یونس رومی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکارپور کل جو سندھ کا پیرس کہلاتا تھا آج گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے، گندگی ایسی کہ لوگ گٹر کا پانی پینے پر مجبور ہوگئے ہیں، گند گی ایسی کہ جہاں نہ تعلیم نہ صحت اور نہ کوئی سہولت ،شکارپور کل امن محبت کا مرکز تھا، جہاں سب لوگ رنگ نسل، مذہب، قوم فرقہ سے بالاتر ہوکر بھائی بھائی بن کر رہتے تھے،جہاں آج بد امنی، فرقہ پرستی، قومپرستی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے، قبضہ مافیا جہاں ملک ریاض کو بھی مات دے چکے ہو، ، جہاں کے لوگوں نےقبرو ں کو مسمار کر کے ان پر مسجد، مدرسے،گھر بنا کر بیٹھ گئے ہیں، گندے پانی کے تالابوں پر قبضہ کر کے پلاٹ بنا رہے ہیں، تو ان لوگوں سے کیا توقع کیا جاسکتا ہے اگر سہولت ہے تو وہاں کے مذہبی، قومپرست رہنماوں ،سرداروں، سیاستدانوں، وڈیروں کو ہے، جو اپنی مفادات کے خاطر لوگوں کو لڑاتے رہتے ہیں اور خد ایک ٹیبل پر بیٹھ کر چائے پیتے رہتے ہیں، تعلیم کا یہ حال ہے کے سکولوں میں بھینسیں باندھی جاتی ہیں،، تعلیم، صحت، اور ترقیاتی کاموں کا فنڈ سیاستدان اور بیوروکیٹس ہڑپ کر جاتے ہیں، شکارپور کے لوگ بے رحم گدھوں کے رحم و کرم پر لوگ اپنی زندگی جی رہے ہیں، کوئی بولنے والا نہیں جیسے ان کواپنے حقوق نہ ملنے کو پورا یقین ہو، اور نہ شکارپور کے دانشور اور صحافی برادری اس میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے، جب صحافی کسی وڈیرے، سردار، سیاستدان کے بنگلے کا ترجمان بن جائے تو ان سے توقع کرنا بیوقوفی کے سوائے کچھ نہیں،،شکارپور کے علما، سرداروں ، وڈیروں بین المذاہب کا رونا پیٹھ رہے ہوتے ہیں وہی لوگ مذہبی آستانوں پر قبضہ کرکے بیٹھ گئے ہیں، جہاں خانقاہوں، حویلیوں گھروں مسجدوں پر مندر تو تو مندروں پر گھر بنا کر بیٹھ گئے ہیں۔ شکارپور کا ہسٹوریکل سوسائٹی کا نام لفافہ سوسائٹی تک محدود ہے، جہاں سچائی شکارپور کے گلیوں میں سر بازار فروخت کیا جا چکا ہو، شکارپور سندھ کا چیخ چیخ کا اپنا حق مانگ رہا ہے، شکارپور اپنے ہونے کا احساس دلا رہا ہے، شکارپور اپنا کل مانگ رہا جو بے داغ تھا جس کو ہمارے دانشوروں نے داغدار بنا کر رکھ دیا ہے، شکارپور کے دانشورو سارے منافق، جھوٹ، انتشار پہلانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے، بس ان کو دوسروں کا پگڑی اچھالنا آتا ہے، اورخد ایک دوسرے کے گھلا پکڑ کر کے ایک دوسرے کو جھوٹا پیش کرتے نظر آتے ہیں، شکارپور میں کوئی شکارپور کے لوگ نظر ہی نہیں آتے،جیسے سب باہر کے ہو اور شکارپور کے لوگوں کو باہر نکلا کر ان کے جگھ بیٹھ گئے ہو۔اگر شکارپور کے ہوتے تو اپنے شکارپوری ہونے کا حق ادا کرتے رنگ نسل، فرقہ مذہب کے سوائے، جو شکارپور کا اصل تاریخی رنگ دکھاتے کہ واقعی شکارپور کل کا پئرس تھا ، پءر س کا مطلب یہ تھا کے پیرس ے طرز پر بلند بالا عمارتیں، جن پر لکڑی کر کاریگر اپنا فن کے جوہر دکھاتے تھے، صاف کشادہ راستتے تھے، امن تھا، دور دراز کے لوگ تجارے کے خاطر یہاں آجایا کرتے تھے، ، شکارپور سندھ کا دارالخلافہ تھا جو آج کنڈھر بن چکا ہے، ، جس کو خد اپنے ہی لوگ گدھ کی طرح نوچ نوچ کر بے رحمی کیساتھ زخمی کیا ہوا ہے ، شکارپور کے محقق اس بات پر بضد ہے ان ابجدوں کے حساب سے یہ تاریخ نکلا ہے، بندہ کوءی پوچھے ان جاہل لوگوں سے پہلے اور کوءی تاریخدان ہی نہیں تھا، سواءے ابجدون کو جو لوگوں کو کچھ نظر بھی نہیں آتا ،اب وہ تاریخ لکھین گے،
شکاپور کی بنیاد 1595سے 1600 کے درمیان کا سال ہے،،میر خان اعتمادولہ کے بیٹے محمد ابرہیم یار خان فتح جنگ کا شکارپور کی بنیا رکھی ، ابراہیم یار خان فتح جنگ کا ایک بیٹا محمد شاہ تھا جو جوکھیہ قبیلے کے ساتھ ایک جنگ میں شہید ہوئے تھے، جن کیلئے خانپور سے مغرب کی طرف ایک مقبرہ بنوایا تھا جس کو آج مخدوم شاہ المعروف لال پیر کہتے ہیں، جو کہ شکارپور اور خانپور کے پرانے راستے پر موجود ہے۔ محمد ابراہیم یار خان فتح جنگ نے نےاپنے بیٹے محمد شاہ کے نام سے ایک نیا شہر موجود خانپور خان کوٹ کے مغرب میں آباد کیا تھا جس کا نام محمد کوٹ رکھا ، جو بعد میں خدا آباد سے شکارپور بن گیا، ،،،، شکارپو ر محمد کوٹ سے پہلے عباسی خاندان موجودہ خانپور خان کوٹ میں آباد تھے۔ جس کا اصل نام خان کوٹ تھا، ، جس کی بنیاد میر غیاث الدین محمد عباسی دوئم میر خان اعتمادولہ نے رکھی تھی ،میر غیا ث الدین محمد دوءم کا خاندان بغداد کے عرب خاندان سے ہیں اور جو بعد میں مصر منتقل ہوا تھا کے ۔ٹی این۔ کے ایک پروگرام جس میں شکارپور کے تاریخ پر رپوٹر زاہد نون ایک پرگرام مرتب کیا تھا جس میں شکارپور کے دو مشہور محقق شامل تھے جس کا لنک یہ ہے،
https://www.youtube.com/watch?v=7XDlC1o9AT4
شکارپور کے محقق محترم خلیل موریانی صاحب کے مطابق یہ کوٹ تھا اور اس کے آٹھ دروازے ہیں اور دروازوں کے نام شہروں کے جانے والے راستوں کے مناسبت سے رکھے گئے ہیں، لکی در جو لکھی یا لکھویر کے طرف راستے کو لکی در کہا جاتا تھا، ہزاریدار جو مخصوص تھا بادشاہوں ، ان کے گھر والوں کیلءے تھاان کو ہزاریدر کہا جاتا تھا، ، ہاتھیدر جہاں سے فوج داخل ہا کر تا تھا، خانپوری در یا خانکوٹ در جو خانپور کو جاتا تھا بقول سھٹو شھر شکارپور میں حبیب اللہ مولابخش صاحب صفحہ نمبر 30پر لکھتے ہیں کے ایک رستہ شکارپور سے لعل پیر سے ہوکر رستم، چک، برکن، سے ہوتا ہوا جہان خان پہنچ جاتا تھا، مطلب کے خانکوٹ خانپور کا پرانہ رستہ موجود رستہ جو قاضی پٹھی میرپورٹھل تک جاتا تھا وہ لعل پیر سے ٹرن کرکے خانپور خانکو ٹ تک جاتا تھا، واگنو در جو وگن گاوں کے طرف کے دروازے کو کہا جاتا تھا، کرن در جو کرن کے طرف جانے والے دروازے کو کرن در کہا جاتا تھا، اور نوشہرہ در کو نوشہرہ شہر ہ کے طرف جانے کیوجہ سے نوشہرہ در کہا جاتا تھا،اور شکارپور ایک کوٹ پر سب دانشور متفق نظر آتے ہیں صرف پروفیسر انور فگار ہکڑو اختلاف رکھتے ہیں کے شکارپور ایک شہر پنا ھ تھا اور اس کے دس دروازے تھے اور دروازں پر لوگوں کے پیشوں کیوجہ سے پڑے ہیں، ہکڑو صاحب کا دلیل نہایت کمزور محسوس ہوتا ہے، اور زبردستی دروازون کو قبیلوں کے نام سے منسوب کرنا چا رہا تھا، جس میں اس کے الفاظ بھی ساتھ نہیں دے رہے ہیں،، شکارپور کے تاریخ جو ہمیں رٹا لگھوا کر سنوایا جاتا ہے وہ اصل میں اتر پردیش انڈیا کے ایک شہر کی کہانی ہےنقش نایاب منگی صاحب اپنے کتاب شکارپور ایک ابھیاس میں صفحہ نمبر 21پر لکھتے ہیں کے ، شکارپور اتر پردیش کا بلند شہر کے جنوب کے طرف 13کلومیٹر کے فاصلے پر ضلعہ اور تعلقہ کا اہم شہر شکارپور ہے، یہ شہر سکندر لودی نے بنوایا تھا سکندر لودی نے 1489 ۔ 1517 تک حکومت کی ، یہ پہلے سکندر لودہی کا شکارگاہ تھا جو کو بعد میں سکندر لودہی نے اس جگھ کو شہر بنوایا تھا، جہاں پر فرح سیر کے داماد نے ایک عمارت بنواءی ، شکارپور کے ناموں کے مطعلق نقش نایاب منگی اپنے کتاب شکارپور ایک ابھیاس میں صفحہ نمبر 22پر لکھتے ہیں کے سندھ، پنجاب میں ایک 1 شہر ، بنگلہ دیش کےے شہر چٹگانگ میںں 3 راجشاہی میں 4کرناٹک مین ہندوستان میں2 بنگال اور مشرق بنگال میں 1 ، مہارشٹر میں 2بہار میں 1 ، اتر پردیش میں1 ڈہاکہ میں 2، کلنا میں 1۔20شہر شکارپور کے نام پاکستان انڈیا میں موجود ہیں، شکارپور کے نام سے شہر آباد ہیں،شکارپور کی بنیاد عباسی خاندان نے رکھی تھی ، شکارپور اصل میں کو ٹ تھا، کیونکہ اس دور سندھ میں کوٹ بنانے کا رواج تھا۔ اگر شکارپور کی تعمیر کا جایزہ لیا جائے تو مغل طرز نظر آتا ہے شکارپور کے8 دروازےلاہور کے 13 دروازےاور دہلی کے14 دروازے ہیں، شکارپور عباسی خاندان کا شہر تھا اور اس کی بنیاد عباسی خاندان کے لوگوں کے افراد نے رکھی تھی جس کا ثبوت میر معصوم بکھری کا تاریخی کتبہ کا ملنا ہے، جس پر محترم ارشاد احمد کاغذی صاحب کا ایک آرٹیکل9 جنوری 1999 کو مہران میں شایع ہوا ،اور ہمارے مورخ 1615 کو سال بتاتے ہیں اور بضد بھی ہیں ابجدوں پر جن کو مینڈک کا سال، ان تاریخدانوں کا حال دیکہوں کے ان کو ملا بھی کیا ملا مینڈک، مینڈک کا کام ٹر ٹر کرنے کے سوائے کچھ نہیں کرنا ، اصل میں تاریخ لکھنے واے خد جوگی سنیاسی۔ رشی، پجاری تھے جن کا کام منتر جادو کے سوائے کچھ نہیں تھا، شکارپور کےجوگی، سنیاسی دانشوروں کا ہی کارنامہ ہے جو پورے سندھ کی تاریخ ابجدوں پر ہے ، ایک فرینچ عملدار نے ایک خط لکھا ھا کئپٹن برنس کو کے کسی اور نے فقیراللہ شاہ عباسی کے مدرے کے پاس مینڈک دیکھا تھا، نام رچرڈ برٹن کا اور کارنامے خد کے تبھی تختی بھی غاءب ہوگیا، غوک لفظ جس سے ابجد نکالا تو 1615 بنتا ہے،، شکر کرو ان جوگیوں سنیاسیوں نے کتا، بلا، گھوڑا ، گدھا ابجد میں نہیں نکالا تو سوچو کتنا شور ہوتا ،یہ صرف شکارپور کا نہیں بلکہ پورے سندھ کی تاریخ کی تاریخ ہو یا کسی بھی بزرگ ہو خاص طور پر عباسی خاندان کے لوگوں کی تاریخ خد کی ہی شاعری پر ابجد نکال کر تاریخ لکھ دیتے ہیں،، اگرداءودپوتروں، کلہوڑوں اور عباسی خاندان کے تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہر چیز واضع ہوجاتی ہے، کلہوڑوں کے مطعلق ایاز باگت ، جنرل ٹاڈ ان۔ خیر محمد برڑو، مولانا غلام رسول مہر ، سندھ کے سارے مورخ کلہوڑوں کو چنہ ہی لکھتے ہیں، جو کے نو مسلم راجپوت ہیں، کوءی ان کو جت تو کوءی ان کو سراءی جت بھی لکھتا ہے، داءودپوترہ ا ور کلہوڑا دو نوں توایک ہی خاندان کے دو شاخیں ہیں، ان کے خد کے کتابوں میں ظاہر ہے، داءود پوتروں کے مطلعلق سر ڈینزل ابٹسن اپنی کتاب پنجاب کے ذاتیں کتاب مے مطابق یہ اصل میں نو مسلم شیخ تھے اگر قوم کے حساب سے نہیں تو کام کیوجہ سے یہ لوگ جولاہا ضرور تھے، سند ھ کےقوم قبیلے کے کتاب کے صفحہ نمبر207میں ایاز باگت صاحب تاریخ راجستان جنرل ٹاڈ کے حوالے سے لکھتا ہے کے یہ لوگ راجپوت ہیں مسلمان ہونے کے بعد جت، اونٹ چرانے والے، داءود کے اولاد ہونے کیوجہ سے داءودپوترہ کہلاءے، اور یہ اصل میں چنہ ہیں، اور خیر محمد برڑو صاحب کے ذاتو ں کا انساءکلو پیڈیا میں صفحہ نمبر 585میں لکھتا ہے کہ یہ لوگ کوری جولاہا ہے، اور حسیب نایا ب منگی اپنے کتاب میں شکارپور تاریخ کے آءینے میں بھی کوری جولاہا لکھتا ہے، اور بہاولپور کے داءودپوترہ مری، کشمیر، ایبٹ آباد کے جو لوگ خد کو عباسی کہلاتے ہیں یہ اصل میں راجپوت ہی ہیں جو ان کے شجرے سے عیاں ہے، جن کے نام بھی ہندو کے ہیں، مولانا غلام روسول خد بھی پریشان دکھاءی دے رہے ہیں،غلام رسول مہر صاحب نے خد تحقیق کر کے نہیں لکھا ان کو مواد مہیا گیا اور ان سے لکھوایا گیا ، مولانا کا صاحب تو خد بہاولپور کے نوابوں کا تاریخدان تھا، وہ تو جی حضوری میں لکھا ہوا تاریخ ہے،، تاریخ کلہوڑا ، جن کا ذکر خد بھی کرتے ہیں، اور جن کتابوں کا یہ حوالا دیتے ہیں جن کا کاءی نام نشان بھی نہیں ہے بس ان کے من گھڑت کتابیں ب لکہواءیں،وکیل انجم صاحب کے تصنیف وقت کے فرعون جس میں بہاولپور کے داءوپتروں کے مطلعق لکھتا ہے کے نادر شاہ نے ان کو یہ علاءقہ تحفہ دیا تھا اور نواب کا خطاب دیا تھا، راجہ رنجیت سنگھ ے پر قبضہ کیا تو داءودپتروں نے انگریزوں کے مدد سے 1825پھر بہاولپور پر قبضہ حاصل کر سکے،1838 میں افغانستان کے جنگ میں انگیروں کا خوب مدد کیا دوسری افغان جنگ میں بھی انگریزوں کا مدد کیا،دونوں جنگ میں ہی مسلمان مجایدین کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا تھا،، بقول پروفیسر عبداللہ مگسی والی سندھ سیمینار 1987 میں کہا تھاکے کوری جولاہا اصل میں سندھ کے غدار تھے جب نادر شاہ نے سندھ پر حملا کرنے کی تیاری کر رہا تھا تو والی سندھ حسن یار خان المعروف نور محمد شاہ عباسی نے ان کےخلاف اعلان جنگ کیا تھا اور گنجابہ کو اپنا دفاعی جگھ منتخب کیا، مراد کلیرہی کو سپہ سالار منتخب کیا، جیسے نادر شاہ کا فوج درہ بولان کے راستے گذر کریگا تو ان کو روکھا جاءءیگا، جنگ کے صورت میں مرکز سے کمک ملتی رہی ،جولاہوں ے بروقت مخبری کیوجہ سے نادر شاہ کو جولاہوں نے گومل دریا سےڈیرہ غاری خان کے راستے شکارپور پہنچایا شکارپور اس وقت سندھ کا دارلخلافہ تھا،جولاہوں کے مخبری اور مدد کیوجہ سے پرنادر شاہ نے شکارپور پراچانک حملا کیا جس کیوجہ سے حسن یار خان عباسی المعروف نور محمد شاہ عباسی کو عمر کوٹ جانا پڑا، اور نادر شاہ بھی انہی جولاہاوں کے مخبری کیوجہ سے عمر کوٹ جلدی پہنچ پایا تھا۔ ایک کروڑ تاوان سالانہ 20000لاکھ ک اور دو عباسی شہزادوں سمتیت 2000گھوڑے نادر شاہ کے ساتھ بھیج دیا گیا تھا،کوریوں جولاہووں کو غداری کی عیوض ان کو بھاولپور کا زمین کا ٹکڑا ملا تھا، نقش نایاب منگی صاحب بھی اس بات کی تاءید کرتے نظڑ آرہے ہیں کے داءوپوترہ جو شکارپور کو خدا آباد لکھتے ہیں اصل میں ان کاے غداری کے عیوض ملنے والے جاگیر پر اللہ آبادآباد شہر آباد کیا تھاکیا تھا جو بعد میں بھاولپور کے نام سے مشہور ہوگیا تھا، بقول محمد قمر زمان داءودپوترہ کے کتاب بغداد سے بہاولپور کے صفحہ 76پر رقمزار ہے کے داءودپوتروں کو ملتان کے پاس چودری کے پاس ایک وسیع علاءقہ ملاتھا جس پر ایک نیا شہر اللہ آباد کی بنیاد رکھی تھی جو بعد میں بہاولپور کے نام سے مشہور ہوگیا تھا، اللہ آباد کو ہی خدا آباد بنا کر کبھی پنہواروں کا تو کبھی داءودپوتروں کا شہر شکارپورکہا جاتا ہے،، داءودپوتروں کے اور پاکستان کے وہ قوم جو خد کو عباسی کہتے ہیں ان کے شجرون میں اور ہمارے شجروں میں زمین آسمان کا فرق ہے،جن کو کتاب کا حوالہ تک نہیں ملا، جن میں سب ہندو ں کے نام یا علاقاءی نام ہی ملینگے ،، اگر عرب عباسی خاندان کا جاءزہ لیا جاءے تو راقم جو خد شکارپور کےعباسی خاندان سے ہیں اور انڈس ہاءے پر شکارپور اور خانپور سندھ کے درمیاں ایک گاوں حاجی خواستی میں اس کا خاندان مقیم ہے جو اسی عباسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، شجرہ کچھ اس طرح ہے، عبداللطیف بن مولابخش، بن حاجی میر خان، بن محمد مراد شاہ، بن حسین خان بن حسن علی خان، (بحوالہ خاندانی اسناد) بن محمد مرادیار خان بن حسن یار خان المعروف نور محمد شاہ عباسی والی سندھ بن محمد یار خان (تاریخ کلہوڑا )المعروف یار محمد عباسی بن احمد یار خان بن ابراہیم یار خان فتح خانی، فتح جنگ بن اعتمادولہ میر خان غیاث الدین محمد عباسی لمعروف آدم شاہ سکھر ( بحوالہ تاریخ مظہر شاہجہانی ، تذکرہ امیرخانی)، بن ابوالقاسم نمکین بن شرق الملک سلطان محمود بکھری بن حسین خان ( علینواز شوق کتاب میر محمد معصوم بکھری)بن خلیفہ ابن خلیفہ غیاث الدین محمد عباسی ( خلافت ہندوستان)بن الحاکم باالامراللہ دوءم ابوالعباس بن احمد بن المستکفی باللہ عبدالربی سلیمان بن ابوالعباس احمد الحاکم بالامراللہ بن حسن بن علی بن ابوبکر ابو منصور فضل مسترشد ( تاریخ اسلام ڈاکٹر حمید الدین) بن المستظہر باللہ ابی عبداللہ احمد بن المقتدی بامراللہ ابی القاسم عبداللہ بن الذخیرۃ محمد بن القاءم با مراللہ ابی جعفر عبداللہ بن القادر باللہ ابی العباس احمد بن الموففق ابی احمد بن محمد متوکل ابی جعفر عبداللہ بن القادر باللہ ابی العباس احمد بن اسحاق بن الممقتدراللہ باللہ ابی الفضل جعفر بن المعتصد باللہ ابی العباس احمد بن الموفق ابی احمد بن محمد مالمتوکل علی اللہ جعفر بن المعتصم باللہ ابی اسحاق محمد بن ہارون الرشید بن المہدی بن عبداللہ ابی الجعفر المنصور بن محمد بن علی بن عبداللہ ؓ بن حضرت عباس ؓ بن عبدالمطلب الہاشمی ( بحوالہ البدایہ والنہایہ جلد نمبر 13) عباسی خاندان جو عرب ہیں ان کے مطلعق بڑے بڑے تاریخی کتابوں کا حوالا ملتا ہے، جنت السندھ، تاریخ فرشتہ، تاریخ ہندوستان ، ابن بطوطہ کا سفر نامہ، سب سے زیادہ تفصیل سے محترم سید سلیمان ندوی صاحب اپنے کتاب خلافت اور ہندوستان میں رقمزار ہیں بادشاہ کو ایک خلیفہ میر غیاث الدین محمد عباسی خلیفہ جو ترکستان میں مقیم تھے، جب سلطان محمد تغلق کو ان کے ترکستان میں عباسی خلیفے کا علم ہوا تو عباسی خلیفہ کو منت سماجت کرکے ہندوستان بلایا گیا تھا، اور ان کے شجرہ کے تصدیق دربار میں بغداد میں موجود لوگوں نے تصدیق کیا تھا ، جو خلفیہ مصر سے خلعت لے کے ہندستان آءے تھے، کیونکہ محمد تغلق ایک اسلامی نظام کا حامی تھا ایک سچا مسلمان تھا ، جب اس کو احساس ہوا کے بغیر خلیفہ کے خلعت کے بادشاہی جاءز نہیں تو اپنے کچھ قاصد سعید حریری کو مصر ببھیجا، واپسی ان کے استقبال کیلءے بادشاہ خد شہر سے باہرقاصدوں کاا ستقبال کیا تھا، اور قاصد کے پیر چھومے تھے، عباسی خلیفہ کو دہلی بلایا گیا ، بدر چاج جو اس وقت دہلی کے مشہور شاعر تھے اس کے شعر مٰن لکھتا ہے کے شاہ بن احمد ابوالعباس جو اس وقت مصر کا خلیفہ تھا، میر غیاث الدین محمد جو اس وقت مصر کے خلیفہ کا صاحبزادہ تھا،بعد میں سلطان محمد تغلق نےعباسی خلیفہ کےعقد میں اپنی بہن بھی دے دیا تھا، مالوہ ، کمبات، گجرات جہیز میں دیا گیا تھا، جس کو سندھ بے ادبی بوڑد نے کے چمچوں نے سیف الدین غوری کے نام سے خلیفہ کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کیا گیا ہے ابن بظوطہ کے ترجمے میں،سلطان فیروز شاہ نے عباسی شہزادے کو مخدومزادہ کا لقب دیا تھا، اور فیروز شاہ تغلق کے دور میں صدر جہاں کا عہدہ دیا تھا جو وزیر ا عظم کا عہدہ تھا، اور میر خان کا بھی لقب دیا تھا اور فیروز شاہ تغلق کے دور میں تین خلعت مصر سے آءے تھے، ایک فیروز شاہ کیلءے، ایک شہزادہ محمد خان کیلءے، اور ایک عباسی خلیفہ کے لیے، جو ہمارے دانشوروں نے لقب اور عہدے کو ملا کر خان جہان بنا دیا، ہمارے دانشوروں نے عباسی خلیفہ کے بہت سے القا ب دءے ہیں، مخدومزادہ، مہدی، شمس للسان، غیاث الدین ترک ، خواجہ جہاں، میر خان جہاں، لال شہباز قلندر ، ابوالغیث، ملا میر وغیرہاگر اللہ آج ہمیں دے را ہے تو یہ اللہ کی ہمارے خاندان پراللہ اور اس کے حبیب ﷺ خاص کرم ہے ، میر غیاث الدین محمد میر خان عباسی جو ابوالقاسم نمکین کا بڑا بیٹا تھا جس کو سندھ کے نام نہاد دانشور ابوالبقا کے نام سے جانتے ہیں ابوالبقا بہروعلی تو ابوالمکارام کے اولاد میں سے ہیں، تذکرہ امیر خانی کے بہرورعلی بن عبدالرحمن بن عبداللہ بن ابولمکارم بن غیاث الدین او جب کے ابوالقاسم نمکین بن سلطان محمود ، بقول علینواز شوق صاحب کے کتاب میر معصوم بکھری کتاب میں سلطان محمود کے تین صاحبزادے ، ابوالقاسم نمکین، سید محمد فاضل اور میر معصوم بکھری تھا، اور جب کے تذکرہ امیر خانی اور تاریخ مظہر شاہجہانی کے مطابق ابوالقاسم نمکین کے بہت سے اولاد تھے تیس لڑکے اور پندرھ لڑکیاں تھیں اعتمادولہ میر غیاث الدین محمد میر خان عباسی بن ابوالقاسم نمکین جو اکبر کے دور کااہم وزیر تھا، ، ، جس کو جہانگیر کے دور میں اعتمادولہ کا خطاب ملا ہوا تھا اعتمادولہ میر خان کے اولاد بہت تھے پر ان کےایک بیگم عصمت بانو بیگم سے چار بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں، محمدشریف، ابرہیم یار خان فتح جنگ، ابوالحسن آصف جاہ ، شاہ پور اعتقاد خان ان کے صاحبزادے تھے، نورجہاں بیگم زوجہ جہانگیر بادشاہ،، حالحہ بیگم، مجیجہ بیگم تھی،، ، ، عصمت بیگم اور میر غیاث الدین محمد عباسی دوئم کا مزار صفہ صفا سکہر میں ایک پہاڑی پر موجود ہے، جس کو نا م نہاد دانشوروں نے آدم شاہ کلہوڑوکا نام دے رکھا ہے کلہوڑو اور شاہ، اس سے ایک محاورہ یاد آگیا کے ذات دی کوڑ کلی چھتیروں نوں جھپے،
، جہانگیر بادشاہ کے گھروالی نورجہان بیگم ابراہیم یار خان فتح جنگ کی بہن تھی، جب شاہجہان نے اپنے باپ جہانگیر کے ساتھ بغاوت کا اعلان کیا تو شاہجہان شکاپور پر قبضہ کرنے کے ارادہ سے آیا تھا ،کیونکہ نورجہان بیگم کے ساتھ ابراہیم یار خان نے ساتھ دینے کا ارادا کیا تھا جب کے اعتقاد خان ابوالحسن آصف جاہ اپنے داماد کا ساتھ دے رہا تھا، جس جنگ کو ابراہیم یار خان کے نام سے مشہور کیا گیا جو دکھن اکبر نگر یا راج محل میں لڑا گیا تھا وہ اصل میں ملک عنبر اور شاہجہان کے درمیان تھا۔جس کو شہاجہان اور ابراہیم یار خان فتح جنگ کے ساتھ جوڑا جاتا ہے،اصل جنگ شکارپور مکے قریب سندھ واہ کے قریب شہزادشاہ جہان اور ابراہیم یار خان فتح جنگ ے ساتھ جنگ کیا تھا، جس کو داءودپوتروہ اور مہر قبیلے کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، تاریخ کو بگاڑ نے کیلءے،باقی بنگال میں ابوالحسن آصف جاہ کا بیٹا ابو طالب شاءستہ خان کا حکومت تھا، شہزادہ شاہجہان نے شکارپور کا قبضہ مانگا تھا جس پر ابراہیم یار خان فتح جنگ نے انکار کیا جس پر شہزادہ طیش میں آکراعلان جنگ کیا اور شاہجہان نے ابراہیم یار خان فتح جنگ کے قریب سندھ پر آمنے سامنے ہوگءے تھےجو موجودہ خانپور شکارپور کے درمیان اور سندھ کے واہ کے شمال کے طرف موجودہ حاجی خواستی بروہی کے اردگرد ابراہیم یار خان فتح جنگ سے جنگ کا آغاز کیا ، ابراہیم یار خان کو جنگ کے دوران کچھ زخم لگ چکی تھی تو وہ پیچھے ہٹ گءے تھے جس کیوجہ سے عباسی فوج کمزور ہوگیا تھا جس کو دیکھ کر ابراہیم یار خان فتح جنگ واپس جنگ میں داخل ہوگءے جس کیوجہ سے عباسی افواج میں جوش آگیا تھا، آخر میں شہزادے کا فوج جو سندھ واہ پار نہیں کر پا رہا تھا تو دریاخان روہیلہ نے سندھ واہ کو پار کر لیا جس کیوجہ سے عباسی خاندان کی شکست یقینی بن گیا، اور فوج منتشر ہونے لگا اور ابراہیم یار خان فتح جنگ اپنے بیٹے کے مزار میں گھرے میں آگیا اور اس جنگ میں شہید کیا گیا اور اس کو ان کے بیٹے ساتھ تدفین کیا گیا ، اور یہ واقعہ 1626 میں پیش آیا، تھا۔باقی محمد ابراہیم یار خان فتح جنگ کے بعد اس کےبعد بھائی محمد شریف نے اس علائقے کا بھاگ دوڑ سنبھا لا تھا، کیونکہ احمد یار خان اس وقت چھوٹا تھا، محمد شریف بن اعتمادولہ غیاث الدین محمد عباسی اور وہ اصل میں ہی مغل عملدارتھا میں احمد یار خان بن ابراہیم یار خان فتح جنگ اپنی خاندانی ریاست کی بھاگ دوڑ سنبھالی جس کو بدنام کرنے کیلئے تاریخ مظہر شاہجہانی لکھوایا گیا ، جس میں لکھنے والوں کو خد ہی سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کیا لکھنا ہوایک لکھنے والا ہوتا تو ہی سمجھ آتا 15 دانشوروں نے ایک کتاب لکھی تو کچھڑی بننا تھا،سید محمد افضال نقوی، مظہر یوسف، پروفیسر سید زوار نقوی،علی محمد راشدی، عبدالمجید سندھی، پیر حسام الدین راشدی، سائیں جی ، ایم سید، محمد ابراہیم جویو، نیاز ہمایونی، سید محمد رضا زیدی،ڈاکٹر محمد سلیم ۔محمد حسین پنہوار،اسی گرپ نے پوری سندھ کی تاریخ لکھی اور لکھوائی ہے، ثبوت کے طور پر تاریخ کلہوڑا دور میں پیر حسام الدین راشدی صاحب خد وضاحت کرتے ہیں، مرزا یوسف نے میرک (میرک یا مورک مطلب بد بخت ظالم )یوسف کے خلاف لکھ رہا ہے دونو بھائی ہیں، وا ہ کیا لاجک ہے مطلب احمد یار خان کےچچامیر خان اعتمادولہ اپنے بھتیجھے کے خلاف کتاب لکھ رہے ہیں ، بھءی یہ سندھ کے دانشور ہیں کچھ بھی کر سکتے ہیں، سارے کتاب اسی طرح لکھے گءے ہیں، جیسے تحفتہ الکرام غلام یار خان شاہ نے لکھوایا اور اسی میں اسی کے خاندان کو گالیاں مل رہے ہوتے ہیں، ویسے سنا تھا کے بادشاہ خد کی تاریخ لکھوانے کیلے ایک مورخ رکھتا تھا جو بادشاہوں کے تاریخ لکھتا ہوتا تھا، یہاں پر مورخ اتنا تگڑا تھا کے پیسے لیکر بادشہ کو گالیاں لکھ دی ہوگی شاید سندھ کا دانشور ہی ہوگا، ، تاریخ مظہر شاہجہانی میں شجرہ نامہ دکھایا گیا تو اس کے برعکس کتاب میں شجرہ کو الگ بیان کیا گیا ہے اور نصیر محمد عباسی کو بزرگ امید علی کا فرزند دکھا کر پھر اس کو بوبک فیملی کے ساتھ جوڑا گیا ہے،اگر دیکھا جائے تو بزرگ امید علی بن شائستہ خان بن آصف جاہ بن میر غیاث الدین محمد عباسی میر خان دوئم بنتا ہے اور یہ خاندان کا علاءقہ بنگال تھا ،نہ کے سندھ۔،دوسرے طرف احمد یار خان کو واضع طور پر نورجہان بیگم کا بھانجا دکھایا گیا ، اور میر غیاث الدین اعتمادولہ میر خان دوئم کا پوتا ظاہر کیا گیا، پر شجرے میں ابرہیم یارخان کے بیٹے کو محمد شریف کا بیٹا ظاہر کیا گیا اور ابراہیم یار خان فتح جنگ کو بے اولاد ظاہر کیا گیا تھا، اس شجرے میں ہی بھمن خان کو ابو الحسن آسف جاہ کا بیٹا ظاہر کیا گیا اور محمد یار خان کو بھمن یار خان بیٹا ظاہر کیا گیا ہے جبکہ تاریخ مآثر الامراہ کے مطابق اور تاریخ کتبوں کے مطابق اعتقاد خان مرزا شاہ پور تھا نہ کہ بھمن،۔ بھمن تو اعتمادولہ میر غیاث الدین میر خان عباسی دوئم کے بیٹا تھا جس کا پورا نام اعتقاد خان شاہ پور مرزا، اور ابوالحسن آصف جاہ کے بھائی ہیں، ۔ محمد یار خان بن احمد یار خان ہے جبکہ مآثر الامراہ کے مطابق حسن یار خان المعروف (نور محمد شاہ عباسی)بن محمد یار خان المعروف یار محمد شاہ عباسی ہے حسن یار خان کے بعد اس کے بڑے فرزند مرادیار خان نے تخت پر بیٹھا جو بھائوں کے چپقلش کیوجہ سے تخت سے اتارا گیا اس کے بعدغلام یار خان شاہ عباسی المعروف غلام شاہ تخت کے حصول کئیلئے ڈھرکی گھوٹکی کے پاس جنگ لڑا گیا جس میں احمد یار خان کا سپہ سالا مقصودو فقیر تھا اسی جنگ کو میاں دین محمد کے طرف منسوب کرتے ہیں دین محمد بن عبدالکریم کا بیٹا تھا،نہ وہ دور کلہوڑووں کا تھا اور نہ کوءی لنگاہوں کا، جو سراسر جھوٹ ہے خد ڈاکٹرنبی بخش بلوچ صاحب احمد یار خان اور غلام یار خان کی جنگ کے بارے میں انے کتاب آرٹیکل کا مجموعہ میں ہی مقصودو فقیر کو ہی احمد یار خان کا سپہ سالار ظاہر کرتا ہے، جبکہ ٹالپر دور پورے سندھ پر حکومت نہیں تھا رہا اور نہ ہی شکارپور پر ۔
بس دریا کے جنوب کی طرف ٹالپروں کا حکومت تھا، جس میں میر پور خاص، حیدرآباد، اور خیرپور ریاست تھا ،باقی دریا کےشمال کی طرف عباسی خاندان کی حکومت تھی،جس میں ایران کے تو کبھی افغانستان کے نماءندے آجاتے تھے، کوءی گورنر نہیں تھے، عباسی خراج دیا کرتے تھے،جو انگریزوں نے1843کے سندھ پر مکمل قبضے کے بعد انگریزوں کے زیر تسلط پورا سندھ آگیا تھا، پھر بھی شکارپور پر عباسی خاندان کے ساتھ انگریز کے نماءندے موجود تھے، مراد یار خان عباسی کے دو صاحبزادے تھے حسن علی اور عباس علی ، عباس علی کے بارے میں معلومات نہیں باقی حسن علی کے صاحبزادوں کے مطلق معلومات نہیں ملا بس حسین خان کے مطلق معلومات ملا ہے، جس کا ایک بیٹا محمد مراد کا نام ملتا ہے جس نے تین شادیاں کی تھی ، ایک بیٹا حاجی میر خان تھا اور دو صاحبزادیوں کا علم ہوا ہے ،قیا م پاکستان کے بعد میر خان عباسی جو عباسی خاندان کو سربراہ تھا جس نے 8 اپریلک 1949 کو اپنی ساری زمینیں پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا، جو عباسی خاندان نے جیسے ہی پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا تو اس وقت کے لوگ جو پاکستان مخالف ایجنڈے پر کام کر رہے تھے جو ٓٓاج تک وہی کام کر رہے ہیں، سوچے سمجھے ممنصوبے کے تحت عباسی خاندان کی تاریخ اور عباسی خاندان کے لوگوں کو شہید کرنا شروع کر دیا تھا، سب سے پہلے شکارپور کے عباسی خاندان کے سربراہ میر خان شہید کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا، قاتل لوگوں کا تعلق انڈیا کے گجرات سے تھا، جو آج بھی عباسی خاندان کو اپنے قبضے میں کیا ہوا تھا، پر اللہ کے فضل و کرم سے اور نبی کرم ﷺ کے صدقے آج عباسی خاندان اپنی تاریخ اجاگر کرنے میں کوشاں ہیں، اخبار اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا پیغام پہچا رہا ہے، حاجی میر خان کے شہادت کے بعد اس کے بعد یہ سلسلہ 1990 تک چلتا رہا،ہزاروں کے تعداد میں عباسی خاندان کے لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا، لاتعداد عباسی خاندان کے لوگوں کو شہید کیا گیا جن میں مرد عورت، بوڑھے بچے سب کو بے دردے کے ساتھ شہید کیا گیا، کچھ جگہوں پر اجتماعی دفن بھی کیا گیا، قبروں کو مسمار کر کے ان پر گھر، مسجد، مدرسے بناءے گءے، عباسی خاندان کے گھروں ، حویلیوں، مدرسوں، مسجدوں، خانقاہوں پر لوگوں نے قبضہ کیا گیا، کچھ پر اپنے نام کی تختی لگای گیا تو کچھ پر مندر ، آج بھی زیاد ہ طر شکارپور کےمندر حویلیوں میں ہیں،کچھ پر کھیت باڑی بھی کر رہے ہیں،سب سے بڑی حولناک قبضہ جس میں لادتعداد لوگوں کو زندہ جلاگیا گیا ، جی ہاں وہ تھا خانقاہ حسینیہ شکارپور ، خانقاہ حسیہنیہ جہاں خلافت تحریک کے جلسے جلوس ہوا کرتے تھے، جہاں سید احمد شہید بھی آءے تھے اور اسی خانقاہ میں قیام کیا تھا، خانقاہ حسینیہ اسلام پہلانے کا یاک اسیا درسگاھ تھا جہاں سے ریشمی رومال تحریک اور تحریک پاکستان کے بہت سے جوان تیار ہوءے جنہوں نے ہر محاذ پر اسلام کی اس شکارپور شہر کی نماءندگی کی، اور پورے ہندوستان میں اپنا ہونے کا احساس دلوایا تھا، وہ کالی رات تھی ، جہاں پولیس کچھ فاصلے پر تھا، جہاں لوگ عشاہ کی نماز پڑھ کر اپنے اپنے کمروں میں سونے لگے تھے، اس قوت جو اساتذہ تھے وہ بھی اپنے کمروں میں سونے کی تیاریوں کر رہے تھے تو کچھ اپنی کامون میں مشغول ہوگءے تھے اچانک ایک ٹولہ نمودار ہو جنہوں نے خانقاہ کے اندر گھس کر دروازون کو باہر سے بند کر کے ان پرتیل چڑک رہے تھے ، کچھ ہی لممحوں میں جہاں سکون تھا خاموشی تھا، اسی لمحے چیخ و پکار کی آوازیں آنے لگے، ، کوءی آواز سننے والا نہ تھا، لوگ زندہ جل رہے تھے جس میں اساتذہ اور طالبات بھی تھے، اور کچھ لوگ لوٹ مار میں لگے ہوءے تھے جن کا کام تھا نادر و نایاب کتابوں کو اپنے قبضہ میں کرنا تھا،قرآن شریف کی بے حرمتی کی گءی تھی، یہ کہوں سے لوگ تھے، ان کا کیا درہم تھا ، کیا یہ لوگ انسان تھے، یہ وہی شکارپور جس کو سندھ کا پءرس کہتے تھے، اور امن محبت و باءچارےکی جگھ بتا یا جا رہا تھا، آج اسی شہر میں بے قصور لوگوں کو زندہ جلایا جا رہا تھا، ان کاصرف ایک قصور تھا، کے وہ مسلمان تھے، دہشتگرد نہ تھے ، جب ساری رات ظالموں نے خانقاہ حسینیہ کو شہید کیا گیا تو دوسرے دن صرف کاغذی کرواءی کرکے پولیس چلا گیا، خانقاہ حسینیہ جہاں پر عباسی خاندان کے لوگوں کے مزار بھی تھے ان پر ہندوں نے قبضہ کیا تو کچھ زمینوں پر عیسانءی تو باقی گھروں پر نام نہاد مذہبی، قومپرست لوگوں نے اپنا قبضہ جمایا ، جہان آج خانقاہ حسینیہ پر ایک مندر بنایا گیا، جس کا نام سمادا آشرم مطلب مزاروں کا مندر، جہان آج بھی س20 کےقریب قبریں ہیں کچھ اندر تو کچھ باہر ، اندر قبروں کی تعدا د 10کے قریب ہیں جن پر ہندوں کے نام رکھ کر ان کی مورتیاں بنا کر رکھ دیا گیا، ایک بات ذہن نشین کرنا چاہءے کے خانقاہ کو مندر بنانے کے بعد پہلے پجاری مہاراج شو بجھن تھے جن کے نام سے پاکستان اور ہندوستان میں مندر بناءے گءے تھے، خانقاہ کو مندر بنانے کا جو کریڈٹ تھا،آج بھی شکارپور میں مندر حویلیوں میں ہیں، جو کہ عباسی خاندان کے گھر حولیاں تھیں، شکاپور کا ڈیڈ کلومیٹر طویل شکارپور ڈھک بازار ، شکارپور کی میٹھی زبان کا لہجہ، محمد آبادی سکرپٹ، جس کو شکارپوری یا خدا آبادی کے سکرپٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، سندھ کے تاریخ لکھنے والے جھوٹے دانشوروں کا تعلق بھی شکارپور سے ہے،ا ٓج بھی جھوٹ کو پراوان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، آج بھی شکارپور کے دانشور اس بات پر بحث کرتے ہیں کے غوک کا تختی کس نے چوری کیا تھا، جب تختی ہی نہیں تھا تو ڈرامہ کیوں کر،، کچھ دنوں سے کچھ لوگ سوشل میڈیا پر شکارپور کی تاریخ پر جھوٹ پھیلا رہے تھے، راقم کا 15فروری 2020کوسندھی پنھنجی اخبار میں شکارپور پر ایک آرٹیکل بھی پبلش ہوا ہے، شکارپور عباسی خاندان کا مرکز تھا، اور شکارپور کے عباسی خاندان کا جس طرح نسل کشی کیا گیا تھا وہ ناقابل بیان ہے، شکارپور کے نوجوان نسل کو حق سچ کا ساتھ دینا چاہیءے، تاریخ کسی بھی قوم، مذہب، قبیلے ، فرقے، کا ہو سچ ہو، اس جدید دور میں بھی اگر ان جھوٹے مناففق، غدار لوگوں کے جھوٹ پر ہی عمل پیرا ہونگے تو ہم سے بڑا جاہل اور کوءی نہیں ہوگا،ہم اپنے نءے نسل کو خد ہی جہنم میں جھونک رہے ہیں،، ہم پڑھے لکھے جاہل کے علاوہ کچھ بھی نہیں، ہم نے تحقیق کا دامن چھوڑ کر منافقتی ، جھوٹ کے داعی بن چکے ہیں، شکارپور آج گند کا ڈہیر بن چکا ہے، بارش میں کینجھر جھیل بن جاتا ہے، شکارپور میونسپل کامیٹی سیاستدانوں کے گھر کا لونڈی بن چکا ہے، یہ شکارپور کے ٹھگ ہیں بابو ذرا بچ کے چل ،آشکارپور چند لوگوں کے رحم و کرم پر ہے ، اپنے حق کیلئے اپنا کردار ادا کریں، شکارپور ہم سب کا ہے، شکارپور اپنا حق مانگ رہاہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر