سچ کی ضد جھوٹ اور جھوٹ کی ضد سچ ہے۔ سچ پا بستہ حالات ہے اور نا ہی پابندِ سلاسل۔ سچ امر ہے، بقا ہے اور جھوٹ کو فنا ہے۔ سچے سچ کی سچائی سے سچ ہی سُچا ہوتا ہے۔ جھوٹ کو ایک دن ختم تو ہونا ہی ہے۔
ایسا نہ ہوتا تو سُقراط زہر پیالہ لیے سرخرو نہ ہوتا، منصور تختہ دار پر امر نہ ہوتا اور سچ امام حسین علیہ السلام اور اُن کے چند ساتھیوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بقا نہ پاتا۔
سُنا تو یہی ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ وقت اور حالات کی ساتھ ساتھ واقعات بھی بدل رہے ہیں۔ اب جھوٹ کے بڑے بڑے پاؤں ہیں جنھیں کبھی ففتھ جنریشن وار فیئر کبھی میڈیائی جنگ اور کشمکش کا نام دیا جاتا ہے اور کبھی زمانے میں پنپنے کا واحد ہتھیار۔
جھوٹ کے سہارے ریاستیں اور حکومتیں چلانے کے لیے نازی جرمنی، ہٹلر کی حکومت سے بہتر کوئی مثال موجود نہیں۔ ہٹلر کو ہٹلر، طاقت کا منبع اور آمر بنانے میں جس شخصیت کا کردار سب سے زیادہ ہے اُسے
پروپیگنڈے کا ماہر، ریاستی ہتھکنڈوں کو پروپیگنڈے کے ہتھیار سے لیس کرنے والا گوئبلز اپنے اندر بلاشبہ ایک ادارہ تھا۔
حال ہی میں گوئبلز کے نظریات اور ’فرمودات‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس قدر دلچسپ فرمودات کہ یوں سمجھیے جیسے ٹیلی وژن سکرین پر روشن کئی چہروں سے تعارف ہو رہا ہو۔ ایسے کہ گوئبلز کہیں جرمنی میں نہیں یہیں بہت ہی قریب لاہور، فیصل آباد یا اسلام آباد میں ہی بات کر رہا ہو۔
ایسے جیسے ایک نہیں کئی گوئبلز یک بیک نمودار ہو گئے ہوں۔
گوئبلز نے کہا کہ اگر آپ جھوٹ بولیں اور اُسے دُہراتے چلے جائیں تو وہ سچ لگنے لگتا ہے۔ ایسا کچھ گوئبلز نے ایک نہیں متعدد بار کہا۔ یہ بھی کہ ’جتنا بڑا جھوٹ بولو گے اُتنا اس پر یقین کیا جائے گا۔‘
ایک اور جگہ جناب گوئبلز فرماتے ہیں کہ بہترین پروپیگنڈہ یہ ہے کہ چند نکات تک محدود رہا جائے اور اُنھیں ہی بار بار دُہرایا جاتا رہے تاکہ لوگ اسے سچ مان لیں۔
گوئبلز نے ریاست کے لیے چند بہترین اور راہنما اصول مقرر کئے مثلاً کہ ’جھوٹ ریاست کے لیے اہم ہے اور ریاست اختلاف کو دبانے کے لیے اپنی تمام تر طاقت کا استعمال کرے۔‘
گوئبلز کہتا ہے کہ ’سچ جھوٹ کی موت ہے اور سچ ریاست کا سب سے بڑا دشمن بھی ہے۔‘ گوئبلز کہتا ہے کہ پروپیگنڈہ بذات خود ختم نہیں ہوتا بلکہ خاتمے کے لیے ہتھیار ضرور بن سکتا ہے۔جھوٹ پھیلاؤ اور پکڑے جانے پر پکڑنے والے پر ‘فیک نیوز’ کا الزام لگا دو۔ پروپیگنڈے کو ہتھیار بناؤ، گالم گلوچ سے دباؤ اور ہاں پریس کو ایسا ‘کی بورڈ’ بناؤ کہ جس پر اپنی مرضی کی دُھنیں بجاؤ۔۔۔ خود ہی داد لو اور واہ واہ کے ڈونگرے برساؤ
یہاں تک کہ ایک جگہ گوئبلز نے لکھا کہ پروپیگنڈہ اس وقت بہترین کام کرتا ہے جب استعمال ہونے والے یہ یقین رکھتے ہوں کہ دراصل وہ ’اپنی مرضی‘ سے کام کر رہے ہیں۔
ہٹلر کی وزارت آگاہی و پروپیگنڈہ کے وزیر جوزف گوئبلز میڈیا سے متعلق فرماتے ہیں کہ پریس کو صرف ایسا کی بورڈ سمجھا جائے جس پر حکومت صرف اپنی مرضی کی دُھن بجا سکے۔
ایسا ہی تو ہے۔۔۔ جھوٹ پھیلاؤ اور پکڑے جانے پر پکڑنے والے پر ’فیک نیوز‘ کا الزام لگا دو۔ پروپیگنڈے کو ہتھیار بناؤ، گالم گلوچ سے دباؤ اور ہاں پریس کو ایسا ’کی بورڈ‘ بناؤ کہ جس پر اپنی مرضی کی دُھنیں بجاؤ۔۔۔ خود ہی داد لو اور واہ واہ کے ڈونگرے برساؤ۔
گوئبلز کے صحیح پیروکاروں کی طرح اختلاف دبانے کے لیے تمام تر طاقت کا استعمال کرو۔ آقا گوئبلز کے تمام آزمودہ فرمودات ہمیں جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔
اس تحریر میں گوئبلز کی چھوٹے چھوٹے کئی گوئبلوں کے ساتھ مماثلت محض اتفاق سمجھی جائے۔ یہ نہ ہو کہ گوئبلز کے پیروکار سچ دبانے کے سارے ہتھیار اس کالم کے بعد آزما لیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر