عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں کہ لفظوں کی اپنی تصویریں ہوتی ہیں۔ ہر لفظ کے ساتھ ایک تراشیدہ تصویری پیکر ہوتا ہے جو ذہن کی دیوار پر نقش ہوتا ہے۔ ان لفظوں کے معنی بسا اوقات تصاویر میں پوشیدہ ہوتے ہیں اور انہی سے لفظ کے مفہوم واضح ہوتے ہیں۔ یہ تصاویر ہمارے ذہن پر نقش ہو جاتی ہیں یا نقش کروا دی جاتیں۔ بعض اوقات تصویر کی تلاش میں لفظ سرگرداں ہوتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ تصویر لفظ کو تلاش کر رہی ہوتی ہے۔ یہ لفظی تصویریں ہمارے بچپن سے مفہوم پاتی ہیں اور تا عمر ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ کچھ تصویریں ہمیں زور زبردستی سے رٹائی جاتی ہیں اور کچھ ایسے نقش ہوتے ہیں جو ہمارے ذہن پر منجمند ہو جاتے ہیں۔ آپ چاہے کتنی بھی کوشش کر کے ان تصویروں کو ذہن سے کھرچیں یہ پھر بھی اپنا نشان باقی رکھتی ہیں۔ اپنی شبیہ قائم رکھتی ہیں۔ لفظوں سے ذہن میں تصویر بننا بعض اوقات شعوری کوشش ہوتا ہے اور اکثر یہ کیفیت غیر شعوری ہوتی ہے۔ جیسے بچوں کو حروف تہجی سکھاتے ہوئے تصویر دکھائی جاتی ہے۔ الف سے انار بتایا جاتا ہے اور ب سے بکری بتایا جاتا ہے۔ پ سے پنکھا سکھایا جاتا ہے۔ ان لفظوں کی یہی تصاویر تمام عمر ہماری یاداشت پر نقش رہتی ہیں ہمیں ابجد کے ابتدائی سبق یاد کرواتی ہیں۔
ہماری سیاسی لغت میں بے شمار لفظ ایسے ہیں جن کے معنی تصویر کی شکل میں ہم پر بہت دیر میں واشگاف ہوئے ہیں۔ اب ”احتساب“ کے لفظ کو ہی لے لیں۔ آنکھیں بند کر کے اس لفظ کو سوچیں تو اپوزیشن کے قریباً ہر رہنما کی تصویر آپ کے سامنے آئے گی مگر حکومت کا کوئی سیاست دان، کوئی وزیر، کوئی مشیر اس لفظ کی قید میں نہیں آئے گا اس لئے کہ ہمیں یہی رٹایا گیا ہے کہ اگر ”احتساب“ ہو گا تو اپوزیشن کا ہو گا اور حکومت کے ارباب بست و کشاد کا اس لفظ سے نہ کوئی تعلق ہے نہ وہ اس لفظ کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔
اسی طرح ”پٹواری“ اور ”برگر“ دو مختلف لفظ ہیں۔ دونوں کے معنی مختلف ہیں اور دونوں کا کوئی سیاسی مفہوم نہیں ہے۔ لیکن ہماری سیاسی ابجد نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے نام ہیں۔ ایک جہالت پر طنز ہے دوسرا نزاکت کا تمسخر ہے۔ ایک قدامت پسندی کی علامت ہے اور بے راہ رو جدت پسندی کی۔ ان ہر دو الفاظ کے حقیقی معنی وہ نہیں ہیں جو ہمارے ہاں ہو گئے ہیں۔ لیکن اب کیا کیجئے ان دونوں لفظوں سے ہمارے ذہنوں میں سیاسی جماعتوں کے طور طریقے منسوب ہو گئے ہیں۔ اب آپ لاکھ کوشش کیجئے آپ کا ذہن آپ کو ان لفظوں سے بننے والی سیاسی تصویر سے آزاد نہیں کرے گا۔ پٹواری کا لفظ جہاں بھی آئے گا آپ کے ذہن میں نون لیگ والے اور برگر سے پی ٹی آئی والے ہی آئیں گے۔
ایک لفظ ”انصاف“ بھی ہے اس سے آپ کے ذہن میں فوراً ترازو کی تصویر آئے گی۔ دو برابر پلڑوں کا نقش ذہن میں بن جائے گا۔ لیکن پاکستان میں اس کے حوالے مختلف تصویریں ہمارے ذہنوں پر نقش ہیں۔ کبھی اس لفظ کے معنی افتخار چوہدری کی تصویر میں بدل جاتے ہیں، کبھی یہ لفظ ثاقب نثار کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور کبھی یہ فائز عیسی کی اہلیہ کی ایف بی آر کے دفتروں کے باہر چکر لگاتے ہوئے منظر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ لفظ ارشد ملک کے اعترافی بیان کا منظر بھی ہمیں دکھاتا ہے۔ ان شبیہوں کے بعد ہمیں ترازو کے دو پلڑے برابر نظر نہیں آتے۔ انصاف میزان کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔ ادھورا نقش ادھورے انصاف کی شبیہ دکھاتا ہے۔ انصاف کا لفظ ان تصاویر سے وابستہ ہو کر ادھورا رہ جاتا ہے۔ ترازو کا ایک پلڑا ہمیں ہر تصویر میں طاقت ور کی جانب جھکا دکھائی دیتا ہے۔
لفظ کی فصیلوں پر چنی ان تصویروں سے ہماری تاریخ بنتی ہے۔ جیسے بھٹو کے لفظ کے ساتھ ہمیں پرجوش جیالے نظر آتے ہیں۔ پھانسی کا پھندا نظر آتا ہے۔ کوڑے کھانے والے سیاسی کارکن نظر آتے ہیں۔ بے نظیر کی آخری تقریر سے پہلے پھول زیب تن کیے تصویر نظر آتی ہے۔ لیاقت باغ میں گولی کی آواز سنائی دیتی ہے۔ دھماکے کی دہشت سے دل لرزتا ہے۔ قربانی دکھائی دیتی ہے۔ آہیں اور آنسو سنائی دیتے ہیں۔ تب ہی آج تک بھٹو کا لفظ سنتے ہی جیالے مرنے مارنے کو تیار ہوتے ہیں۔ ان کا خون صرف اس لفظ سے جوش مارتا ہے۔ تاریخ نے یہ مناظر اس لفظ میں محفوظ کیے ہیں۔ یہ تصاویر ہمیں رٹائی نہیں گئیں یہ لاشعوری طور پر ہمارے حافظے میں محفوظ ہیں۔
ایک لفظ ”شریف“ بھی ہے۔ ڈکشنری میں اس کے معنی کچھ بھی ہوں ہمارے سیاسی اذہان میں اس لفظ سے نواز شریف کی شبیہ ابھرتی ہے۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے نواز شریف۔ اسحاق خان کا ڈسا ہوا نواز شریف۔ جلسوں کی قیادت کرتا نواز شریف۔ تین دفعہ وزارت عظمی سے رخصت کیا گیا نواز شریف۔ لندن سے بیٹی کے ساتھ قید ہونے کے لئے واپس آتا نواز شریف۔ مریم نواز کی سرپرستی کرتا نواز شریف۔ دل کا مریض نواز شریف۔ اپنی آمد سے خوفزدہ کرتا نواز شریف۔ اس لفظ سے اب مریم نواز کی شبیہ بھی ابھرتی ہے۔ وہی قید بند کی صعوبتوں کے بعد گرجنے والی مریم نواز شریف۔ باپ کے نقش قدم پر چلنے والی مریم نواز۔ جس کے پاس اب حوصلے اور ہمت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جو نوجوانوں کو روشن مستقبل کی تصویر دکھاتی ہے۔ ایک ایک ٹویٹ سے کئی کئی فصیلیں گراتی ہے۔ یہ سب منظر اور نقش اس لفظ کے مرہون منت ہیں۔
لفظوں کی اپنی تصویریں ہوتی ہیں۔ میں نے کچھ لفظوں کی چند تصاویر اور مناظر کا ذکر کیا ہے۔ ایسی ہزاروں مثالیں ہیں۔ سینکڑوں منظر ہیں جو ہماری یاداشت میں رقم ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لاشعوری طور پر ہمارے ذہنوں میں بس گئے ہیں۔ کسی کاوش اور کوشش کے بنا۔ آنے والا وقت ہو سکتا ہے جب ایک نیا سیاسی قاعدہ تخلیق کرے تو اس میں لفظوں کے ساتھ تصویریں مختلف ہوں۔ معنی مختلف ہوں۔ الف سے انار کے بعد ب سے بھٹو کی تصویر دکھائی جائے۔ ن سے نواز شریف کی شبیہ بنائی جائے۔ انصاف کے نام پر قاضی فائز عیسی کا نقش بنا دیا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کیا اگر آنے والے سیاسی قاعدے میں پ سے ”پیزا“ کی تصویر بنانے کی اجازت مل جائے گی یا پھر قاعدے میں اس تصویر کے لگانے کو ریاست کے خلاف مذموم سازش قرار دیا جائے گا؟ خیر اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت اور اس کا سیاسی قاعدہ ہی کرے گا۔ آج بس یاد رکھئیے لفظوں کی اپنی تصویریں ہوتی ہیں اور وہ تاعمر ہمارے ذہنوں پر نقش رہتی ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ