حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ایسے لوگ جو پچھلے کچھ عرصے سے عرض کرتے چلے آرہے تھے کہ نظام،ریاست اور رعایا تینوں کو بند گلی میں دکھیلنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، ان کا تمسخر اڑایا گیا، کہا گیا
”علاقائی وعالمی سیاسیات کی الف بے نہیں آتی اور چلے ہیں تجزیہ کرنے”
اچھا کیا علاقائی وعالمی سیاسیات کا تجزیہ کرنے کیلئے اللہ کریم سے اجازت نامہ لینا پڑتا ہے؟
حضور!
صحافت کوئی مہمان اداکاری نہیں، آپ عامل صحافی بننے کے خواہش مند ہیں تو چار اور کے معاملات سے باخبر رہنا، مطالعہ اور مکالمہ بہت ضروری ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف ادارتی شعبہ سے متعلق عامل صحافیوں کیلئے لازم ہے، نیوز روم میں بیٹھے دوستوں کیلئے بھی یہی اصول ہے۔
صحافت محض خبر بنا دینے، سرخی نکال دینے کا نام نہیں خبر بنانا فن ہے اور سرخی نکالنا اس سے بڑا آرٹ، ادارتی شبعہ، نیوز روم یا رپورٹنگ کے شعبے میں قدم رکھنے والوں کو برسہا برس لگتے ہیں سیکھنے کے عمل میں تب ان شعبوں میں موجود اساتذہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کون کس شعبہ میں بہتر کارکردگی دکھا سکے گا۔
یہ جماندروں سینئر صحافیوں کا لشکر پرویز مشرف کے دور میں اُترا تھا ورنہ صحافت کے کوچہ میں تین چار عشرے بیتانے والے بھی خود کو طالب علم سمجھتے تھے۔
وقت کیساتھ قدریں تبدیل ہوئیں اور ضرورتیں بھی،
رہی سہی کسر کمرشل ازم نے پوری کردی،
اس کے باوجود آج بھی قارئین وناظرین کی بڑی تعداد صحافت پر اعتماد کرتی ہے۔
یہ بھی بجا ہے کہ کبھی سرخے اور جماعتیوں یا سرخے اور ضیاالحقیوں کی پھبتی کسی جاتی تھی۔
جنرل ضیاء الحق سے پہلے ترقی پسند اور رجعت پسند دھڑوں میں ہونے کے باوجود صحافی ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔
یہ احترام تیسرے مارشل لاء میں ایک طبقہ کو اپنے ساتھ ملانے کی حکمت عملی نے نگل لیا۔
1985ء کے بعد صحافت کی دنیا ہی تبدیل ہوتی چلی گئی،
اب صورت یہ ہے کہ جسے تاخیر سے گھر پہنچنے پر کوئی کھانا گرم کرکے نہیں دیتا وہ بھی موبائل کانیٹ آن کر کے صحافیوں کو گالیاں دینے لگتا ہے۔
معاف کیجئے گا بات دور نکل گئی، چار اور حالات ایسے بن رہے ہیں کہ ایک بات سوچیں تو دس باتیں دستک دینے لگتی ہیں۔
پچھلے چند کالموں میں عرض کر چکا کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں انتہا پسندی کو سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت فروغ دیا جارہا ہے۔
خدشات کا اظہار مشاہدے، مکالمے اور رویوں میں درآئی تبدیلیوں کی بناء پر کیا تھا۔
افسوس یہ ہے کہ قانون کی حاکمیت کے بلند وبانگ دعووں کے باوجود قانون نے اپنا راستہ بنایا نہ حکومت نے ذمہ داریوں کا احساس کیا،
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ کوئی سازشی تھیوری ہے نا جاگتی آنکھ کا خواب۔
دو معاملے بہت اہم ہیں
اولاً سی پیک اور ثانیاً بلادعرب میں اسرائیل سے تعلقات کار کے قیام کے نئے دور کا آغاز،جمعہ کو بحرین نے بھی اسرائیل سے معاہدہ امن کرلیا۔
امریکی صدر نے اس حوالے سے تین ملکی اعلامیہ بھی جاری کیا ہے۔
کچھ قوتوں کی خواہش ہے کہ سی پیک رول بیک ہو اور کچھ بلاد عرب کے معاملات (جن سے ہمارا براہ راست تعلق نہیں بنتا) سے توجہ ہٹا کر ایسے حالات پیدا کرنا چاہتی ہیں جن سے پاکستانی ریاست کو عالمی سامراج کی مرضی ومنشا کے مطابق خطے میں کردار ادا کرنے پر مجبور وآمادہ کیا جاسکے۔
یہ امر بجاطور پر درست ہے کہ حکومت اور ریاست کی بعض پالیسیوں پر تحفظات رہے اور ان سطور میں ان تحفظات کے حوالے سے تفصیل کیساتھ معروضات بھی پیش کیں
لیکن کیا حکومت اور ریاست کی بعض پالیسیوں سے شاکی ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان کی سلامتی اور سماجی یکجہتی کیخلاف ہونے والی سازشوں پر خاموش رہاجائے؟
ہماری دانست میں داخلی امور اور نظام کے حوالے سے شکوے شکایات ہی زندگی کی علامت ہیں اور زندگی کا ہی حقیقی فرض یہ ہے کہ حکومت اور عوام دونوں کی توجہ ان خطرات کی جانب دلائی جائے جو تیزی سے بڑھتے چلے آرہے ہیں
بلکہ اگر یوں کہیں تو زیادہ مناسب ہوگا کہ ان میں سے بعض خطرات تو سر پر آن پہنچے ہیں۔
حیرانی اس بات پر ہے اس مشکل وقت میں جب حکومت اور ”ریاست” کو شعبہ صحافت کو ساتھ لیکر چلنا اور سلامتی ویکجہتی کے دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہئے ایک نیا محاذ کھول لیا گیا،
جہلم اور کراچی میں دو سینئر صحافیوں کیخلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج ہوئے،
کراچی کا مقدمہ ایک فیکٹری ورکر نے درج کروایا جو انگریزی زبان سے معمولی سی شُدبُد بھی نہیں رکھتا جہلم میں مقدمہ حکمران جماعت کے وکیل نے(یہ پی ٹی آئی کی ایک ذیلی تنظیم کا مقامی صدر ہے) درج کروایا۔ لاہور،کراچی،کوئٹہ اور اسلام آباد کے صحافتی حلقوں میں ان قلم مزدوروں کے ناموں کی گونج ہے جنہیں ڈرایا دھمکایا گیا۔
اہل اقتدار کو ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا کہ عین اس وقت جب سلامتی ویکجہتی کے دشمن سرگرم عمل ہیں اس نئے پھڈے میں پڑنے کی ضرورت کیا تھی۔
اس وقت توسازشوں کو ناکام بنانے کی ضرورت تھی۔
مکرر عرض کئے دیتے ہیں،
پاکستان میں بدترین فرقہ واریت اور چند دوسرے مسائل کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔
حکومت کے ماتحت ادارے اس صورتحال میں کہیں آرام فرما رہے ہیں۔
متوجہ کرنے والوں کو دھمکا یا جارہا ہے،
بہت ضروری ہے کہ ارباب اختیار خواب غفلت سے پیدار ہوں، قانون شکن ہوں یا منصوبے کے تحت حالات کو خراب کرنے والے دریدہ دہن کسی کیساتھ رعایت نہیں برتی جانی چاہئے۔
موجودہ حالات میں مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی سیاسی اور قومی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہئے،
ان خطرات کے مقابلے کیلئے متحد نہ ہوئے تو خاکم بد ہن سامراجی قوتیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔
مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ ہم ایسے زمین زادوں کیلئے دوسروں کے مفادات سے زیادہ اپنے وجود کو برقرار رکھنا اہم ہے۔
یہ ہمارا ملک ہے اپنی حکومت اور نظام سے لاکھ اختلافات ہوں لیکن یہ اتحاد کے مظاہرے کا وقت ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر