مژدم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ تاجروں کے ہاں علم کی مخالفت قابلِ فہم ہے کیونکہ
وحیش ، یعنی سوداگر تاجر وغیرہ کو بھی پڑھنے کی اجازت نہیں تھی ، وحیش کو پڑھنے کی اجازت گپتا سلطنت کے دورِ حکومت میں ملی،
دوم انکے نزدیک بھی شودر کمی تھے، تاجری اپنی اساس میں خلاقیت سے کوئی تعلق نہیں رکھتی سرمائے سے رکھتی ہے اور شودروں کے ہاں جتنے بھی پیشے تھے وہ تمام اپنی اساس میں معاشی فوائد کے حامل تھے خلاقیت کے بھی ساتھ میں سرمائے سے بے نیاز بھی، جدید دنیا کی بڑی انڈسٹریوں کی فہرست کو جب دیکھتے ہیں تو اس میں فیشن انڈسٹری اُتم درجے پر فائز نظر آتی ہے اور فیشن کا جب جینیاتی جائزہ لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے یہ نائی درزی سے ارتقاء پذیر ہوئی ، اسی طرح براصغیر میں سب سے پہلے زمینی صابن کی دریافت کرنے والے دھوبی سے تعصب کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے ، تعصب دھوبی سے زیادہ اُس کے پیشے سے ہے ، اسی طرح نائی سے بھی، نائی کے پیشے کو حقارت سے دیکھنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ انہیں خوبصورت بناتا ہے صاف ستھرا بناتا ہے
دھوبی سے اس لئے کہ وہ انکے کپڑے صاف ستھرے بناتا ہے اور وہ یہ سب اپنے ہنر اور خلاقی سے کرتا ہے جو انکے پاس کبھی تھی ہی نہیں، انہوں نے تو دنیا کو محض خود تک محدود کرنے والے علوم و فنون میں کامیابیاں سمیٹیں
انکی یہ حالت بھی قابلِ فہم ہے کہ جب کثیر تعداد کو آپ کچھ سنا ہی نہیں سکتے جب آپ کا ہر فرمان مقدس ہے اور سننے والا ناپاک تو آپ ایسے ہی علوم و فنون میں ترقی کریں گے جس سے اجتماع فائدہ نہ اٹھا سکے اور وہ ہمیشہ اپنی بنیاد میں انفرادی ہو
جبکہ معاشرے اجتماعی علوم و فنون کے مرحونِ منت ہوتے ہیں ۔
جنگلوں میں مراقبوں کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ انکا سامنا نہ ہو کیونکہ مانا جاتا تھا کہ شودر یا اچھوت کی شکل پنوتی ہے یہ ایسے ہی تھے جیسے کالی بلے کے لئے ہمارے ہاں متھ پائی جاتی ہے کہ وہ راستہ کاٹ جائے تو دن برا گزرتا ہے
بقول والمکی ، شامبوکا کو رام نے محض اس لئے قتل کر دیا کہ وہ پوجا سن رہا تھا،
اور رام نے کہا کہ شامبوکا کو اگر قتل نہ کیا جاتا تو اس کی وجہ سے برہمن خانوادے میں ایک براہمن کی موت ہو جاتی
شامبوکا ایک شودرا تھا
جاری ہے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ