وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی شخصیت، کردار، قول و فعل پر کوئی لاکھ اعتراض کرے. میرا نہ تو ان کی جماعت سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی میں ان کا کوئی دفاع کرنے جا رہا ہوں. مجھے وزیر اعظم عمران خان کی اس بات اور سچائی پر سو فیصد یقین ہے. اسے آپ ان کی خوبی کہیں یا خامی وہ اکثر اوقات دانستہ یا غیر دانستہ تلخ قسم کا سچ اور اندرونی حقیقت کو بیان کر جاتے ہیں. وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا یہ کہنا کہ مافیا کو پکڑنے والے خود مافیا کے ساتھ ملے ہوئے ہیں. اداروں میں مافیا بیٹھے ہوئے ہیں. اگر مافیا کو ٹھیک کر دیا تو آگے اچھا وقت آئے گا.
محترم قارئین کرام،، یہ بہت بڑا المیہ ہے جو حقیقت عمران خان نے بیان کی ہے یہی ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ ہے جو خرابیاں دور نہیں کرنے دیتا. عوام کے مسائل حل نہیں ہونے دیتا.مختلف اداروں سے کالی بھیڑوں کی صفائی نہیں ہونے دیتا.مرض کی جو تشخیص کی گئی ہے میں اس سے سو فیصد متفق ہوں. دراصل دوسرے لفظوں میں عمران خان نے مذکورہ بالا بیان میں اپنی بے بسی اور اس سچ کا بھی اظہار کر گئے ہیں کہ دیس میں مافیاز کا راج ہے. مافیاز کا نیٹ ورک اس قدر طاقت ور و موثر ہے کہ اداروں پر مافیاز کا کنٹرول ہے.انہی کی مرضی چلتی ہے. مجھے نہیں معلوم وزیر اعظم پاکستان نے اداروں کا لفظ جو استعمال کیا ہے.ان کے ذہن اور ان کی لسٹ میں کون کون سے ادارے شامل ہیں.عمران خان نے بحیثیت وزیر اعظم پاکستان گذشتہ ماہ کسان قیادت خالد محمود کھوکھر کی سربراہی میں پاکستان کسان اتحاد کے مرکزی قائدین سے ملاقات کے دوران زراعت اور کسانوں کے مسائل اور مطالبات کے حل کے حوالے سے کسانوں سے جو جو وعدے کیے تھے. دیئے گئے ٹائم سے دگنا تگنا وقت گزر جانے کے باوجود وہ ابھی تک حل نہیں ہوئے. لگتا ہے کہ اداروں اور وزارتوں کے اندر بیٹھے ہوئے زراعت اور کسان مخالف مافیاز رخنہ در رخنہ بنے ہوئے ہیں وزیر اعظم کے احکامات کو شٹل کاک بنا رکھا وہ وزیر اعظم کے احکامات کو تگنی کا ناچ ناچا رہے ہیں. کسانوں اور عوام کی نظر میں وزیر اعظم کے وعدے اور احکامات مذاق بن کر رہ گئے ہیں. نہ کھادوں کی قیمتیں کم ہوئی ہیں نہ زرعی ٹیوب ویلز ٹیرف کے متعلق مطالبات پورے کیے گئے ہیں. غرض کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوا. گویا کسانوں کو مافیاز کے نرغے سے نکالنے کی موجودہ حکمرانوں سے وابستہ آس امید دم توڑتی نظر آ رہی ہے. کسانوں کی مختلف تنظیمیں ایک بار پھر سڑکوں پر نکلنے کے لیے سوچ بچار کرنے لگی ہیں.
محترم قارئین کرام،، کسانوں کے ایک سے بڑھ کر ایک سینکڑوں مسائل ہوں گے. کسانوں کو مختلف طریقہ ہائے وارادات کے ذریعے لوٹ مار کی کئی داستانیں ہوں گی. کھلم کھلا ڈاکہ زنی کی درجنوں مثالیں موجود ہیں. مڈل مینوں سے شوگر ملوں تک، کھاد ادویات کی زہریلی لوٹ مار سے مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی ستم گریوں تک لکھنے بیٹھیں تو کالم کیا کتابیں لکھی جا سکتی ہیں. ایک زرعی ملک کی زراعت اور کسانوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہو رہا. کونسا محکمہ اور ادارہ ہے جو اسے نوچ نہیں رہا. اس کا خون نہیں پی رہا. آج میں صرف ایک ایسے محکمے کا ذکر کروں گا جو شریف محکمہ کہلاتا تھا. بڑا بد معاش بند چکا ہے. چپکے چپکے سے اس وقت سب سے زیادہ کسانوں کو کھائے اور لوٹے جا رہا ہے. وقت کے ساتھ ساتھ زراعت کو تباہی کی طرف لے جانے کا باعث بنتا جا رہا ہے.مختلف سرکاری منصوبہ جات اور فنڈز میں کی جانے والی کرپشن اور گھپلے اپنی جگہ.اس حقیقت کو جان کر آپ یقینا حیران ہوں گے کہ محکمہ آبپاشی پنجاب کے آفیسران اور ملازمین ہر سال کروڑوں روپے نہیں اربوں روپے کسانوں کی جیب سے باقاعدہ نکال رہے ہیں. یہ اربوں روپے سرکاری خزانے میں ہرگز نہیں جا رہے بلکہ یہ رقم آفیسران کی ذاتی تجوریوں میں اضافے کا باعث بن رہی ہے. محکمہ انہار میں آنے والے کنگلے سال بہ سال بعد تیزی سے بنگلے در بنگلوں کے مالک بنتے دکھائی دے رہے ہیں.آئل ملز، پیٹرول پمپ،وسیع اراضی پر پھلے ہوئے مچھلی فارمز اور درجنوں مربعوں کے حساب سے زمینوں کے مالک یا شراکت دار کیسا بنا جاتا ہے. کوئی ادارہ تو پوچھے کہ خاندانی وراثتی جائیداد نہ ہونے اور دیگر ذرائع آمدنی نہ ہوتے ہوئے اتنی پراپرٹی اور جائیداد کہاں سے اور کیسے بنتی ہے. اگر
یہ کہا جائے کہ پانی کی تقسیم کار اور نہری نظام کی نگرانی کی بجائے محکمہ انہار پانی فروخت کرنے والی ایک کمپنی اور دکان بن چکا ہے تو بے جا نہ ہوگا. منرل واٹر کمپنیوں کی طرح محکمہ انہار کے کرپٹ آفیسران بھی دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں.ایک لاکھ روپے فی موگہ سے تین چار لاکھ روپے فی موگہ کون وصول کرتا ہے اس میں کس کس کا اور کتنا کتنا حصہ ہوتا ہے.کیا کسانوں کا پانی کسانوں کو بیچنے والوں پر کوئی قانونی گرفت نہیں.صرف زمینداروں پر پرچے کیوں. پہلے موگہ تڑوا کر بھاری رقمیں وصول کرنا، پھر تاریں دے کر پرچے درج کروانا، بیس گنا تاوان کے کیس بنانا بلیک میل کرکے مزید وصولیاں کرنے سمیت کسانوں کو کھانے کے کئی ڈھنگ اور رنگ ہیں. نیب کو اس کرپشن اور کاروبار کا بھی جائزہ لینا چاہئیے. نیب، ایف آئی اے سمیت کسی کا بھی ان کی لوٹ مار کی طرح دھیان نہیں جا رہا. کرپشن کے ساتھ ساتھ یہ لوگ نہری نظام کی اصلاح میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں بلکہ سسٹم کی تباہی کے ذمہ دار ہیں. نہروں کی ری ڈیزائنگ اور ری ماڈلنگ نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف کسان اپنے پانی کے حق سے محروم چلے آ رہے ہیں بلکہ وہ اپنا حق اپنا پانی محکمہ کے کرپٹ لوگوں سے خریدنے پر مجبور ہیں. وطن عزیز کی مختلف ایجنسیاں کیا اس حقیقت کو نہیں جانتی کہ مائنرز اور نہروں کے فی موگہ جات ریٹ کیا ہیں. سو فیصد زمینیں آباد ہو جانے کے باوجود کسانوں کو چالیس فیصد آباد زمینوں کے تناسب سے، اسی پرانے سائز اور ولاسٹی کے ساتھ نہری پانی دیا جا رہا ہے. میرا حکومت کو مشورہ ہے کہ غیر قانونی پانی فروختگی مکمل بند کروائی جائے. نہروں اور موگہ جات کی ری ڈیزائنگ کرکے سائز بڑھا دیئے جائیں. بے شک پانی کے سرکاری ریٹ یعنی آبیانہ میں اضافہ کر دیا جائے تاکہ رقم حرام خوروں کی جیب میں جانے کی بجائے سرکاری خزانے میں جائے. مجبور کسان و زمیندار پانی چور کہلانے سے بچ سکیں. حکومت ایک کام اور کرے کہ ایک با اختیار تحقیقاتی ٹیم اور کمیشن مقرر کرے جو ہر نہر راجباہ اور مائنر کے موگہ جات کا ڈیزائن اور سائز ریکارڈ کے مطابق چیک کرے. جہاں جہاں گڑ بڑ ہے اس کے ذمہ دار آفیسروں کے خلاف کاروائی کی جائے. آخر وہ کس بات کی تنخواہ اور دیگر مراعات لیتے ہیں. آبادیوں اور کمرشل استعمال میں آ جانے والی آبپاش زمینوں کا پانی قانون کے مطابق ختم کرکے دیگر حقدار میں تقسیم کیونکر نہیں کیا جا رہا. ایک زمین کا پانی ایک موگہ اور ایک جگہ کی بجائے دو دو جگہوں سے کس قانون اور قاعدہ کے تحت دے کر مخصوص لوگوں کو نوازا جا رہا ہے.میرے ضلع رحیم یار خان میں ڈالس ڈویژن کرپشن میں ہمیشہ سب سے آگے رہا ہے. ہنوز اس نے اپنی برتری قائم رکھی ہوئی ہے. بھونگ بند اور نہروں کی پختگی سمیت پانی فروختگی میں ڈالس ڈویژن ریکارڈ کمائی کے ساتھ سرفہرست ہے.لاقانونیت اور سینہ زوری کا یہ عالم ہے کہ یہاں آفیسران تبادلہ ہو جانے کے باوجود چارج نہیں چھوڑتے نئے آنے والے کو الٹا کئی قسم کی دھمکیاں دیتے ہیں. یہاں ایسے ایسے بااصول شریف آفیسران بھی ہیں جو سرکاری گھر میں بھی رہتے ہیں اور ہاوس رینٹ بھی سرکاری خزانے سے وصول کرتے ہیں. میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ملک میں اداروں کی آڈٹ کا کوئی نظام نہیں ہے.حرام خور قومی خزانے کو شیر مادر سمجھ کر پیئے جا رہے ہیں. مجھ جیسے مضافات میں رہنے والے آدمی کو اتنی معلومات ہو سکتی ہیں تو کیا ایجنیساں اتنی بڑی اور پھیلی ہوئی کرپشن سے بے خبر ہیں. یا جان بوجھ کر اس محکمے کو بھی زراعت کی تباہی اور کسانوں کی جیبیں صاف کرنے کے لیے مافیاز کے حوالے کر دیا گیا ہے.
میری تمام کسان تنظیموں، کسانوں اور زمینداروں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے نہری پانی کا حق جائز اور قانونی طریقے سے لیں. فی موگہ ایک سے تین چار لاکھ روہے بھتہ دینا بند کر دیں.آباد زمینوں کے تناسب سے نہروں اور موگہ جات کی ری ڈیزائنگ اور سائز بندی کروائی جائے. چالیس فیصد کے مطابق بنائے گئے موگہ جات کے سائز اور دیئے گئے پانی سے آبپاشی ممکن نہیں ہے.ہر سال کرپٹ آفیسروں پر لاکھوں کروڑوں اربوں روپے خرچ کرکے موگے تڑوا کر پانی لینا، خود کو الٹا پانی چور کہلوانا، پھراوپر سے کب تک پرچے اور ذلت برادشت کرو گے. ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں رٹ پیٹیشن کی جائے. نہری سسٹم کی اصلاح اور ری ماڈلنگ ہی زرعی ترقی کے حصول اور کسانوں کی فلاح کے لیے ضروری ہے.ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر محکمہ انہار کے آفیسران پیسے لے کر موگے تڑوا کر موجودہ سسٹم کے ذریعے پانی پورا کر سکتے ہیں تو قانونی طور پر باقاعدہ موگہ جات کے سائز بڑھا کر پورا کیونکر نہیں کر سکتے.سالانہ کروڑوں اربوں روپے اوپر کی کمائی کا مسئلہ ہے اور تو کوئی بات نہیں ہے.شوگر مافیا کے خلاف کیس لڑنے والے مجاہد زمیندار رئیس احسن عابد ایڈووکیٹ کی طرح کوئی مجاہد آگے بڑھے اورکسانوں کو محکمہ انہار کی ایک مستقبل اور بڑی لوٹ مار سے بچائے.مجھے امید ہے کہ احسن عابد ہی نعرہ تکبیر لگا کر میدان میں آئے گا. میری زرعی بیک گراونڈ رکھنے والے ایم پی اے اور ایم این اے صاحبان سے بھی گزارش ہے کہ وہ نہری نظام اور موگہ جات کی ری ڈیزائنگ و ری ماڈلنگ کے لیے اسمبلیوں میں آواز اٹھائیں. انسان صد ایک جیسا طاقت ور بااثر اور بااختیار نہیں رہتا. خود مسائل اور پریشانیوں کا شکار ہونے سے قبل مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کروا لیں تو یہ ان کے لیے اور ان کی عوام کے لیے بہتر ہے.ملک کی با اختیاراور فیصلہ ساز شخصیات اور اداروں سے میری کسانوں کی جانب سے اپیل ہے کہ تحفظ نہری نظام اور تحفظ زراعت کے پیش نظر محکمہ انہار سے مافیاز کو نکال باہر کیا جائے.
کسانوں کے ایک سے بڑھ کر ایک سینکڑوں مسائل ہوں گے. کسانوں کو مختلف طریقہ ہائے وارادات کے ذریعے لوٹ مار کی کئی داستانیں ہوں گی.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر