نومبر 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وائس آف امریکا کی ملازمت اچانک ختم ہونے کے بعد!۔۔۔مبشرعلی زیدی

بیٹا مجھے بٹھاکر گاڑی چلا کر مائیکرو سینٹر لے گیا۔ کمپیوٹر خریدنے کے بجائے تمام نئے پارٹ الگ الگ خریدے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وائس آف امریکا کی ملازمت اچانک ختم ہوگئی۔ لوگ بتاتے ہیں کہ ادارے کی 78 سالہ تاریخ میں کبھی کسی کو اس طرح ٹرمنیٹ نہیں کیا گیا جس طرح ہمیں۔ ہم یعنی چار عارضی ملازمین کو۔ پانچویں ساتھی مستقل ملازم ہیں۔ ان کے بارے میں کچھ علم نہیں۔
یہ کہتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے کہ ہمیں ٹرمنیٹ کیا گیا۔ جس شخص کو اپنے ہر ادارے میں ہمیشہ تعریفیں سننے کو ملی ہوں، اس کے لیے خود کو یقین دلانا آسان نہیں کہ اسے ادارے سے نکالا گیا ہے۔ لیکن اطمینان اس بات کا ہے کہ غفلت کا الزام نہیں تھا۔ کرپشن کا الزام نہیں تھا۔ ہراسمنٹ کا الزام نہیں تھا۔ برے رویے کا الزام نہیں تھا۔
وائس آف امریکا میں کنٹریکٹرز کو بونس نہیں دیے جاتے تھے۔ مجھے ایک سال میں دو بونس ملے اور تیسرا یہ کیس سامنے آنے کے بعد روکا گیا۔ سال بھر بہترین کارکردگی پر بونس کا وعدہ تھا۔ میرے پاس ادارے کا وہ تعریفی خط ہے جو مجھے اس بونس کا حق دار بناتا ہے۔
پھر ہمیں کیوں نکالا گیا؟
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک کنزرویٹو فلم میکر مائیکل پیک کو وائس آف امریکا کے نگراں ادارے یو ایس اے جی ایم کا سربراہ نامزد کیا تھا۔ یہاں سرکاری اداروں کے سربراہوں کی تعیناتی کانگریس کی منظوری سے مشروط ہوتی ہے۔ مائیکل پیک کی منظوری میں تین سال لگ گئے۔ تین ماہ پہلے انھوں نے عہدہ سنبھالا۔
انھوں نے آتے ہی پہلا کام کیا کہ عارضی ویزوں کے ملازمین کی توسیع روک دی۔ وائس آف امریکا کی خبریں اور نشریات قانون کے تحت اندرون ملک کے لیے نہیں ہوتیں۔ ان کا رخ ہمیشہ بیرون ملک ہوتا ہے۔ دوسرے ملکوں کے لیے نشریات ہوتی ہیں تو ان ملکوں کے صحافیوں کو عارضی ویزوں پر مدعو کیا جاتا ہے۔ بعد میں انھیں مستقل کردیا جاتا ہے۔ ان کا گرین کارڈ اسپانسر کیا جاتا ہے۔
مائیکل پیک آئے تو اس وقت 76 ملازمین عارضی ویزوں پر تھے۔ توسیع نہ ہونے کی وجہ سے ان سب کو اپنے اپنے ملک واپس جانا پڑے گا۔ ان میں سے کچھ کو اپنے ملکوں میں خطرات لاحق ہیں۔ صحافتی تنظیمیں اور میڈیا تنقید کررہا ہے لیکن مائیکل پیک نہیں سن رہے۔
ان حالات میں وائس آف امریکا اردو پر ایک خبر صدارتی امیدوار جو بائیڈن کے مسلمانوں سے خطاب کے بارے میں چلی۔ خبر میں کیا ٹھیک تھا، کیا غلط تھا، اس سے قطع نظر مشکوک انداز میں تحقیقات ہوئی جس میں کوئی صحافی شامل نہیں تھا۔ ایک وکیل صاحب نے تحقیقات کی اور ہمیں ملزم ٹھہرادیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق ان وکیل صاحب کا اپنا کیس عدالت میں ہے کیونکہ انھوں نے اپنے باپ کو دھمکایا تھا۔ عدالت نے ان پر پابندی لگائی ہے کہ اپنے والد سے دور رہیں۔ ان سے یہ بھی کہا ہے کہ اسلحہ نہیں رکھ سکتے۔
ٹرمنیشن کے بعد میں نے عدالت سے رجوع کرلیا ہے۔ وکیل کا کہنا ہے کہ میرا کیس مضبوط ہے کیونکہ خبر چلنے میں میرا کردار نہیں تھا۔ جن کا کردار تھا، ان کی سزا بھی اس قدر سخت نہیں ہونی چاہیے تھی۔
کیا یہ دلچسپ بات نہیں کہ مبینہ ملحد اور مصدقہ متشکک کو مسلمانوں کے حق میں خبر چلانے پر امریکہ میں ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے؟
ادھر پاکستان میں اے آر وائی نے احمد نورانی کے خلاف خبر چلائی تو اس میں میرا نام بھی شامل کرلیا۔ یہاں میں بیروزگار بیٹھا ہوں اور دوست سمجھ رہے ہیں کہ مجھے ملک دشمن خبریں چلانے پر لاکھوں ڈالر مل رہے ہیں۔
الیکشن ٹرمپ جیتیں یا بائیڈن، کیس کا فیصلہ ہمارے حق میں ہو یا خلاف، بہرحال مجھے کچھ کرنا ہے۔ خیال آیا کہ میرا تعلق بے وجہ احمد نورانی کی ویب سائٹ سے جوڑا جارہا ہے۔ کیوں نہ میں اپنی مرضی کی ویب سائٹ بناؤں؟ کیوں نہ اس میں اپنے دوستوں کے بلاگ اور وی لاگ شامل کروں؟ کام چل پڑا تو دوسروں کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی۔ نہ چلا تو اپنی خوش فہمی دور ہوجائے گی۔
ویب سائٹ کا نام بے لاگ رکھا ہے۔ بے لاگ یعنی صاف صاف اور کھری کھری۔ کوئی ایڈیٹنگ نہیں۔ کوئی سنسرشپ نہیں۔ جو کہنے والا کہے گا، ہم چھاپیں گے۔ کسی کو اچھا لگے یا برا لگے، اب بولنے والوں کو کوئی نہیں روک سکتا۔
واضح رہے کہ یہ ویب سائٹ کسی کی حریف نہیں۔ کسی کے خلاف نہیں۔ میری کسی سے رقابت نہیں۔ میں خود دو ویب سائٹس کے لیے لکھ رہا ہوں۔ آج آصف بھائی یعنی آصف فرخی کی سالگرہ ہے۔ وہی رول ماڈل ہیں۔ اپنا پرچہ نکالتے تھے لیکن دوسروں کے رسالوں میں بھی مضامین لکھتے تھے۔ ایسا ہی ہونا چاہیے۔
اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو اتوار کو ویب سائٹ کا پہلا صفحہ چھاپ دوں گا۔ گزشتہ دو ہفتوں سے دوستوں سے تعاون کی درخواست کررہا تھا۔ کچھ بلاگ، وی لاگ مل گئے ہیں۔ باقی راستے میں ہیں۔ جو دے، اس کا بھلا۔ جو نہ دے، اس کا بھی بھلا۔
کوئی مہربان وی لاگ بھیجنا چاہے تو تین سے پانچ منٹ کی ویڈیو وی ٹرانسفر سے بھیج دے۔ بلاگ بھی بھیجا جاسکتا ہے۔ ای میل ایڈرس یہ ہے:
mubashirzaidi@outlook.com

About The Author