نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاستدان خراب ہیں، نا اہل ہیں اور کرپٹ ہیں کا بیانیہ بہت پرانہ ہے، یہ راگنی جنرل ایوب خان نے ملک پر قبضہ کرنے سے قبل شروع کی تھی وہ دن اور آج کا دن یہ راگنی کبھی بھی ختم نہیں ہوئی ، ایوب خان کے بعد جنرل ضیا بھی ملک کو سیاستدانوں سے پاک کرنے کے جھاد کے سالار رہے ،وہ ہی رٹی رٹائی کہانی لیکر پرویز مشرف ملک پر قابض ہوئے اور احتساب کا گورکھ دہندہ شروع کیا، جنرل حمید گل اور جنرل پاشا نے انہیں کرپشن بیانیہ کے سر اور تان سکھائے، میڈیا ہائوسز کو کرپشن راگنی کی موسیقی کا ٹھیکہ دیا گیا ، پاشا برانڈ سلطنت نیازییہ کا کرپشن بیانیہ اگر چہ دم توڑ چکا ہے ، سابق جج کی بظاہر نگرانی نیب سر سے پاؤں تک کالک کے داغ لگنے کے باوجود احتساب کا ٹھیکہ چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہے ایسے میں صحافی احمد نورانی نے سابق جنرل، سی پیک کے چیئرمین اور وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی جنرل ” عاصم سلیم باجوہ کی غیر اصولی معاشی ترقی کا راز فاش کرکے بہت ساروں کو انصاف اور اخلاقیات کے کٹھڑے میں لاکر کھڑا کردیا ہے، اس وقت صحافیا احمدنورانی ملک دشمن ، دشمن ملک کا ایجنٹ اور غداری کی تہمتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
مگر حق بات یہ ہے صحافی احمد نورانی نے سابق جنرل اور وزیراعظم کے معاون خصوصی کو انصاف کے کٹھڑے میں لاکر کھڑا کردیا ہے، اگر جنرل عاصم باجوہ پر الزامات غلط ہیں گزشتہ چار دنوں سے کیوں خاموش ہیں؟ ممکن ہے کہ جنرل عاصم باجوہ خاموشی میں اپنی عافیت سمجھ رہے ہوں تو بھی اخلاقیات کاتقاضہ ہے وہ قوم کے سامنے اپنی پوزیشن واضع کریں، رہی بات وزیر اطلاعات شبلی کی کہجنرل عاصم دو چار دنوں میں اپنی پوزیشن واضع کریں گے انتہائی بودی ہے کیونکہ جنرل عاصم باجوہ اس وقت سی پیک کے چیئرمین بھی ہیں جس سے ملک اور قوم کا مستقبل وابستہ ہے ۔ جنرل ر عاصم کس منہ سے اور اپنے کندھوں پر کرپشن الزامات کا بوجھ اٹھائے برادر ملک چین کی حکومت سے بات کریں گے؟ اصولی اور اخلاقی اعتبار سے عمران خان کو چاہیئے تھا کہ تحقیقات تک عاصم باجوہ کو ان کے عہدوں سے ہٹاتے، سوال یہ ہے کہ اگر نیب ملک کے سابق صدر کو تحقیقات کی آڑ میں کئی ماہ تک اپنی قید میں رکھ سکتا ہے ، ملک کے ایک وزیراعظم کو پاناما کی خبر پر عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے تو گریڈ 19 کے سابق ملازم کیوں تحقیقات سے مبرا ہیں؟ معاف کیا جائے ریاست کو ریاست کے طور چلایا جائے ریاست کو اینیمل فارم ہاوس کی طرح چلانے کی مزید کوشش نہ کی جائے ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ملک کے میڈیا ہاوسز ان کے قبضے میں ہیں تو برائے مہربانی نوٹ فرمائیں کہ دنیا میں اطلاعات رسانی اب کسی کے قابو میں نہیں رہی ، کسی کو کیا معلوم کہ جنرل ر عاصم باجوہ کے بارے صحافی احمد نورانی کی رپورٹ بارش کا پہلا قطرہ ہو اور بارش پر کنٹرول کسی کے بس میں نہیں ہے، آج ہی کی ہی بات ہے گریڈ 22 کے ریٹائرڈ بیوروکریٹک کہہ رہے تھے جنرل عاصم باجوہ کے اثاثے دیکھ کر انہیں رات کو بھی نیند آتی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ