نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جوتیوں میں دال ۔۔۔ حیدر جاوید سید

نجی چینلوں کے سیاپہ پرو گرامو ں میں تندوتیز گفتگوئیں ہورہی ہیں ہمارے مخبر اعظم حسب سابق نسلی تعصب کا چورن بیچ رہے ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب اسد عمر کہہ رہے ہیں

”کراچی پیکج کے736ارب کیلئے وفاق نے وعدہ کیا ہے375ارب روپے سندھ حکومت دے گی۔سپریم کورٹ میں جمع125ارب کے فنڈز بھی وفاقی حکومت کو دستیاب ہوں گے”

اچھا اس کا حساب یہ ہے کہ وفاق اپنے بجٹ سے100 ارب روپے دے گا اور510ارب روپے نجی شعبہ سے لے کر دے گا

پچھلے تین دن سے کراچی پیکج پر جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔

ایک طرف سے کہا جارہا ہے کہ فلاں کو لگام ڈالو دوسری طرف سے پٹہ ڈالنے کا مطالبہ ہورہا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز بولے۔

کراچی بحالی کے منصوبے کی رقم سندھ حکومت کے حوالے نہیں کر سکتے۔

جواب آں غزل مرتضیٰ وہاب نے چھیڑ دی۔

ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت جھوٹ کے سہارے کھڑی ہے۔

نجی چینلوں کے سیاپہ پرو گرامو ں میں تندوتیز گفتگوئیں ہورہی ہیں ہمارے مخبر اعظم حسب سابق نسلی تعصب کا چورن بیچ رہے ہیں۔

مخبروں کی کوئی زندگی ہوتی ہے نا اصول

دو اڑھائی عشرہ قبل ایک عزیز پولیس میں اچھے منصب پر فائز تھے۔

ایک خاندان نے اپنے بزرگ کی گرفتاری پر ان سے سفارش کرنے کے لئے کہا ایک طویل مسافت طے کر کے ان کے پاس حاضر ہوا۔مدعا بیان کیا ۔انہوں نے متعلقہ ایس ایچ او کو طلب کیا۔

ایس ایچ او حاضر ہوا۔تو اس سے گرفتاری کی وجہ پوچھی۔وڈے تھانیدار کا جواب تاریخی تھا۔مختصراً یہ کہ

”جناب عالی وہ ”اعظم”ہمارے تھانے کا پرانا مخبر ہے اب اسے شرافت کا دورہ پڑ گیا ہے اس لئے راہ راست پر لانے کے لئے تھوڑی سی خدمت کرنا پڑی”۔

بس ہمارے مخبر اعظم بھی تھوڑی سی خدمت سے گھبراتے ہیں اس لئے حکومت کسی کی بھی ہو ان کا فرض سندھ اور سندھ کےحامیوں کو کوستے رہنا ہے۔

مرشد سیدی بھلے شاہ نے چار ساڑھے چار صدیاں پہلے درست ہی تو کہا تھا۔

”بندہ اپنے اصل سے کٹ کر بندہ نہیں رہتا”۔

ارے معاف کیجئے گا یہ کہاں کی بات کدھر کو نکل گئی۔

ہم تو کراچی تعمیر وترقی پلان پر جوتیوں میں بٹتی دال پر بات کر رہے تھے۔

ایک بار پھر ایک اور معاملہ ذہن میں آگیا۔

یہ جو پیپلزپارٹی کو سندھ میں چالیس سالوں سے اقتدار میں ہونے رہنے کا طعنہ دے رہے ہیں ان میں سے اکثر1988ء سے2013ء کے درمیان اسی پی پی پی کے کبھی واری صدقے ہوتے اتحاد بناتے اور کبھی”کُٹی”کر کے بیٹھ جاتے تھے

پچھلے دور میں نون لیگ کے اتحادی تھے آجکل تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کا حصہ ہیں۔

کراچی اور حیدرآباد کے بلدیاتی ادارے کتنے عشروں سے ان کے پاس ہیں؟۔

چلیں چھوڑیں ہمیں کیا۔

دوسرے شہریوں کی طرح ہم تو فقط یہ چاہتے ہیں کراچی میں تعمیر وترقی کے منصوبے مکمل ہوں اور شہر کے باسیوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل

تاکہ ایک مارشل لاء کی مخالفت کر کے دو فوجی حکمرانوں کا ساتھ دینے والی نسل اور مذہبی قیادتوں(کراچی کی) کو طعنے مارنے کا موقع نہ ملے۔

ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ

”اگر کراچی کے مسئلے حل کرنا ہیں تو پھرشہر سے رینجرز،ایف ڈبلیو او،این ڈی ایم اے کے ساتھ ایک آدھ اور محکمے کورخصت کرنا ہوگا اور باقیوں کو دستوری حدود کی پابندی کرنا ہوگی”

ہے تو یہ مشکل کام لیکن مشورہ پر عمل اور کام کر کے دیکھ لیجئے ہرج ہی کیا ہے۔

ارے ہاں ایک دلچسپ خبر اور بھی ہے وہ یہ کہ امریکی شہری سنتھیاڈی رچی کی ملک بدری روک دی گئی ہے اور رحمن ملک نے سپریم کورٹ سے رجوع کر نے کا اعلان کردیا ہے

اُدھر چیئرمین نیب نے ایک بار پھر دعویٰ جڑ دیا ہے کہ نیب نے ان کی قیادت میں کرپٹ عناصر سے363ارب روپے کی ریکوری کی۔

آپ ان دونوں خبروں کو”ایزی لیں”۔ہم پھر کراچی کا مسئلہ حل کرنے کی طرف پلٹتے ہیں

جناب شبلی فراز نے اس کا جو حل بتایا ہے وہ عجیب حل ہے جب آپ یہ طے کر چکے ہوں کہ ہر گالی اور الزام سیاستدان کو دینا ہے تو پھر کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور کسی بھی”برانڈ”کی تجویز دے سکتے ہیں ہماری بد قسمتی یہی ہے۔

کسی دن آپ یہ بھی سُن پڑھ لیں گے کہ1973ء کا دستور منتخب اسمبلی نے نہیں بلکہ دوسرے فوجی آمر جنرل یحییٰ خان نے بنایا تھا۔دستور کی فائل ایوان صدر سے ملی اور بھٹو صاحب کی معرفت قومی اسمبلی نے اسے گود لے لیا۔

سوموار کو وزیراعظم جناب عمران خان نے اسلام آباد میں قائم ایک پناہ گاہ کا دورہ کیا اور اس میں موجود لوگوں سے گپ شپ کی۔

اسی دن مہمند ایجنسی میں ماربل کا تودہ گرنے سے10سے زیادہ محنت کش راہی ملک عدم ہوئے اور فیصل آباد میں ملازمت سے نکالے جانے والے سینکڑوں محنت کشوں کے احتجاجی جلوس کی پنجاب پولیس نے

” خوب بڑھ چڑھ کر خدمت کی”۔

جن فیکٹریوں سے یہ محنت کش نکالے گئے اس کے مالکان بڑے طاقتور ہیں اور پہنچ اسلام آباد تک ہے۔

پنجاب آہی گئے ہیں تو ایک اور خبر سے جی بہلا لیجئے۔صوبائی دارالحکومت میں سی سی پی او پولیس کی تعیناتی پر وزیراعلیٰ اور آئی جی پنجاب کے درمیان”پھڈہ” پڑ گیا ہے۔

راوی کہتے ہیں(راوی دوطرح کے ہیں)کہ عمر شیخ کو لاہور کا سی پی اونون لیگ کی”خدمت عام”کے لئے لگایا گیا ہے۔دوسری روایت یہ ہے کہ لاہور پولیس میں کارکردگی بہتر بنانے کے لئے یہ قدم اٹھایا گیا۔

ایک کہانی وہ ہے جو لاہور اور ملتان کے صحافی سنارہے ہیں۔

دو عدد روایتوں اور ایک کہانی کے بیچوں بیچ کی چوتھی خبر یہ ہے کہ آئی جی پنجاب پولیس شعیب دستگیر کی جگہ اعتماد کا آئی جی لانے کی تیاریاں مکمل ہیں ان تیاریوں کی وجہ یہ سوچ ہے کہ اپوزیشن اگلے چند دنوں میں منعقد ہونے والی اے پی سی میں احتجاجی تحریک کا پہلا مرحلہ دھرنوں کی صورت میں شروع کرسکتی ہے

ایسا ہوتا ہے تو قانون کی الف بے پر پھونک پھونک کر چلنے والے آئی جی شعیب دستگیر ان توقعات پرپورا نہیں اتر پائیں گے جو تحریک کی صورت میں حکومت کی ہوں گی

عمر شیخ کو لاہور میں لا بٹھانے اور آئی جی کی تبدیلی کے لئے تیاریوں کے پیچھے یہی سوچ ہے کہ اپوزیشن سے نمٹا کیسے جائے؟۔

About The Author