سہیل وڑائچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جنگل کی کہانی ہے، جنگل کا اپنا دستور اور اپنی ہی لڑائیاں ہیں۔ کچھ سال پہلے تک شیر جنگل کا بادشاہ تھا مگر ہاتھیوں کے ریوڑ اور شیر میں ایسی مخاصمت پیدا ہوئی کہ شیر کی بادشاہی جاتی رہی اور چیتے کو جنگل کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔ابھی تک خدشہ پایا جاتا ہے کہ جنگل کے اکثریتی جانور بادشاہ کے حامی ہیں اور جب کبھی ووٹ پڑے جنگل کے بڑے حصے میں شیر کو زیادہ ووٹ ملیں گے۔
شیر پرانی قدروں اور طریقوں سے سیاست کرتا تھا ،اس کا حکومت چلانے کا انداز بھی روایتی تھا چیتا پھرتی کا قائل ہے، اس نے شیروں کے قبیلے کے ہر سرکردہ کو سلاخوں کے پیچھے بند کر رکھا ہے۔ جنگل کی سیاست میں توازن ہاتھیوں کے ہاتھ میں ہے۔ ہاتھی بڑے ریوڑ کی شکل میں رہتے ہیں ان کی یادداشت تیز ہے اور یہ سارے اپنے قبیلے کے سربراہ کے ڈسپلن کے پابند ہیں۔ شیر کو اقتدار سے نکالنا آسان نہ تھا مگر ہاتھیوں کے گروہ نے شترمرغ کو منصف بنا کر شیر کو آئوٹ کر دیا۔
ہاتھی چیتے کو اقتدار میں لے تو آئے ہیں مگر سوفیصد اس کے احکامات بھی نہیں مانتے۔ شیر بیمار ہواتو ایک دوست بوڑھا ہاتھی اس کی مدد کو آیا اور اسے باہر علاج کے لئے بھجوا دیا ،چیتا اب روز کہتا ہے کہ میرے ساتھ دھوکہ ہوا شیر کو دھوکے سے قید سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا ہے شیر پہلے تو خاموش رہا مگر چیتے نے جب سے روزانہ شیر کو چیلنج کرنے اور واپس بلوانے کے بیان دینا شروع کئے ہیں شیر اب بولنے لگےگا اور شیر جب بولے گا تو چھپرپھاڑ کر بولے گا۔چیتا اور ہاتھی اتحاد ویسے تو مثالی ہے لیکن اگر چیتے نے شیر کے علاج کے پیچھے محرکات کو جاننے کی کوشش کی تو ہاتھی ناراض ہو سکتاہے۔
جنگل میں دریائے سندھ کے آخری حصے پر گوریلا حکومت قائم ہے ،چیتے کی خواہش اور کوشش کے باوجود اس حکومت نے اپنے جزیرہ نما کو محفوظ کر رکھا ہے گوریلوں کا اصل سربراہ بوڑھاگوریلا ہے جو تجربے کی بھٹی سے گزر کر کندن ہو چکا ہے وہ چھوٹے گوریلے کو تیار کر رہا ہے لیکن چھوٹا گوریلا ابھی چیتے اور شیر سے براہ راست مقابلے کے لئے تیار نہیں ہے البتہ ایک دو بار اس نے چیتے کو للکارا ضرور ہے۔
بارشوں کی تباہی نے گوریلوں کی حکومت کو مشکل میں ڈالا ہے لیکن اب ہاتھی اور چیتا بھی مدد کو پہنچ گئے ہیں کیونکہ اس حوالے سے سارے جنگل میں بے چینی تھی جنگل کی واحد بندرگاہ معاشی مرکز بھی ہے اس کے حالات خراب ہوئے تو سارے جنگل کی معیشت خراب ہو جائے گی۔
چند روز پہلے جنگل میں منگل کا سماں تھا چیتا اپنی دو سالہ کارکردگی جنگل کے عوام کے سامنے پیش کر رہا تھا ہاتھی بھی سجے سجائے اور تمغے لگائے موجود تھے شیروں کی نمائندگی شیر بادشاہ کو چھوڑنے والے ساتھی کر رہے تھے یہ شیروں کا فارورڈ بلاک ہے، جو اب چیتے کی حکومت کا حامی بن چکا ہے۔
دوسالہ کارکردگی کی تفصیل بڑی متاثر کن تھی مگر جنگل کی مخلوق مطمئن نہ ہوئی ایک چالاک لومڑ نے تو چیتے بادشاہ سے یہ سوال بھی جڑ دیا کہ پہلے بادشاہ کے دور میں اناج عام ملتا تھا اب کیا ہو گیا ہے؟چیتے بادشاہ نے فوراً کہا کہ یہ سارا شیر کے مافیاز کا کیا دھرا ہے برسوں سے یہ مافیا راج کرتا رہا ہے اب بھی ہماری حکومت کو یہ مافیا چلنے نہیں دے رہے ۔اس پر خوشامدی کوئوں نے زور زور سے کائیں کائیں کرکے چیتے بادشاہ کی ہاں میں ہاں ملائی۔
جنگل کے جنگلی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ دسمبر تک چیتے اور شیر کی جنگ ٹھنڈی ٹھنڈی رہے گی لیکن جب سے شیر کو واپس بلانے کے حوالے سے پیشرفت شروع ہوئی ہے شیر نے بھی اپنی ڈوریں ہلانی شروع کر دی ہیں پہلے شیر نے اپنی بیٹی کو باہر نکالا اب شیر نے اپنے قائم مقام بھائی کو بھی بندرگاہ کی طرف روانہ کیا وہ وہاں گوریلے باپ بیٹے سے بھی ملامگر معاملہ نشستند، گفتند، برخاستند تک ہی محدود رہا۔
اصل میں شیر کا قائم مقام ہو یا بوڑھا گوریلا دونوں اقتدار کی راہداریوں کو خوب سمجھتے ہیں وہ ہر وقت ہاتھیوں کی سوچ کو سونگھتے رہتے ہیں ان دونوں کی خواہش ہے کہ ہاتھی اور چیتے ایک صفحے پر نہ رہیں جب یہ ہو گا تبھی حکومت کی تبدیلی کی راہ ہموار ہوگی دراصل سابق بادشاہ شیر کو علم ہے کہ ستمبر اور اکتوبر میں ہاتھیوں کے دستے میں آٹھ اہم تبدیلیاں ہونے والی ہیں ان تبدیلیوں کے بعد ہی نئی منصوبہ بندی ہو گی اور طے ہو گا کہ آگےجاکر جنگل میں کیا ہوگا؟
جنگل کے عام حالات بڑے عجیب ہیں آج کل شترمرغ فیشن بڑا مقبول ہے، ہر جانور غیر مطمئن اور بھوکا ہے مگر شترمرغ کی طرح اپنی گردن ریت میں دبا کر گزارا کر رہا ہے۔ سفید اور کالی دھاری والے دریائے گھوڑے آمادہ بغاوت ہوئے انہوں نے پورے جنگل میں منادی کی، جلوس نکالا ،ایسے لگا کہ چیتے کی حکومت ہل گئی ہے مگر پھر چالاکی سے دریائی گھوڑوں سے وعدے وعید کرکے رخصت کر دیا گیا اور اب شاید وہ وعدے بھی بھلا دیئے گئے ہیں۔
جنگل کے اردگرد کے بیرونی حالات بھی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں سابق بادشاہ شیر کے زمانے میں بھی بیرونی حالات انگڑائی لے رہے تھے اس زمانے سے لیکر اب تک فیصلوں کو ٹالا جا رہا ہے مگر ایک وقت آئے گا کہ چیتے اور ہاتھی کو بیرونی دنیا کے بارے میں اپنی پالیسی وضع کرنی پڑےگی۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارا جنگل اس وقت بھنور میں ہے افغانستان میں عالمی سطح پر بڑے فیصلے ہو رہے ہیں ان فیصلوں میں ہم فریق ہوں یا نہ ہوں ان فیصلوں کے اثرات میں ہم ضرور فریق ہونگے۔ گزشتہ 41سال سے ہم افغانستان سے آنے والے بارود اور لاشوں کو بھگت رہے ہیں، اب ایسا کچھ کرنا ہو گا کہ ہمارے جنگل میں امن رہے اور افغانستان میں جو بھی ہو وہ وہاں تک ہی محدود رہے۔
جنگل کی بادشاہی عجب شے ہے، جو بھی بادشاہ بنتا ہے وہ ماضی سے سبق نہیں سیکھتا۔تاریخ یہ سبق سکھاتی ہے کہ نہ کوئی شیر ہمیشہ سلامت رہتا ہے اور نہ کوئی چیتا ہمیشہ برسراقتدار رہے گا ۔جنگل اور اس کی مخلوق کا بھلا کرنے والا چاہے اقتدار سے رخصت بھی ہو جائے اس کا نام زندہ رہتا ہے بقول چیتے کے وہ ایک طویل جدوجہد کے بعد آیا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنے اردگرد ماہرین اور سیاست دانوں کی ایسی ٹیم رکھے جو اس کو ترجیحات کے بارے میں صحیح مشورے دے۔
یہ سچ ہے کہ فی الحال کوئی میگاکرپشن کیس سامنے نہیں آیا تو کوئی میگا پروجیکٹ بھی عمل میں نہیں آیا۔ یاد رکھیں جنگل کی بادشاہی جاتے دیر نہیں لگتی وقت ضائع نہ کریں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر