اسلام آباد کی فضاؤں میں ملک میں صدارتی نظام کے حوالے سرگوشیاں کافی عرصے سے جاری ہیں، اس سلسلے میں کسی نے ریفرنڈم کے لیئے عدالت سے رجوع کرلیا ہے، ظاہر ہے اس خوفناک کھیل میں پس پردہ کردار بھی ہونگے جو نتائج سے بے نیاز ہوگر آتش فشان کے دہانے پر کھڑے سازشوں کی چنگاریاں جلا کر
کھیل کھیل رہے ہیں، ایسا کھیل جو ملک کی بقا کیلئے انتہائی مہلک اور خطرناک ہے ، اس حقیقیت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے کہ ہماری ریاست 1973 کے آئین کے بنیادوں پر کھڑی ہے اور یہ بھی ہرگز نہیں بھولنا چاہئے وفاق کی چاروں اکائیاں آئین سے انحراف کرنے پر وفاق سے شاکی ہیں مگر 1973 کے آئین کی لاج رکھ رہی ہیں ورنہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا راولپنڈی میں سرعام قتل وفاق کی سالمیت پر حملہ تھا، تین روز جی ہاں تین روز تک ریاست کسی بیوہ کی طرح دکھائی دے رہی تھی، اگر شہید بھٹو کا نواسہ اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا بلاول بھٹو جمھوریت بھترین انتقام ہے اور آصف زرداری پاکستان کھپے کی آواز بلند نہ کرتے تو آج نقشہ انتہائی مختلف ہوتا۔
قوم سادہ ضرور مگر اتنا شعور ضرور رکھتی ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاق کی تمام اکائیوں سے نیا معاہدہ کیا ہے یہ معاہدہ خیبر پختون خوا کے عوام کو ان کی شناخت اور آغاز حقوق بلوچستان کے ذریعے کیا تھا، انہوں نے صوبوں کو خودمختاری دیکر مستحکم وفاق کی بنیاد رکھی تھی ۔ ویسے معاف کیجئے گا ہمارے پیارے وطن کی عدالتی تاریخ کوئی معتبر نہیں ہے، جسٹس منیر سے لیکر انوار الحق تک ، مولوی مشتاق سے لیکر ملک قیوم تک ، افتخار چوہدری سے لیکر ثاقب نثار تک ان کا کوئی ایسا فیصلہ نہیں جس پر قوم فخر کرے بلکہ ان کے بعض فیصلوں کا خمیازہ آج قوم بھگت رہی ہے ۔
جسٹس افتخار چوہدری کے سامنے تو مقدمہ شہید ذوالفقارعلی کے عدالتی قتل کے ری وزٹ کا تھا مگر ان کا نشانہ منتخب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ہوئے جو آئین سے انحراف کرنے پر تیار نہیں تھا، صدر آصف علی زرداری پر ایوان صدر کے مکین ہونے اور ایوان صدر سے صدر سے رخصت ہونے کے 6 سال بعد تک تو بدعنوانی کا کوئی الزام سامنے نہیں آیا تھا، تاہم کچھ عناصر کو 18 آئینی ترمیم کا درد اور رنج ضرور تھا، انہوں نے 2013 کے انتخابات میں آر اوز کے ذریعے حساب چکایا تاہم ان کی تسلی نہیں ہوئی 2018 کے انتخابات کھل کھلاکر اپنے عزائم پورے کیئے، ویسے آپس کی بات ہے ہماری ریاست بھی عجیب و غریب ہے جو خود تو کمزور مگر نوکر چاکر طاقت ور رکھتی ہے۔
مگر صاحبان اب وقت بدل چکا ہے ایسے وقت جب ملک کو چلانے کیلئے صدارتی نظام کی سرگوشیاں ہو رہی ہیں طاقت ور سوشل میڈیا پر مسنگ پرسن کے حوالے سے ر یاست پر انگلیاں اّٹھ رہی ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ نظام پلٹنے کے شوق میں بازی ہی الٹ جائے ، ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ اب چاروں صوبوں کی زنجیر محترمہ بینظیر بھٹو شہید موجود نہیں ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ