نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

Wusat Ullah Khan

امریکی انتخابات۔اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی ؟۔۔۔ وسعت اللہ خان

ٹرمپ کیمپ یہ سودا سفید فاموں کو اس حقیقت کے باوجود بیچنے میں کامیاب ہے کہ گوری آبادی آج بھی امریکا کی کل آبادی کا پچھتر فیصد ہے۔

یہ ہے وہ سودا جو ٹرمپ کا کیمپ نئی پیکنگ کے ساتھ اپنے سفید فام مردانہ ووٹ بینک کو مسلسل بیچ رہا ہے۔
لگ بھگ دس ہفتے بعد امریکی صدارتی انتخاب ہونے والا ہے۔ مگر گزشتہ انتخاب کے برعکس اب تک کوئی بھی سرکردہ پنڈت، تھنک ٹینک یا رائے عامہ کا جائزہ کرانے والا ادارہ اعتماد کے ساتھ کھل کے نہیں کہہ پا رہا کہ اگلے برس بھی ٹرمپ سرکار ہی ہو گی یا نہیں۔

اس بابت بلا جھجھک پنڈت گیری میں بنیادی رکاوٹ بس اتنی سی ہے کہ ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جو بائیڈن اور ان کی امیدوار برائے نائب صدارت کمالا ہیرس کی جوڑی کو اگرچہ رائے عامہ کے اکثر جائزوں میں ٹرمپ اور نائب صدر مائیک پنس پر اوسطاً سات آٹھ پوائنٹ کی سبقت حاصل ہے مگر امریکا کے سب سے بڑے ووٹ بینک یعنی سفید فام مردوں میں آج بھی ٹرمپ کی مقبولیت جو بائیڈن کے مقابلے میں سات سے آٹھ پوائنٹ زیادہ ہے۔

ایسا کیوں ہے کہ کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکامی اور اس کے نتیجے میں پونے دو لاکھ امریکیوں کی اب تک ہلاکت کے باوجود، اقتصادی کساد بازاری اور ریکارڈ تعداد میں بیروزگاروں میں اضافے کے ہوتے، حالیہ مہینوں میں نسلی تعلقات میں انتہائی کشیدگی اور اس کے سبب بکثرت پرتشدد واقعات کے باوصف، خارجہ محاذ پر چین سے انتہائی گرما گرمی اور مشرقِ وسطی میں ٹرمپ کی خواہشات کے باوجود مصالحت کی تمام تر الٹی پڑتی تدبیروں اور یورپ پر امریکی اثر و رسوخ میں تیزی سے ہوتی کمی کے باوجود امریکی سفید فام ووٹروں کی اکثریت آج بھی بائیڈن کے بجائے ٹرمپ کا دوبارہ ساتھ دینے پر پوری طرح آمادہ ہے۔ جب کہ غیر سفید فام طبقات اور خواتین میں مقبولیت کے اعتبار سے بائیڈن ٹرمپ سے آگے ہے۔

ٹرمپ کیمپ گزشتہ صدارتی انتخاب کی طرح اس بار بھی سفید فام ووٹروں کو وہی پرانا انتخابی سودا بیچ رہا ہے کہ امریکی طرزِ زندگی کو دیگر نسلوں، بائیں بازو کی سوچ اور جہادیوں کے بارے میں بائیڈن کے نرم و ڈھیلے ڈھالے خیالات سے خطرہ ہے۔ اور یہ کہ ٹرمپ نے تو چین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور ایران کو بھی دیوار سے لگا دیا مگر بائیڈن آ گیا تو ایک بار پھر تیسری دنیا کے انسانی کچرے کے لیے امریکا کے فلڈ گیٹ کھل جائیں گے اور وہ تمہارا روزگار چھین لیں گے اور اپنی پسماندگی تمہاری اعلی تہذیبی اقدار پر تھوپ دیں گے اور ٹڈی دل کی طرح تمہارا روزگار اجاڑتے چلے جائیں گے۔

ٹرمپ کیمپ یہ سودا سفید فاموں کو اس حقیقت کے باوجود بیچنے میں کامیاب ہے کہ گوری آبادی آج بھی امریکا کی کل آبادی کا پچھتر فیصد ہے۔ جارج واشنگٹن سے لے کر آج تک کے چوالیس صدور میں سے صرف ایک صدر ( بارک اوباما ) گورا نہیں تھا۔ تمام نسلی گروہوں میں سفید فام سب سے زیادہ خواندہ، بااثر اور خوشحال گروہ ہے۔ جتنے بھی قانون دان، ججز، ارکانِ کانگریس، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اعلی عہدیدار، جرنیل، پولیس افسر، ارب پتی، کھرب پتی وغیرہ ہیں۔ ان سب میں اسی فیصد سے زائد سفید فام ہی نظر آئیں گے۔

نسلی تشدد کی بیشتر وارداتوں اور خواتین و اقلیتوں سے متعلق اکثر امتیازی قوانین کے محرک و حمائتی تاریخی طور پر سفید فام ہی رہے ہیں۔ اس کے باوجود آج بھی پچپن فیصد سفید فام امریکیوں کا خیال ہے کہ وہ نسلی تفریق و تعصب کا نشانہ ہیں۔ پچاسی فیصد گورے امریکی مردوں کا خیال ہے کہ سیاہ فام جتنے شہری و اقتصادی حقوق و مراعات کے مستحق ہیں اس سے کہیں زیادہ حاصل کر چکے ہیں مگر ان کا ناشکرا پن کبھی کم نہ ہو گا۔ وہ الگ بات کہ سفید فاموں سے یہ منوانا بہت مشکل ہے کہ گورا شاہی سے مغلوب ریاستی ڈھانچے کی رگوں میں دوڑتا نسلی تعصب کبھی بھی اقلیتوں کے لیے کاغذ پر ملنے والی مراعات کو بارآور نہیں ہونے دے گا۔

اس گورے گروہ کو پانچ برس قبل روائتی ریپبلیکن اسٹیبلشمنٹ سے باہر ٹرمپ کی شکل میں ایک ایسا رہنما دستیاب ہو گیا جو سب کو ساتھ لے کر چلنے یا امریکا سب کا ہے کا منافقانہ سیاسی نعرہ لگانے کے بجائے روائیتی امریکی اقدار ( یعنی سفید فام اقدار )، مذہبی ہم آہنگی (یعنی ایوانجلیکل بھائی چارہ) اور معیشت میں ریاست کی کم سے کم مداخلت کو ایک یکجا نظریے کی طرح لے کر چل رہا ہے۔

اس نظریے سے پھیلنے والی دودھیا روشنی میں کم پڑھے لکھے غریب سفید فام اور بیروزگار سفید فام اپنے مسائل کا ذمے دار اوپر کے استحصالی سفید فام سرمایہ دارانہ طبقے کو سمجھنے کے بجائے اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایک ارب پتی صدر ہونا کوئی عجیب بات نہیں مگر ایک کنگلہ رنگدار تارکِ وطن ہونا اور کمزور طبقات کو تعلیم و صحت کی بنیادی سہولتیں ریاست کے ذریعے فراہمی کی بات کرنا امریکی ڈریم سے غداری ہے اور ٹرمپ اس غداری کے خلاف قومی مفادات ( سفید فام مفادات ) کا محافظ ہے۔

لہٰذا تمام تر ناکامیوں کے باوجود ٹرمپ کا برقرار رہنا ضروری ہے۔ کیونکہ ستتر سالہ جو بائیڈن اگر منتخب ہو بھی گئے تو وہ امریکی تاریخ کے بزرگ ترین صدر کہلائیں گے۔ چنانچہ قوی امکان ہے کہ بائیڈن پہلی مدتِ صدارت بھی بمشکل مکمل کر پائیں۔ ہو سکتا ہے انھیں پیشگی ریٹائرمنٹ لینا پڑے۔ ایسی صورت میں غیر سفید فام اور وہ بھی عورت (کمالا ہیرس) صدر بننے کے بعد پہلا کام یہ کرے گی کہ دنیا بھر میں پھیلے اپنے ہم رنگ و نسل افراد کے لیے امریکا کے دروازے کھول دے گی۔ لہٰذا اس خطرے کو شکست دینے کے لیے ٹرمپ کا دوسری مدت کے لیے صدر بننا لازمی ہے۔

یہ ہے وہ سودا جو ٹرمپ کا کیمپ نئی پیکنگ کے ساتھ اپنے سفید فام مردانہ ووٹ بینک کو مسلسل بیچ رہا ہے۔ اب یہ جو بائیڈن کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی غیرسفید فام ساتھی کمالا ہیرس کے شخصی جادو کے زور پر ایسی تمام ریاستیں جہاں ڈیموکریٹ ووٹ ڈانوا ڈول ہے وہاں کے غیر سفید فام نسلی ووٹ بینک کو حرکت میں لانے کے لیے اس طرح کوشش کرے کہ ان کوششوں کے نتیجے میں الٹا ڈیموکریٹ سفید فام ووٹ بھی دوسری طرف نہ چلا جائے۔

مگر اس کے لیے ویسا ہی پیشہ ورانہ سیاسی سفاک جذبہ درکار ہے جو ٹرمپ کیمپ کا اب تک کا موثر ہتھیار ہے۔ امید ہے کہ جو کمی بیشی رہ جائے گی وہ کورونا مکمل کر دے گا۔مگر ڈیموکریٹس کی امید کا یہ تکیہ پچھلے صدارتی انتخابات میں بھی چرایا جا چکا ہے۔ لہٰذا اس تکیے پر سر رکھ کے آنکھیں موندنے کے باوجود یہ سوچنے کی ضرورت اپنی جگہ رہے گی کہ اگر ٹرمپ دوسری بار منتخب ہوگیا تو کیا کیا مزید ہوگا جو ہرگز نہیں ہونا چاہیے یا جو جو ہونا چاہیے وہ وہ بالکل نہیں ہوگا۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

About The Author