عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکران کے عوام نے مسلح جتھوں کے خلاف کامیاب تحریک کے بعد ڈرگ مافیا کے خلاف ایک اور تحریک کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ منشیات کی فروخت کے خلاف ہر قصبے اور شہر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ مظاہرین نے منشیات کو ریاستی ہتھکنڈہ قرارددیتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ نوجوان نسل کو کتاب کی جگہ منشیات تھما کر ان کی نسل کشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
مسلح جتھوں کے خلاف چلنے والی تحریک شروع میں ایک خود رو تحریک تھی۔ جب رواں سال مئی کے مہینے میں تربت کے علاقے ڈنوک میں تین مسلح ڈاکو ڈکیتی کرنے کی نیت سے ایک مکان میں گھس آئے تھے۔ کم سن بچی کی والدہ ملک ناز کو مزاحمت کرنے پر گولی ماردی گئی تھی جبکہ چھوٹی بچی برامش بلوچ بری طرح زخمی ہوگئی تھی۔ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب پورا مکران ڈاکو راج کے لپیٹ میں تھا۔ مسلح افراد آزاد گھومتے تھے۔ سرِعام اسلحہ کی نمائش کرتے تھے۔ پرامن لوگوں کو حراساں کیا جاتا تھا ۔کسی کی جان و مال محفوظ نہیں تھا۔ چادر و چاردیواری کا تقدس پامال ہورہا تھا۔ ان مسلح افراد سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی تھی۔ ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کی تھی۔ پورے مکران ڈویژن میں ایک خوف کا سما تھا۔ ہر کوئی اپنی عزت کےڈر سے چھپ رہتا تھا۔ کیونکہ یہ مسلح افراد کو پشت پناہی حاصل تھی۔ جس کی وجہ سے ان کو کھلی چھوٹ دی گئی تھی۔
لیکن ڈنوک کی شہید ملک ناز نے اس خوف کی کیفیت کا خاتمہ اپنی بہادری سے کیا۔ انہوں نے اکیلی تین مسلح ڈاکوؤں کا مقابلہ کیا۔آخری دم تک ایک مسلح فرد کو پکڑ ے رکھا۔ حالانکہ وہ بری طرح زخمی تھیں۔ لیکن وہ ایک ڈاکو کو پکڑ کر عوام کے حوالے کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ لیکن اس کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ انہوں نے اپنے لہوسے معاشرے میں ایک خوف کا خاتمہ کردیا۔ ان کے خون نے عوام کو ایک نئی زندگی دی۔ ایک نیا راستہ دکھایا۔ وہ راستہ مزاحمت اور بہادری کا تھا۔ جس کا آغاز تربت کے بجائے گوادر میں ایک مظاہرے کی شکل میں سامنے آیا۔ اس مظاہرے کی قیادت شاہ داد بلوچ، بالاچ قادر اور حسین واڈیلہ کررہے تھے۔ اس مظاہرے کی فوٹیج سوشل میڈیاکی زینت بن گئی تھی۔ مقررین اپنی تقاریر میں مسلح افراد کو للکارہے تھے۔ ان کی گونج اتنی تیز تھی کہ اسکی آواز پورے مکران ڈویژن سمیت بلوچستان اور سندھ کے تمام علاقوں سنائی دی گئیں۔ اس طرح خوف کی کیفیت کا خاتمہ ہوا اور لوگوں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوگیا کہ چند مراعات یافتہ اور حمایت یافتہ مسلح افراد سے ان کی طاقت کئی گنا زیادہ ہے۔ ان کی طاقت نے اسلام آباد کے ایوانوں کو شیش و پینچ میں ڈال دیا۔ بالآخر نامزد ملزمان کو جیلوں کے سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا۔
گزشتہ ماہ اگست کو ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ میں خواتین اور بچوں نے منشیات فروشوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ ظاہری طورپر یہ مظاہرہ ایک معمولی نوعیت کا تھا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل آئے ۔بلیدہ کے ہزاروں لوگوں نے ایک ریلی کی شکل میں منشیات کی لعنت کو ایک سازش قراردیا۔ واضع رہے کہ بلیدہ میرے قابل احترام دوست میر ظہور بلیدی کا آبادی علاقہ ہے۔ اس وقت وہ بلوچستان کے وزیر ہیں۔ اور مکران میں باپ پارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ ان کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے۔
بلیدہ اور زامران کے مظاہرے نے مکران کے دیگر علاقوں کو جگا دیا۔ تربت، دشت، گوادر، پسنی سمیت دیگر علاقوں میں منشیات فروشوں کے خلاف لوگ سڑکوں پر آگئے۔
مکران دنیا میں منشیات کی غیر قانونی اسمگلنگ کا ایک اہم روٹ بھی ہے۔ڈرگ مافیا افغانستان سے مکران کے راستے سے منشیات دنیا میں اسمگلنگ کرتے ہیں۔ ٹنوں کے حساب سے منشیات مکران میں لائی جاتی ہے۔ پھر کاروان کے شکل میں مکران کی ساحلی پٹی پر لانچوں اور بحری جہازوں کے ذریعے یہ منشیات بیرونی ممالک بھیج دی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 20 کروڑ افراد منشیات کے عادی ہیں۔ منشیات کا استعمال سب سے زیادہ امریکا میں ہوتاہے۔
مکران سے جو منشیات دنیا میں اسمگل کی جاتی ہے اس کی مالیت انٹرنیشنل مارکیٹ میں اربوں ڈالرز ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس ناسور کاروبار سے جو آمدنی حاصل ہوتی ہے وہ سعودی عرب کے تیل کی آمدنی کے برابر ہے۔ افغانستان سے مکران کوسٹل ایریا کا فاصلہ تقریبا چودہ سو کلومیٹر ہے۔ اس روٹ سے آنے والی منشیات ٹنوں کے حساب سے لائی جاتی ہے۔ جو پوری کھیپ کی شکل میں ہوتی ہے۔ اور کاروان کے کاروان چلتےہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس روٹ سے اتنی بڑی تعداد میں منشیات کو لانا آسان کام نہیں ہے۔ بلوچستان میں ہر دو کلومیٹر پر چیک پوسٹیں قائم ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں سیکیورٹی کے اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔
ڈرگ مافیا بغیر کسی پشت پناہی سے یہ گھناؤنا دھندہ کیسے کرسکتی ہیں؟۔ وہ بغیر کسی خوف سے کاروبار کیسے کررہے ہیں؟ ان سے کیوں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے؟۔ سیکیورٹی اداروں کے ناک کے نیچے سب کچھ ہورہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انہیں سرکاری اداروں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔
مکران سے گزرنے والی منشیات کی بھاری مقدار مکران کے مختلف علاقوں میں بھی فروخت ہوتی ہے۔ زامران، بلیدہ، تربت، مند، تمپ، دشت، اورماڑہ، کلمت، پسنی، گوادر، پشکان، جیوانی سمیت دیگر علاقوں میں منشیات فروش سرگرم عمل ہیں۔ جس کی وجہ سے تمام علاقوں میں نشے کے عادی افراد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ نوجوان زندہ لاش کی مانند نظر آتے ہیں۔ سیاسی و سماجی حلقوں نے منشیات کی بھرمار کو ایک حکومتی سازش قراردیا۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت ایک منصوبے کے تحت بلوچ نسل کو منشیات کے ذریعے تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ تاکہ بلوچ معاشرے میں سیاسی کلچر کو تباہ کیا جائے۔ سیاسی کلچر کے تباہی سے حکومتی ادارے ایک تیر سے دو شکار کررہے ہیں۔ یعنی سیاسی تحریک کو روکنا ہے۔ اور ساتھ ساتھ اربوں روپے بھی کمانا ہے۔ اس طرح ان کا اقتدار بھی محفوظ اور مال بھی محفوظ ہے۔
دنیا میں کمزور ریاستیں منشیات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ منشیات کی لعنت کو معاشرے میں پھیلانے سے ان کی اقتدار کی مدت طویل ہوجاتی ہے۔ ان کو سیاسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ جب معاشرے میں سیاسی کلچر کا خاتمہ ہوجاتا ہے تو سیاسی مزاحمت یا تحریکوں کا قلع قمع ہوجاتا ہے۔
اس وقت بلوچستان میں بھی ایک غیرسیاسی قیادت نے صوبے کا دارو مدار سنبھالا ہوا ہے۔ آمریت کے سوچ رکھنے والی قیادت ہے۔ وہ بلوچ عوام کو ایک خاص مائنڈ سیٹ میں رکھنا چاہتی ہے۔ اور ان کو ان پڑھ اور مفلوک الحال رکھنا چاہتی ہے۔ تاکہ ان کی حکمرانی اور جبر چلتا رہے۔
قیام پاکستان سے ملٹری اور اشرافیہ کا روایتی گٹھ جوڑ قائم ہے۔ جو موجودہ سیاسی تحریک اس اتحاد کو چیلنج کرتی ہے ۔ ملٹری اور اشرافیہ کے اس ظالمانہ اتحاد کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ اتحاد کسی کٹھ پتلی کے سر پر ہاتھ رکھ دیتا ہے۔ آج کل بلوچستان میں وہ کٹھ پتلی جام حکومت کی شکل میں موجود ہے۔ جو ایک کمزور اور غیرمستحکم حکومت ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچستان میں مافیا طاقتور ہے اور ریاست کمزور ہے۔ آج اس طاقتور مافیا کے سامنے نہتے اور پرامن عوام سراپا احتجاج ہے۔عوام کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ مافیا کے خلاف چلنے والی تحریک کا راستہ کافی کٹھن ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔ کیونکہ عوام کی طاقت ہر ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر