نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی میں بہت کچھ دیکھنے کے بعد بالآخر اب یہ جان لیا ہے کہ سیاست دانوں کا اصل مقصد حصول اقتدار ہوا کرتا ہے۔اس کے حصول کے لئے جمہوری ملکوں میں عوام
’’حرکت تیز تر ہے‘‘ والی کیفیت برقرار رکھنے کے لئے ٹی وی سکرینوں پر ٹکر چلتے ہیں۔ بریکنگ نیوز ہوتی ہے اور اخبارات میں چیختی دھاڑتی سرخیاں۔ فقط ان پر اکتفا کریں تو ’’دریافت‘‘ یہ ہوگا کہ تھوڑی اکثریت کے باوجود حزب مخالف کی تمام جماعتیں بدھ کی شام باہم مل کر بھی عمران حکومت کو وہ قوانین قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس سے پاس کروانے سے نہ روک پائیں جنہیں سینٹ سے نامنظور کروادیا گیا تھا۔
دوبرس تک ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والا ماحول بالآخر یہ پیغام دیتا نظر آرہا ہے کہ عمران حکومت مستحکم ہوگئی ہے۔ اسے گھر بھیجنے کے خواب دیکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ حکومت کا استحکام اس وجہ سے بھی بھاری بھر کم نظر آتا ہے کہ قومی اسمبلی میں اسے مؤثر اکثریت میسر نہیں۔ قانون سازی کے لئے مختلف الخیال‘‘ اتحادیوں‘‘ کی محتاج رہتی ہے۔وہاں سے مگر کوئی قانون پاس ہوجائے تو سینٹ میں موجود اپوزیشن جماعتیں اسے ’’مسترد‘‘کردیتی ہیں۔ایسے حالات میں عمران خان صاحب کے لئے ممکن نہیں تھا کہ برق رفتاری سے متعارف کروائے نئے قوانین کے ذریعے وطنِ عزیز کو ’’گڈگورننس‘‘ فراہم کرسکیں۔
مارچ 2021 کا لہٰذا انتظار ہورہا تھا۔ سینٹ کی آدھی نشستیں اس مہینے خالی ہوجائیں گی۔ امید تھی کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیوں میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر تحریک انصاف سینٹ کی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔ بلوچستان عرصہ ہوا ’’باپ‘‘ کے سپرد ہوچکا ہے۔ اس صوبے سے اب کسی ’’تخریب کار‘‘ کی ایوانِ بالا میں درآنے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ مرحوم حاصل بزنجو کی خالی ہوئی نشست حال ہی میں ایک ذمہ دار ’’محب وطن‘‘ کو مل گئی ہے۔ آئندہ برس ایسے ا فراد کی تعداد میں اضافہ ہی ہوگا۔مارچ2021 میں داخل ہونے کے لئے لیکن ابھی چھ ماہ درکار ہیں۔ حکومتوں کے لئے یہ بہت طویل عرصہ ہوتا ہے ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ یہ عرصہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہیں۔ ’’اچھے وقت‘‘ کا انتظار کریں۔ ’’اچھے وقت‘‘ کا ذکر چلا ہے تو یادرکھنا ہوگا کہ سینٹ میں جس ’’اکثریت‘‘ کے بل بوتے پر حزب مخالف کی جماعتیں اتراتی پھررہی تھیں اس کی حقیقت گزشتہ برس کے اکتوبر ہی میں عیاں ہوگئی تھی۔ عمران حکومت کو ’’دھچکا‘‘ دینے کے لئے اس وقت سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔ یہ تحریک ایوان میں پڑھی گئی تو اس کی حمایت میں اپوزیشن کی صفوں سے 64 افراد کھڑے ہوگئے۔ پولنگ بوتھ میں داخل ہوتے وقت مگر ان کے ’’ضمیر‘‘ جاگ گئے۔ 15 افراد نے تنہائی میں سنجرانی صاحب کی حمایت میں ووٹ ڈالا۔ ووٹوں کی گنتی ہوئی تو اپوزیشن والے ہکا بکا رہ گئے۔ کئی ماہ گزرچکے ہیں۔ ان کی صفوں میں موجود ’’باضمیر‘‘ اراکین کی مگر ابھی تک شناخت نہیں ہوپائی ہے۔ اس دن کو یادرکھتے ہوئے حزب مخالف کی جماعتوں اور خاص طورپر مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کو جان لینا چاہیے تھا کہ سینٹ میں ان کی ’’طاقت‘‘ کسی کام کی نہیں رہی۔ سرجھکاتے ہوئے قانون سازی کے لئے عمران حکومت کو تعاون فراہم کرنا شروع ہوجاتیں۔ حق بات یہ بھی ہے کہ وہ اس امر کو تیار ہوگئی تھیں مگر کوئی ’’سائل‘‘ ہی نہیں تھا۔ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلوانے کے لئے چند قوانین تیار ہوئے تو ان کی سرعت سے منظوری میں انہوں نے دل وجان سے تعاون کیا۔ اس تعاون کی بابت حواس باختہ ہوکر بلوچستان کے قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کے نمائندے ایوان میں کھڑے ہوکر اپنے ساتھیوں کو ’’سودے بازی‘‘ کے طعنے دینا شروع ہوگئے۔ دونوں بڑی جماعتوں کے اراکین منہ چھپاتے یہ طعنے سنتے رہے۔ یہ شرمساری بھی مگر ان کے کام نہیں آئی۔
جن کی خاطر ’’دین ودل‘‘ گنوائے تھے ان کی جانب سے قائد ایوان ڈاکٹر وسیم شہزاد صاحب نے فلور سنبھالا۔ ہم جاہلوں کو یہ سمجھایا کہ پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں ’’دہشت گردی کے لئے جمع ہوئے سرمایے‘‘ کی وجہ سے نہیں گیا تھا۔ اصل وجہ ’’منی لانڈرنگ‘‘ تھی۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف کا سارا خاندان اس جرم کا مسلسل ارتکاب کرتے رہے ہیں۔ اپنے اقتدار کے دوران جمع ہوئی قوم کی دولت کو انہوں نے بیرون ملک بھیجا۔ وہاں قیمتی جائیدیں خریدیں۔ باہر بھیجی رقوم کو اب TTs کے ذریعے پاکستان منگوا کر شہباز شریف کے فرزند اپنے کاروبار کو فروغ دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر وسیم شہزاد سے قبل شاہ محمود قریشی صاحب بھی قومی اسمبلی میں ایک دھواں دھار تقریر فرماچکے تھے۔ اس تقریر میں انہوں نے ’’انکشاف‘‘ کیا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوانے کے لئے درکار قوانین کی منظوری میں تعاون کے بدلے مسلم لیگ (نون) اور پیپلزپارٹی کے نمائندے نیب قوانین میں نرمی لانے کا تقاضہ کررہے ہیں۔ تحریک انصاف نے قصہ مختصر بہت مہارت سے یہ پیغام پھیلادیا کہ پاکستان FATF میں آصف علی زرداری اور شریف خاندان کی مبینہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کی وجہ سے گیا تھا۔ ہمارے ازلی دشمن -بھارت- کی اب یہ خواہش ہے کہ ہم ’’بلیک‘‘ میں پھینک دئیے جائیں۔ ایسا ہوگیا تو پاکستانی معیشت تباہ وبرباد ہوجائے گی۔ قومی مفادات کو بھلاتے ہوئے مگر اسمبلیوں میں موجود شریف خاندان اور آصف علی زرداری کے ’’ذہنی غلام‘‘ اپنے آقائوں کے لئے NRO کا تقاضہ کررہے ہیں۔مبینہ ’’غلاموں‘‘ کو سوپیاز اور سوجوتوں والی تذلیل برداشت نہ ہوئی۔ سینٹ سے قوانین دھڑا دھڑ منظور ہونا شروع ہوگئے۔
یہ حقیقت مگر عیاں ہے کہ اپنی ’’غلامی‘‘ پر نادم ہوئے افراد مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کی فیصلہ سازی میں اہمیت کے حامل نہیں۔ دونوں ایوانوں میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (نون) ہے۔ اس کی قیادت شہبازشریف کررہے ہیں۔ وہ ’’نیویں نیویں‘‘ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مسلم لیگ کی صفوں میں موجود ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘ افراد ان کی حکمتِ عملی کو مناسب قرار دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ’’نیویں نیویں‘‘ رہنے کے باوجود شہبازشریف اور ان کا خاندان گزشتہ کئی دنوں سے ’’منی لانڈرنگ‘‘ کے الزامات کی زد میں ہیں۔ حمزہ شہباز شریف کی بھی جیل سے باہر آنے کی کوئی صورت نہیں بن رہی۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اٹھے بقراطِ عصر بلکہ متنبہ کر رہے ہیں کہ شہباز صاحب کو بھی جلد ہی اپنے فرزند کو جیل میں کمپنی دینا ہوگی۔ پارٹی قیادت جب خودمصیبت میں گھری ہو تو اس کی ’’بصیرت‘‘ پر تکیہ کرنے والے بھی پریشان ہوجاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہے۔عمران حکومت کے لئے لہذا ’’گلیاں سنجیاں‘‘ ہوچکی ہیں۔ ان گلیوں میں شہزاد اکبر، شہباز گل اور مراد سعید دندناتے پھررہے ہیں۔ ’’باریک کام‘‘ مگر ڈاکٹر بابر اعوان نے دکھایا۔ اپنے قائد کو قائل کر دیا کہ دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلاکر وہ تمام قوانین منظور کروا لئے جائیں جو اپوزیشن سینٹ سے نامنظور کرتی رہی ہے۔ بدھ کی شام یہ مرحلہ بخیر و خوبی اپنے انجام کو پہنچا۔ سینٹ میں اپوزیشن اراکین اب فقط ’’تقریر‘‘ ہی کیاکریں گے۔ ’’اکثریت‘‘ کے گماں میں اترانے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
محض گنتی کی منطق کو نگاہ میں رکھیں تو حزب مخالف کی جماعتوں کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں چھ افراد کی اکثریت میسر ہے۔ بدھ کی شام مگر ایک مرحلے پر گنتی ہوئی تو حکومت کو دس افراد کی برتری ملی۔ اپوزیشن کی صفوں سے ایک دو نہیں بلکہ 36 اراکین ایوان میں موجود نہیں تھے۔ غیر حاضر اراکین کی شناخت ہرگز کوئی معمہ نہیں ہے۔ کسی بھی ایوان کا اجلاس ہوتا ہے تو اس میں موجود اراکین کے نام ایک رجسٹر میں باقاعدہ درج ہوتے ہیں۔ ان سے رابطہ کرکے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ’’تاریخی‘‘ موقعہ پر دائیں بائیں کیوں ہوگئے۔ بدھ کی شام سینٹ کے چیئرمین کی طرح پولنگ ووٹ کی تنہائی میں ’’بے وفائی‘‘ نہیں ہوئی۔ برسرعام اور ہر حوالے سے دانستہ غیرحاضری کا ارتکاب ہوا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین میں لیکن یہ جرأت ہی موجود نہیں کہ غائب ہوئے لوگوں سے غیر حاضری کی وجوہات پوچھیں۔ فرض کریں میں ان میں شامل ہوتا تو آصف علی زرداری صاحب اور شہبازشریف صاحب کو عاجزی سے بیان کردیتا کہ صاحب اگر آپ یا آپ کے اعتماد والے مصاحبین رات کی تنہائی میں ’’ان‘‘ سے ملاقاتیں کرسکتے ہیں تو میں بدنصیب بھی کوئی ’’جگا‘‘ نہیں ہوں جو ’’انقلابی اور اصولی‘‘ نظر آنے کے جنون میں خود کو نیب کی نگاہ میں لائوں۔ وہ مجھے گرفتار کرلے تو میری ضمانت بھی ممکن نظر نہ آئے “Deal” کی صلاحیتوں پر آپ ہی کا اجارہ نہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر