گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری زندگی ایک معمولی گاٶں سے شروع ہوئی لیکن بچپن کی چھوٹی عمر میں پہلے کینٹ بورڈ ہائی سکول ملتان صدر دو سال اور پھر پانچویں کلاس سے اگلے تقریباً چھ سال مسلم لیگ ہائی سکول ایمپرس روڈ لاہور سے میٹرک پاس کرنے تک رہا۔ گاٶں میں تقریباً ایک سٹیٹس کے لوگ تھے جن کا گزارا معمولی نوکری ۔زراعت اور مال مویشی پالنے پر تھا۔ گاٶں کے تمام مکان کچے تھے تعلیم بھی بہت کم تھی مگر ایک مضبوط تہزیب کے مالک تھے۔ سب گاٶں ایک رشتے میں پرویا ہوا تھا ۔ مالی حالات معمولی فرق کے ساتھ تقریباً سب کے برابر تھے۔ اس تہزیب کا بس ایک بہت زبردست فاعدہ تھا کہ نہ کوئی جاگیردار اور نہ وڈیرہ تھا جو ہماری فکر کی آذادی کو چھینتا اور ہمیں خصلت غلامی میں لپیٹتا۔یہی وجہ تھی کہ جب میں دوسرے شھروں میں پہنچا تو میری سوچ ایک آذاد پنچھی کی طرح پرواز کرتی تھی۔طرح طرح کے انوکھے سوال ذھن پر چھا جاتے اور میں بڑی آذادی سے اپنے اساتذہ سے سوال کرتا اور وہ خوش ہو کر ان سوالوں کے جوابات دیتے۔ اس جہاں گردی میں اساتذہ میرے سوال سن کر کبھی کوئی اچھی کتاب پڑھنے کو دے دیتے یا رہنمائی فرما دیتے کہ فلاں کتاب بازار سے خرید کے پڑھ لوں۔ ایک پسماندہ علاقے کا آدمی اگر بڑھے شھر جاۓ تو سب سے پہلے اس کو بڑی عمارتیں اور دولت کی ریل پیل متاثر کرتی ہے جو اپنے ارد گرد دیکھ رہا تھا البتہ اس زمانے ہمارے سکول کے بیشتر اساتذہ متوکل اور صوفی مزاج ہوتے تھے اور دھن دولت سے غرض نہیں رکھتے تھے ۔ ملک میں کرپشن ابھی کونپلیں نکال رہی تھی اور ہمارے خون میں ہولے ہولے سرایت کر رہی تھی۔ان درویش صفت اساتذہ کی رہنمائی کا یہ فاعدہ ہوا کہ مجھے اچھی لائیبریریوں کی ممبرشپ مل گئی اور اکثر سوالوں کے جوابات میں نے کتابوں میں ڈھونڈ نکالے ۔اس وقت میرے سامنے Bill gate
جیسے لوگ تو نہیں تھے لیکن جو امیر تھے وہ مجھ سے کافی دور فاصلے پر تھے۔ میرے ذھن میں ایسے سوالوں کی خلش کتابیں پڑھ کر دور ہوئی اور پھر ان کتابوں نے میرے دل کو بے تاج بادشاہ بنا دیا۔اللہ پاک آپ کو بادشاہ اس طرح بناتا ہے کہ جو خواہش دل میں پیدا ہوتی ہے وہ پوری ہو جاتی ہے اور جس کو پورا نہیں ہونا ہوتا وہ خواہش دل میں پیدا ہی نہیں ہوتی۔اس طرح اللہ کی کرم کی بارش میں آپ ڈیپریشن سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ آپ اگر اس مقام پر ہیں تو الحمد للہ اور اگر یہ مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو دیکھیں کتاب سے کیسے سبق ملتے ہیں۔
واصف علی واصف صاحب لکھتے ہیں جس پہ کرم ھے اُس سے کبھی پنگا نہ لینا۔وہ تو کرم پہ چل رہا ھے، تم چلتی مشین میں ہاتھ دوگے تو اُڑ جاؤگے۔کرم کا فارمُولا تو کوئی نہیں، اُس کرم کی وجہ ڈھونڈو۔جہاں تک میرا مُشاہدہ ھے جب بھی کوئی ایسا شخص دیکھا جس پر ربّ کا کرم تھا، اُسے عاجز پایا۔ پُوری عقل کے باوجود بس سیدھا سا بندہ۔بہت تیزی نہیں دکھائے گا اُلجھائے گا نہیں۔رَستہ دے دے گا۔بہت زیادہ غصّہ نہیں کرے گا۔سادہ بات کرے گا۔ میں نے ہر کرم ہوئے شخص کو مُخلص دیکھا۔اخلاص والا۔غلطی کو مان جاتا ھے معذرت کر لیتا ھے۔سرنڈر کردیتا ھے۔جس پر کرم ہوا ھے نا، میں نے اُسے دوسروں کے لئے فائدہ مند دیکھا۔
یہ ھو ہی نہیں سکتا کہ آپ کی ذات سے نفع ھو رہا ھو اور اللہ آپ کے لئے کُشادگی کو روک دے، وہ اور کرم کرے گا۔میں نے ہر صاحبِ کرم کو احسان کرتے دیکھا ھے، وہ حق سے زیادہ دیتا ھے۔اُس کا درجن 13 کا ھوتا ھے، 12 کا نہیں۔اللہ کے کرم کے پہیے کو چلانے کے لئے آپ بھی درجن 13 کا کرو اپنی زندگی میں۔اپنی کمٹمنٹ سے تھوڑا زیادہ احسان کیا کرو، حساب پہ چلو گے تو حساب ہی چلے گا۔دل کے کنجوس کے لئے کائنات بھی کنجوس ھے۔دل کے سخی کے لئے کائنات خزانہ ھے۔جب زندگی کے معاملات اَڑ جائیں تو سمجھ جاؤ کہ تم نے دُوسروں کے معاملات اَڑاۓ ہوۓ ہیں۔آسانیاں دو، آسانیاں ملیں گی۔۔۔۔ واصف صاحب کی بات تو ختم ہوئی لیکن مُستنصر حسین تارڑ نے جو بات لکھی اس نے بھی میری زندگی بدلنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ وہ لکھتے ہیں۔۔۔ لوگوں سے وہ سوال مت کرو جو خُدا نے اپنے لیے مُختص کر رکھے ہیں
مثلاً…
تُمہارا مذہب کیا ھے؟
تُم نے عبادت کی؟
تُم نے روزہ رکھا؟
لوگوں سے وہ سوال کرو جو انسان کو انسان سے کرنے چاہئیں
مثلاً…
کیا تُمہیں کوئی پریشانی ھے؟
کیا تُم بُھوکے ھو؟
کیا تُمہیں کُچھ چاہئے؟
گلزار احمد
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ