نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ٹوئٹر اکاؤنٹ کی تصدیق کروانا چاہتے ہیں؟ ‘نکالیے دو ہزار ڈالرز’۔۔۔ مونا خان

کسی اکاؤنٹ پر بلیو بیج یعنی تصدیق کا نشان دینے کے لیے ٹوئٹر کوئی فیس نہیں لیتا، لیکن کچھ تھرڈ پارٹیز اکاؤنٹ کی تصدیق کروانے کے لیے بھاری فیس وصول کر رہی ہیں۔

مونا خان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹوئٹر پر بلیو بیج  یعنی ‘ٹک مارک’ تصدیق (Verification) کا نشان سمجھا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اکاؤنٹ ہولڈر اس کا اصلی مالک ہے۔ اکاؤنٹ کی تصدیق کے بعد آپ نقالوں سے بھی بچ جاتے ہیں۔

گذشتہ چند برسوں سے ٹوئٹر نے پوری دنیا بالخصوص ایشیا کے صارفین کے لیے ٹوئٹر اکاؤنٹ کی تصدیق کو مشکل اور سخت کر دیا ہے اور اب ہر شخص اپنا اکاؤنٹ تصدیق نہیں کروا سکتا۔

ڈیجیٹل ماہرین کے مطابق صرف کمپنیوں اور اداروں کے ذریعے یا پھر خاص شخصیات کے اکاؤنٹ تصدیق کیے جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ تصدیق والا بلیو بیج حاصل کرنے کے لیے ٹوئٹر فیس نہیں لیتا بلکہ یہ ایک مفت سروس ہے، لیکن اب کچھ تھرڈ پارٹیز ٹوئٹر اکاؤنٹ تصدیق کروانے کی مد میں فیس وصول کر رہی ہیں اور یہ فیس معمولی نہیں بلکہ ڈالرز میں ہے۔

چند سوشل میڈیا ڈیجیٹل ماہرین نے خود انڈپینڈنٹ اردو سے رابطہ کرکے ٹوئٹر اکاؤنٹ تصدیق کروانے کی پیشکش کی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کا کیا طریقہ کار ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ‘صرف دو ہزار ڈالرز دینے ہوں گے اور اکاؤنٹ ویریفائیڈ ہو جائے گا۔’

اس بات کی تصدیق کے لیے نمائندہ انڈپینڈنٹ نے ایک اور ڈیجیٹل میڈیا ایکسپرٹ سے رابطہ کیا تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ‘وہ اکاؤنٹ ضرور ویریفائیڈ کروا دیں گے، لیکن اس کے لیے 1800 ڈالرز فیس ادا کرنا ہو گی۔’

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ پیسے ٹوئٹر انتظامیہ کو بھی دیے جاتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ‘ٹوئٹر انتظامیہ کو رقم کی کوئی ادائیگی نہیں ہوتی بلکہ یورپی ممالک میں موجود کچھ پارٹنر ایجنسیاں ٹوئٹر کے کسی ملازم کے ساتھ رابطے میں ہیں اور وہ ملازم ٹوئٹر اکاؤنٹ تصدیق کروانے میں مدد کرتا ہے، جس کے عوض  ذاتی طور پر وہ فی اکاؤنٹ کی تصدیق کے لیے کچھ رقم وصول کرتا ہے۔ اس طرح ادا ہونے والی آدھی رقم پارٹنر ایجنسی کو جاتی ہے جبکہ باقی کی رقم ٹوئٹر کا متعلقہ ملازم وصول کرتا ہے اور یوں ٹوئٹر اکاؤنٹ کی تصدیق ہو جاتی ہے۔’

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ:انڈیپینڈنٹ اردو

About The Author