بلوچ طلبہ کونسل بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان نے کہاہے کہ تعلیم کسی بھی ملک ،قوم ،صوبے،سماج اور جمہوریت کی ترقی کیلئے بے حد ضروری ہے اور تمام سنجیدہ اقوام تعلیمی ترقی کو مرکزیت کا درجہ دیتے ہیں کسی بھی ریاست میں برابر تعلیمی ترقی کیلئے ریاست کا فرض بنتا ہے کہ وہ ہر شہری کو یکساں مواقع بھی دے مگر بدقسمتی سے بلوچستان و سابقہ فاٹا کے علاقوں میں اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی خدا خدا کر کے پنجاب حکومت نے بلوچستان کے معروضی حالات اور تعلیمی زبوں حالی کے پیش نظر فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچستان کے طلباءَ کیلئے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم و ہوسٹل کی مفت سہولت کا اعلان کیا جس کے بعد کئی طلباء و طالبات نے تحصیل علم کے لیے پنجاب کے تعلیمی اداروں کا رخ کیا
کونسل کے عہدیداروں نے کہا کہ اتنے تعداد میں نوجوان ایک صوبے سے دوسرے صوبے آئے تو لامحالہ اس کے اثرات نہ صرف تعلیمی میدان میں واضح نظر آنے لگے بلکہ وفاقی اکائیوں کے مابین بڑھتی خلا کم کرنے,ثقافتی نفوذ اور ایک دوسرے کے روایات جاننے کا ایک سنہری موقعہ ملا
انہوں نے بتایا کہ ایڈمشن کا عمل شروع ہوتے ہی تضادات سے بھرپور اخباری بیانات کی بھرمار نے طلباء کے اندر کنفیوژن پیداکیے رکھا ظاہر ہے پسماندہ علاقوں کے غریب بچے جو شاداں تھے کہ شاید انہیں بھی پڑھنے کا موقعہ ملے گا یونیورسٹی کی جانب سے اسکالرشپس کے خاتمے کا سن کر تلملائے ہوں گے,آشفتہ حالی نے ان کے روشن مستقبل کا خواب بے چراغ لالٹین کی مانند تاریک دکھایا ہوگا۔
وہ ضرور دکھی ہوں گے وہ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ چشم شوق کے ابھرتے دن اتنے ہی جلد بے مہر شاموں میں تبدیل ہونے کیلئے ہی تھے تو وہ حسین خواب دکھائے ہی کیوں گئے
جہاں تک اس فیصلے کا تعلق ہے اس میں یونیورسٹی نے شروع دن سے اضطراب کی کیفیت برقرار رکھی کبھی وائس چانسلر کی جانب سے کہا گیا میرے اختیار میں نہیں کہ میں سیٹیں ختم کروں تو کبھی بلوچستان و فاٹا کے طلباء کو یونیورسٹی پر بوجھ قرار دیا گیا مگر فیصلے کے بعد نوٹیفیکیشن جاری کرنے میں بھی یونیورسٹی انتظامیہ نے ٹال مٹول سے کام لیا محترم وائس چانسلر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے اس کا اعتراف کیا کہ اس بار یونیورسٹی نے بلوچستان کے طلباء سے فیسیں وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس میں اکبر کنڈی صاحب نے یہ موقف اختیار کیا کہ ادارے کو مالی مسائل کا سامنا ہے مگر سوال یہ ہے بلوچستان و فاٹا کے طلباء کو کیوں گھسیٹا جارہا ہے اسکالرشپس دینے کا فیصلہ گورنمنٹ نے کیا ہے تو اسکالرشپس پر پڑھنے والے طلباء پر بندشیں سراسر زیادتی و ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے
یہ فیصلہ گورنمنٹ آف پنجاب نے کیا تھا گزشتہ سال پنجاب گورنمنٹ نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے اوپن میرٹ پر آنے والے طلباء کی اسکالرشپس کی بحالی کےلئے یونیورسٹی کو ایک لیٹر بھی بھیجا مگر یونیورسٹی نے تاحال نہ صرف اس لیٹر کو کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ افسوسناک امر یہ کہ ریزرو سیٹوں پر آنے والے طلباء کا بھی راستہ روکنے کا فیصلہ کیا بلوچستان کے طلباء یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے ساتھ دوہرا جبر کیوں؟ اگر گورنمنٹ نے ایک فیصلہ کیا ہے تو یونیورسٹی کیوں اس کے برعکس طلباء کی تعلیم پر قدغنییں لگانا چاہتی ہے
بلوچستان کے طلباء پڑھنا چاہتے ہیں ان سے قلم چھین کر زیادتی نہ کریں حکومت یونیورسٹی کو پابند کرے کہ وہ ریاستی پالیسی کے برعکس فیصلوں سے اجتناب کرے
اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم گورنمنٹ آف پنجاب سے اپیل کرتے ہیں کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کیوں گورنمنٹ کی پالیسی کے برعکس طلباء کے مستقبل داو پر لگانے کے خواہاں ہے
ہم جناب وزیراعظم صاحب ،,وزیراعلی پنجاب اور گورنرپنجاب سے مطالبہ کرتے ہیں خدارا! ایسے تعلیم دشمن فیصلوں کا نوٹس لیں
ہم تمام سیاسی جماعتوں,اسٹوڈنٹس تنظیموں اور ہر باشعور, پڑھے لکھے علم دوست شخص سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ خدارا اس فیصلے کیخلاف ہماری آواز بنیں
بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی طرف سے بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے اسکالرشپس پر پڑھنے والے اسٹوڈنٹس کیلئے تعلیمی بندش سراسر ناانصافی و زیادتی ہے
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل ملتان نے اس ناانصافی کیخلاف ملتان میں احتجاجی کیمپ لگانے کا فیصلہ کیا ہے
ہم سیاسی جماعتوں,طلباء تنظیموں, سول سوسائٹی اور تمام باشعور پڑھے لکھے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس احتجاج میں ہمارا ساتھ دیں
اور ڈی جی خان کے دوست اس مسئلے پرہمارا ساتھ دیں چاہے وہ شوشل میڈیا پہ ہوں یا عملی طور پر شرکت کرکے
سب ممبر کوشش کرین ملتان پہنچ جائیں اور گزارش کی جاتی ہے قرب وجوار خصوصا ڈی جی خان کے تمام ممبرز کل اپنی شرکت کو یقینی بنائیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے طلبہ کی جانب سے یونیورسٹی مین گیٹ کے سامنے انتظامیہ کے دھمکی آمیز فیس مطالبات اور آن لائن کلاسز کے باعث طلبہ کو تنگ کئےجانے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
کرونا وائرس کے ساتھ طلبہ کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس وبا کے دوران ملک بھر کے طلبہ کئی مرتبہ احتجاج کر چکے ہیں۔ ملتان کے طلبہ اس سے پہلے بھی سٹرکوں پر آئے ہیں۔ 23 جون کو ہونے والے ملک گیر اسٹوڈنٹس سولیڈرٹی پروٹسٹ میں بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے طلبہ نے ملتان سے شرکت کی۔ لیکن یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ طلبہ کے مطالبات کو انتظامیہ نے یکسر نظر انداز کیا ہے۔
نا صرف یہ بلکہ طلبہ کا کہنا ہے کہ اب ان کے مسائل میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ان کے مطابق بے ضابطہ آن لائن امتحانات نے انہیں پریشان کر رکھا ہے۔ اور اساتذہ کی جانب سے انتہائی غیر مثبت رویہ رہا ہے۔
اس مظاہرے میں خطاب کرتے ہوئے طالبعلم متین حبیب کا کہنا تھا کہ آن لائن کلاسوں میں اساتذہ ان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔ بہت سے ٹیچرز نے طلبہ سے تاحال رابطہ بھی نہیں کیا۔ اور ہماری کچھ ساتھیوں کو سوالات پوچھنے پر اور اسائمنٹس میں گائیڈنس کے جائز مطالبے پر اساتذہ کی جانب سے انہیں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ انکے نوکر نہیں ہیں کہ ان کے سوالات کے جوابات دیتے رہیں۔
اس حوالے سے جب ہم نے بی زیڈ یو سٹوڈنٹس کولیکٹیو کے رہنما جودت سید سے بات کی تو انکا کہنا تھا کہ ہم کرونا وبا کے شروع ہونے سے ہی یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ فیس میں کمی کی جائے اور انٹرنیٹ کے مسائل حل کئے جائیں۔ لیکن انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہماری بات تک نہیں سنتے اسی لئے ہم آج احتجاج کرنے یونیورسٹی تک آگئے۔ تو انہوں نے ڈر کے مارے یونیورسٹی گیٹ بند کر دیا۔ ہم نے یونیورسٹی روڈ بلاک کر کے پر امن مظاہرہ کیا۔ اب ہمارے مطالبات نا سنے گئے تو ہمارہ اگلا لائحہ عمل مزید شدید ہوگا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور