دسمبر 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’ہم کیا ہماری صحافت کیا؟‘‘ ۔۔۔ نصرت جاوید

ہم عالمی اقتصادی نظام کا جزولانیفک ہیں۔ اس نظام میں کرونا کی بدولت جو ہلچل رونما ہورہی ہے اس کے اثرات ہر صورت وطنِ عزیز میں بھی نمایاں ہوں گے

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ربّ کا صد شکر کہ میرے قارئین کی اکثریت سنجیدہ مزاج کی حامل ہے۔ میرا پھکڑپن برداشت کرتے ہوئے بھی یہ توقع باندھتی ہے کہ اس کالم کے ذریعے میں اہم ترین ملکی اور غیر ملکی سیاست سے جڑے مسائل کو زیر بحث لانے کی کوشش کروںگا۔

منگل کی صبح چھپے کالم کو پڑھتے ہوئے لیکن انہیں مایوسی سے زیادہ حیرانی ہوئی۔ چند مہربانوں کو تاہم یہ خیال بھی آیا کہ شاید اس کے ذریعے میں نے طنزیہ انداز اختیار کرتے ہوئے کوئی ’’گہری‘‘ بات کہنے کی کوشش کی ہے۔ بات اگرچہ بن نہیں پائی۔ تنقیدی جائزہ لیں تو اس کالم میں اپنے لیپ ٹاپ کے خراب ہونے کو میں نے مرکری نامی سیارے کی چال سے جوڑدیا۔نجومیوں کے مطابق وہ ان دنوں ابلاغ کے عمل کو سہولت پہنچانے کے بجائے اس کے لئے مشکلات کھڑی کررہا ہے۔ اپنے ذاتی تجربے سے گویا میں اس دعویٰ کی تصدیق کرتا نظر آیا۔ معاملہ وہاں ختم نہ ہوا۔ ’’ستاروں کی چال‘‘ پر توجہ دیتے ہوئے میں بالآخر زحل اور مشتری کے ملاپ کے ذکر تک پہنچا۔ یہ واقعہ اس برس کے دسمبر میں ہوگا۔ عباسی خلفاء کے درباری نجومی اپنے آقائوں کو برسوں سے متنبہ کرتے چلے آئے تھے کہ جب یہ دو سیارے ملیں گے تو ان کی بادشاہی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ 1258میں بالآخر یہ ہوگیا۔ ہلاکو خان کے غول نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اس کے بعد کامل دو سو برس تک آج کے مشرقِ وسطیٰ کے بیشتر ممالک ترک اور منگول سلاطین کی محکومی میں رہے۔ یہ سلاطین بنیادی طور پر غلام تھے۔ انہیں بازار سے خرید کر درباروں میں لایا گیا تھا۔ حکمرانوں کی سرپرستی میں انہوں نے سلطنتوں کو وسعت دینے والی جنگوں کی مہارت کو بخوبی سمجھا۔ دلاوری ان کی جبلت میں ویسے بھی شامل تھی۔ اس کی بدولت بذاتِ خود ’’سلطان‘‘ ہونا شروع ہوگئے۔ ہمارے ہاں ایسے ہی ’’سلطان‘‘ ایبک وغیرہ کے ذریعے نمودار ہوئے تھے۔ میرے سکول کے دنوں میں تاریخ کے مضمون میں ’’خاندانِ غلاماں‘‘ کا ذکر بھی ہوتا تھا۔ ان دنوں کے نصاب کی بابت علم نہیں۔ ’’ستاروں کی چال‘‘ کی جانب مگر لوٹنا ہوگا۔ مجھے ان کی چال سے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ مجھے تو یہ خبربھی نہیں کہ میرا Zodaic سائن کیا ہے۔ یہ جاننے کے لئے تاریخ پیدائش کے علاوہ اس وقت کا تعین بھی ضروری ہے جب میں اس جہاں میں وارد ہوا تھا۔اس ضمن میں کبھی تردد کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ روزانہ کی بنیاد پر ہمارے ہاں ہزاروں نہ سہی تو سینکڑوں بچے پیدا ہوتے ہیں۔ میری پیدائش لہٰذا معمول کی بات تھی۔ تاریخ ساز ’’واقعہ‘‘ نہیں تھا۔مذکورہ کالم میں ویسے بھی عرض کیا تھا کہ ذاتی تجربے کی بنیاد پر میں بہت اعتماد سے یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ اپنے من میں آئی بات کو لکھنے کے لئے مرکری کی ’’نحوست‘‘ میری راہ میں حائل ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ’’ستاروں کی چال‘‘ سے قطع نظر چند معروضی حالات ہیں جنہوں نے مختلف قوانین اور ضابطوں کی پابند صحافت کے لئے لکھنے والوں کے لئے گزشتہ کئی مہینوں سے چند مقامات کی بابت ’’ڈکے‘‘ لگارکھے ہیں۔ بہتے پانی کی روانی میں ایسے ہی ’’ڈکے‘‘ حائل ہوا کرتے ہیں۔ خیالات کا بھی پانی کی طرح بہائو ہوتا ہے۔ یہ بہائو ان دنوں سہما اور سکڑا نظر آرہا ہے۔ اپنی محدودات کا اعتراف کرتے ہوئے مگر ہم شرماتے ہیں۔ اپنی انا کی تسکین کے لئے خود کو اس گماں میں مبتلا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم بہت حق گو،ایماندار اور جی دار ہیں۔ میں اس زعم میں مبتلا نہیں ہونا چاہتا۔

1978سے شہر کراچی میں ’’مہاجر‘‘ ہونا بہت اعزاز تصور ہونا شروع ہوگیا تھا۔ افتخار عارف جسے دھیمے مزاج والے محبت سے لبریز شاعر نے اس سے اُکتا کر ’’ہم کیا ہماری ہجرت کیا‘‘ والا سوال اٹھایا تھا۔ اسی تناظر میں رزق کی خاطر مقدر ہوئی ’’دربدری‘‘ کا ذکربھی کیا تھا۔ اس شعر کو یاد کرتے ہوئے میں  اکثر ’’ہم کیا ہماری صحافت کیا؟‘‘ والا سوال اٹھانے کو مجبور ہوجاتا ہوں۔مثال کے طور پر گزشتہ چند دنوں سے کاروباری امور کو ریگولیٹ کرنے والے ایک ادارے کے افسر کی ’’گم شدگی‘‘ کا روایتی میڈیا میں ذرا مدھم مگر سوشل میڈیا میں بہت شوربرپا ہے۔ سرکاری ملازمت میں جانے سے قبل یہ افسر صحافی ہوا کرتا تھا۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ اس نے صحافت کا آغاز میری نگہبانی میں کیا تھا۔ چند مہینوں تک 2006 میں لاہور سے نکلے ایک انگریزی اخبار کے اسلام آباد ایڈیشن کا مقامی ایڈیٹر تعینات ہوا تھا۔ وہاں رپورٹنگ کے لئے میں نے بہت لگن سے نوجوانوں کی ایک ٹیم تیار کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس ٹیم کے چند لوگ ان دنوں روایتی اور سوشل میڈیا کے بہت بڑے ’’سٹار‘‘ ہیں۔ انہیں اپنا ’’شاگرد‘‘ بتاتے ہوئے البتہ مجھے شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ نہایت دیانت داری سے اس حقیقت پر ایمان رکھتا ہوں کہ باصلاحیت افراد اپنا مقام خود بناتے ہیں۔ ’’استادی-شاگردی‘‘ کی باتیں اس تناظر میں مجھے یاوہ گوئی محسوس ہوتی ہیں۔ بہرحال میری رپورٹنگ ٹیم میں شامل ہوا وہ نوجوان نہایت کم گو اور اپنے کام سے کام رکھنے والا شخص تھا۔ معاشی امور کے بارے میں خبریں تلاش کرنے کی لگن تھی۔ چند روز میرے ہاں کام کیا تو اسے ایک بڑے اخبار میں نوکری کی آفر ملی۔ میں نے اسے یہ آفر قبول کرنے کو قائل کیا۔ اس کے بعد گزشتہ کئی برسوں میں شاید ایک یا دو بار اس سے سرسری ملاقات ہوئی ہے۔ اس کی ’’گم شدگی‘‘ نے تاہم مجھے بہت پریشان کیا۔ اس کے بارے میں ماتم کنائی سے مگر اجتناب برتا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ویسے بھی اس معاملے کا نوٹس لے رکھا ہے۔ وہاں کے عزت مآب چیف جسٹس اس تحریک کے متحرک ترین ترجمان تھے جو 2007 میں عدلیہ بحالی کی تحریک کے دوران ابھری تھی۔ ’’ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘‘ اس کا مقبول ترین نعرہ تھا۔ ’’گم شدہ‘‘ افسر کے لئے مادرانہ شفقت کی امید باندھنے کے سوا چارہ بھی کیا ہے۔معاشرے میں امن وسکون برقرار رکھنے کے لئے حکمران مگر یہ لازمی گردانتے ہیں کہ ریاست کا رُعب و دبدبہ آپ کے ذہن میں ہمیشہ موجود رہے۔ ’’گم شدگی‘‘ شاید یہ تصور اجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ’’ستاروں کی چال‘‘ پر نظر رکھنے والے مگر مصر ہیں کہ دسمبر2020 میں زحل اور مشتری کے مابین ہونے والا ملاپ مطلوبہ دبدبے کو برقرار نہیں رکھ پائے گا۔

لبنان نامی ملک میں ان دنوں جو ہورہا ہے اسے اس ضمن میں ’’ٹریلر‘‘ کے طورپر دیکھا جارہا  ہے۔ ’’ستاروں کی چال‘‘ سے قطع نظر دنیا کے بیشتر ممالک میں کرونا وائرس نے قبل از کرونا دور کے طرز معاشرت کو حیران کن انداز میں تبدیل کرنا شروع کردیا ہے۔ ریاستی دبدبے سے کرونا پر قابو پانے کے لئے لاک ڈائون کی حکمت عملی مسلط ہوئی تھی۔ لوگ گھروں تک محدود ہوئے تو متوسط طبقے کی بے پناہ اکثریت نے اپنے گھر وں میں موجود کئی اشیاء کا نئے سرے سے جائزہ لینا شروع کردیا۔ بے پناہ اکثریت نے بالآخر یہ دریافت کیا کہ بہت ساری اشیاء انہوں نے ’’خواہ مخواہ‘‘ خریدلی تھیں۔ گھروں میں محدود ہوکر زوم یا گوگل ٹیم کی بدولت رزق کمانے کی سہولت نے ’’کپڑے پہن کر جائوں کہاں- میں بال بنائوں کس کے لئے؟‘‘ والے سوالات بھی اٹھادئیے ہیں۔ کئی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے دریافت یہ بھی کیا ہے کہ ان کے لئے کام کرنے والے روزانہ دفتر پہنچنے کے لئے ذاتی یا پبلک ٹرانسپورٹ سے استفادہ کرتے ہوئے بہت وقت ضائع کرتے تھے۔ دفتر آنے کے بعد کام پر توجہ دینے کے بجائے دوستوں سے گپ شپ لگاتے۔ مختلف بہانوں سے وقفے لئے جاتے۔ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے والی سیاست بھی جاری رہتی۔ بڑی محنت سے جمع ہوئے ڈیٹا کی بنیاد پر طے اب یہ ہوا ہے کہ گھروں تک محدود ہونے کے بعد ان کے ملازمین کی Productivity میں متاثر کن حد تک اضافہ ہوا۔

اس دریافت کی روشنی میں سوال اب یہ اُٹھ رہے ہیں کہ اپنےBrand نیم کی شہرت اور وقار کی خاطر شہروں کے مہنگے ترین علاقوں میں کئی منزلوں پر مشتمل ’’مرکزی دفاتر‘‘ کیوں بنائے جائیں۔ اس سوچ نے Real Estate کے اجارہ داروں کو پریشان کردیا۔ لندن، پیرس اور نیویارک جیسے شہروں میں گنتی کے چند افراد اور خاندان ہیں جن کا ان شہروں کی مہنگی ترین زمینوں اور عمارتوں پر اجارہ ہے۔ الزام اب یہ لگایا جارہا ہے کہ انہوں نے اپنا سیاسی اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے حکومتوں کو لاک ڈائون ختم کرکے ’’معمول کی زندگی‘‘ بحال کرنے کو مجبور کیا۔ اسی باعث وبائی امراض کے ماہرین مسلسل متنبہ کررہے ہیں کہ کرونا کی ایک اور Peak ستمبر کا مہینہ ختم ہو جانے کے بعد بہت شدت سے رونما ہوسکتی ہے۔ حکمران اپنی اشرافیہ کی تسلی کی خاطر مگر ان کی رائے کو رعونت سے نظرانداز کررہے ہیں۔ یہ رعونت ریاستی دبدبے کو اجاگرکرنے کے لئے بنائے ڈھانچوں یا انتظامی Structures کی بابت خلقِ خدا کو مشتعل بنارہی ہے۔زحل یا مشتری کے ملاپ کے بغیر بھی اشرافیہ اور خلقِ خدا کے مابین کرونا کی وجہ سے اُبھری خلیج روزبروز خوفناک حد تک سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں اُبلتے غصے کے لاوے کی طرح پھٹنے کے امکانات روشن تر ہوتے نظر آرہے ہیں۔

ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا میں لیکن ان امکانات کا کماحقہ انداز میں جائزہ نہیں لیا جارہا۔ ربّ کریم کے فضل سے ہم ایسے مناظر سے بچے رہے جو کرونا کی وجہ سے امریکہ، برطانیہ اور حتیٰ کہ ہمارے ہمسایے میں نمودار ہوئے تھے۔ پاکستان مگر دُنیا سے کٹا کوئی جزیرہ نہیں ہے۔ ہم عالمی اقتصادی نظام کا جزولانیفک ہیں۔ اس نظام میں کرونا کی بدولت جو ہلچل رونما ہورہی ہے اس کے اثرات ہر صورت وطنِ عزیز میں بھی نمایاں ہوں گے۔اس کے لئے تیاری ضروری ہے۔ خواہ وہ’’ستاروں کی چال‘‘ کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہی کیوں نہ کی جائے۔

About The Author