مکتب امامت ہو کہ مکتب خلافت دونوں تاریخ اور عصر کی زندہ حقیقتیں ہیں
اپنی اپنی فہم کے حق میں دونوں کے پاس تاریخ کے دفتر در دفتر موجود ہیں ۔
عجیب بات یہ ہے کہ تاریخ کا ایک حوالہ ایک کے لیے مستند اور دوسرے کے نزدیک دروغ گوئی ہے ۔
جس بنیادی بات کو دونوں طرف کی اکثریت نظر انداز کررہی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے مکتب کی تاریخ کے شعور کے ساتھ جینے کا مطلب دوسرے کی تکفیر کرنا نہیں ہوتا
تاریخ پر غوروفکر اور مکالمہ اگر مناظرہ نہ بننے پائے تو زیادہ بہتر ہے کفر کے فتوے اچھالنے اور زندیق کی گردانوں سے ماحول خراب کرنے کی بجائے مثبت فہم کا مظاہرہ کیجے
اختلاف رائے پر حرامی حرامی کی گردان سب سے بڑی کمینگی ہے
آخری بات یہ ہے کہ کیا آپ سب میں اتنی جرات ہے کہ مناظروں ملاکھڑوں فتووں اور گالیوں کو رزق فراہم کرتی کتب تواریخ اور دیگر کتابوں کو دریا بُرد کرسکیں ؟
یہ ممکن نہیں وجہ یہ ہے کہ شناختوں کے حوالے انہی کتب سے پیش کیے جاتے ہیں
لیکن یہ تو ممکن ہے کہ ہم سبھی یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ایک ریاست کی جغرافیائی حدود میں کیسے رہا جاتا ہے ؟
سادہ جواب یہ ہے کہ ریاستی قوانین کی پاسداری کرکے
یہی عرض کرنا مقصود ہے اپنے اپنے عقیدے کے ساتھ انسان بن کر جینا سیکھنے کی کوشش کیجے فتووں مناظروں اور ملاکھڑوں سے آئندہ نسلوں کے لیے عذاب کاشت نہ کیجے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر