نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بھیگے ساون میں اے پی سی ۔۔۔ ملک سراج احمد

اطلاعات یہ ہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن کی دس چھوٹی جماعتوں کا اجلاس 27 اگست کی شام کو اسلام آباد میں طلب کرلیا ہے

مون سون کا سیزن اپنے جوبن پر ہے۔گرمی سے پریشان حال لوگوں کے لیئے بارش کی نوید گویا کسی من وسلویٰ سے کم نہیں ہوتی اور ہمارے عقیدے کے مطابق تو یہ بارش ویسے بھی رحمت خداوندی ہے ۔مگر شاید ہم اتنے نااہل اور نالائق ہیں کہ اس رحمت سے بھی مستفید نہیں ہوسکتے اور بارش کا لطف اٹھانے اور سجدہ شکر بجا لانے کی بجائے اس پریشانی کا شکار ہوتے ہیں کہ کہیں اربن فلڈنگ کی زد میں نا آجائیں۔میڈیا اور سوشل میڈیا پر سیاسی مخالفین پشاوراور کراچی کی انسانی آبادیاں بارش کے پانی میں ڈوبنے کی ویڈیوز دکھا کر ایک دوسرے پر نااہلی کے الزامات لگا رہے ہیں۔بے حسی کی انتہائی سطح پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا سلسلہ جاری ہے اور اس طوفان بدتمیزی کے دوران غریب کی جمع پونجی بارش کے پانی میں ڈوب چکی ہے۔
حالیہ بارشوں نے جہاں بھادوں کا حبس ختم کیا ہے وہاں پر سیاسی حبس میں بھی کمی واقع ہوئی ہے ۔وفاقی وزیرریلوئے شیخ رشید احمد نے ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ نواز شریف ڈیل کرکے گئے ہیں کہ عمران خان کی حکومت اپنی مدت پوری کرئے ۔اس بیان کے بعد حکومتی وزرا نے نواز شریف کو واپس لانے کی باتیں شروع کرکے ن لیگ کو ممکنہ ڈیل کی سبکی سے نا صرف بچا لیا بلکہ خراب ہونے والی سیاسی ساکھ کو سنبھالا دیا۔وہاں پر نوازشریف کی میڈٰیکل رپورٹس کو چند وزرا نے مشکوک قرار دیتے ہوئے انکوائری کا مطالبہ بھی کردیا۔جس پر پنجاب کی وزیرصحت یاسمین راشد کو میڈٰیا پر کہنا پڑا کہ نواز شریف کی رپورٹس بالکل درست تھیں اور وہ واقعی بیمار تھے۔
اس دوران مولانا فضل الرحمٰن ایک بار پھر مرکز نگاہ ہیں۔گزشتہ دنوں ان کی لندن ٹیلی فونک گفتگو کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔اخباری اطلاعات کے مطابق مولانا نے میاں صاحب سے کافی گلے شکوئے کیے کہ ان کے لانگ مارچ میں ن لیگ نے ان سے تعاون نہیں کیا جس پر اطلاعات ہیں کہ ناصرف مولانا کے تحفظات کو دور کیا گیا بلکہ کہا گیا کہ اس ضمن میں بات چیت مریم نواز یا پھر ان کے شوہر کریں گے ۔اس گفتگو کا مطلب یہ تھا کہ شاید چھوٹے میاں صاحب کو اس معاملے سے الگ رکھا جائے گا مگر گزشتہ روز چھوٹے میاں صاحب رہبر کمیٹی کے ممبران کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کو منانے پہنچ گئے۔مولانا نے چھوٹے میاں صاحب کو بتایا کہ چھوٹی پارٹیاں ان سے خفا ہیں۔ملاقات کے بعد ایک مشترکہ میڈیا ٹاک ہوئی جس میں چھوٹے میاں نے حکومتی سکینڈلز کا زکر کیا اور مولانا نے کپتان کو نااہلی اور نالائقی پر مین آف ائیر کا خطاب دیا۔
اطلاعات یہ ہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن کی دس چھوٹی جماعتوں کا اجلاس 27 اگست کی شام کو اسلام آباد میں طلب کرلیا ہے اس اجلاس میں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کو نہیں بلایا گیا۔جبکہ اجلاس میں اے این پی ،نیشنل پارٹی ،جماعت اسلامی،جمعیت اہلحدیث،بی این پی عوامی،جے یوپی ،قومی وطن پارٹی ،جماعت اسلامی اور بی این پی مینگل کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے ۔اس اجلاس میں جہاں آئندہ کی مشترکہ حکمت عملی پر غور ہوگا وہاں پر مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کو بھی اپوزیشن کے اس اتحاد میں شامل کرنے پر بات ہوگی۔ایک اندازہ ہے کہ ممکنہ اے پی سی کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل تشکیل دیا جائے گا۔کیونکہ وفاقی وزیر ریلوئے کے مطابق اے پی سی کا انعقاد مشکوک ہوچکا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ مولانا ایک کامیاب اے پی سی کرپاتے ہیں یا نہیں اور اگر اے پی سی کا کامیاب انعقاد ہوگیا اور کوئی متفقہ لائحہ عمل سامنے آگیا تو یہ مولانا فضل الرحمن کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
اس ضمن میں شاید مولانا فضل الرحمٰن کچھ دنوں تک مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری سے بھی ملاقات کرکے ممکنہ اے پی سی کی کامیابی کے حوالے سے گفت وشنید کریں۔کیونکہ یہ تو طے ہے کہ مولانا اوران کے اتحادی فی الوقت شہباز شریف پر بھروسہ نہیں کررہے ہیں۔اور یہ بھی طے ہے کہ مولانا اس بار اگر نکلے تو کسی پختہ یقین دہانی کے بغیر نکلنے کا رسک نہیں لیں گے اور ایک اندازہ ہے کہ مسلم لیگ ن میں پختہ یقین دہانی میاں نواز شریف ہی کرا سکتے ہیں یا پھر مریم نواز کی بات پر مولانا فضل الرحمن اعتبار کریں گے۔ویسے پاکستان کی سیاست میں بے وفائی عام سی بات ہے وقتی فائدے کے لیے سیاسی رفاقتوں کو چھوڑ دینا معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔بھیگے بھیگے سے روان مون سون میں سیاسی اشرافیہ کا روٹھنے منانے کا سلسلہ تو جاری رہے گا
فی الوقت تو ضرورت اس امر کی ہے کہ جن کروڑوں لوگوں کے حقوق کے لیے یہ ساری سیاست ہورہی ہے لگے ہاتھوں زرا ان کا حال بھی دیکھ لیا جائے۔مہنگائی ،بے روزگاری کے عفریت سے نڈھال عوام کو کورونا نے بدترین معاشی مسائل سے دوچار کردیا ہے۔بے تحاشہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب سے منہ سے دو وقت کا نوالہ چھین لیا ہے۔عوام کی کیفیت یہ ہے کہ سر ڈھانپتے ہیں تو پاوں ننگے ہوتے ہیں۔جبکہ حکومتی وزرا اور مشیروں کے دعوے یہ ہیں کہ سب اچھا ہے اور ملکی معیشت اب تیزی سے بہتر ہورہی ہے ۔کرنٹ اکاونٹ خسارہ ایک مدت بعد ختم ہوگیا ہے۔نیک، صالح اور ایماندار حکمرانوں کی بدولت ملکی خزانہ بھرنا شروع ہوگیا ہے۔اگر حکومتی دعووں کو درست تسلیم کرلیا جائے تو پھرعام آدمی پریشان کیوں ہے۔غریب مزدور کو باآسانی دو وقت کا کھانا میسر کیوں نہیں ہے۔بجلی اور گیس کے بلوں سے متوسط طبقہ کی جان پر کیوں بنی ہوئی ہے۔بے روزگاری کی شرح میں اضافہ کیوں ہورہا ہے۔کچھ تو غلط ہے جس کی وجہ سے عوام پریشان ہے۔حکومت آدھا سچ کیوں بول رہی ہے حکومت کو چاہیے کہ پورا سچ بولے تاکہ عوام کے مسائل نا سہی کم سے کم پریشانی تو کم ہو۔باقی یہ تو طے ہے کہ وزرا جتنے مرضی بہترمعاشی اعداوشمار پیش کرلیں حالات اس وقت ہی بہتر ہوں جب غریب کو دووقت کی روٹی اور بنیادی ضروریات زندگی با آسانی میسر ہوں گے وگرنہ سب کچھ جھوٹ ہے بلکہ سفید جھوٹ ہے۔

برائے رابطہ 0333449707
وٹس ایپ 03352644777

About The Author