی آر ٹی جیسا سلوک کیا جارہاہے۔
مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ ڈکٹیٹر کے بنائے ادارے نیب کو برقرار رکھنا ہماری غلطی تھی۔ نیب اندھے حکومتی انتقام کا آلہ کار بن چکا ہے۔ ایک آمر کے بنائے ہوئے ادارے نیب کو برقرار رکھنا ہماری غلطی تھی۔ نیب کے کئی سینئر اہلکاروں کے گھناؤنے کردار سامنے آچکے ہیں۔ ہماری اعلیٰ عدالتیں نیب کے منفی کردار پر رائے دے چکی ہیں، نیب اپنے قیام کا جواز مکمل طور پر کھو چکا ہے۔
نوازشریف نے کہا کہ جو نیب سے بچتا ہے اسے ایف آئی اے کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ نیب انتہائی بدبو دار ہوچکا ہے اور اپنی ساکھ کھوچکا ہے۔
موجودہ حکمران دوائیوں کی قیمتیں آسمان پر لے گئے۔ جب ہم حکومت چھوڑ کر گئے اس وقت چینی 50 روپے تھی۔ آج چینی کی قیمت 100 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ چینی کی قیمت بڑھانے میں ملک کا حکمران خود ملوث ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ بنی گالہ میں عمران خان کے ذاتی گھر کی فائل کیا یوں ہی بند رہے گی۔ اتنے سال گزر جانے کے باوجود کیا الیکشن کمیشن درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں کرےگا۔ کیا ان تمام افراد پر فوجداری کا مقدمہ درج نہیں ہوگا؟ عمران خان نے اربوں روپے کی جائیداد رکھتے ہوئے بھی 2 لاکھ 83 ہزار ٹیکس دیا۔ کیا نیب ان آمدن سے زائد اثاثوں پر کوئی نوٹس نہیں لے گا۔
سینئر صحافیوں کو چینلز سے برخاست کرادینا کیا جمہوری ریاست کا طریقہ ہے؟ سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی حفاظت کریں گے۔ میڈیا کی آزادی پر کوئی قدغن قبول نہیں کریں گے۔
نوازشریف نے کہا کہ جمہوریت کو کمزور کرنے کیلئے لڑاؤ اور تقسیم کرنے کی پالیسی چلائی جارہے۔ ہم ایک اور قومی مفاد کی خاطر تقسیم ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ کانفرنس سنگل میل بن سکتی ہے۔
مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ اس وقت ہماری ترجیح سلیکٹڈ حکومت اور اس نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے،
یہ ملک ہمیں تمام چیزوں سے زیادہ عزیز ہے۔
خیال رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف دو مقدمات میں سزا کے بعد ضمانت پر علاج کے لیے لندن میں مقیم ہیں اور پاکستان کی حکومت نے کہا ہے کہ ان کو واپس لایا جائے گا۔
اسلام آباد کے نجی ہوٹل میں آل پارٹیز کانفرنس کی میزبانی پیپلز پارٹی کر رہی ہے جس میں بلاول بھٹو صدارت کر رہے ہیں جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفندیار ولی خان، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، نیشنل پارٹی کے صدر عبدالمالک بلوچ، بی این پی مینگل گروپ کا وفد، آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور دیگر شریک ہیں۔
جماعت اسلامی نے اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسری جانب حکومت کے ترجمانوں نے اپنے بیانات کے ذریعے اے پی سی پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔
وزیر اطلاعات شبلی فراز نے سنیچر کی شام کہا تھا کہ ‘نواز شریف مفرور مجرم ہیں اور ان کا خطاب ٹی وی پر نشر نہیں کیا جا سکتا۔’
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور