دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سفارتی محاذ پر بھی کباڑہ ۔۔۔نوید چودھری

الیکشن 2018ءکے پیٹرن کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ منصوبہ بندی کچھ اس نوعیت کی تھی کہ زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتوں کو آﺅٹ کردیا جائے

لگتا تو یہی ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کے بارے میں انٹرویوکیلئے وقت،چینل،پروگرام اور سوالات کا انتخاب خود ہی کیا تھا۔ کشمیر کے مسئلے پر ساتھ نہ دینے پر سعودی حکام کو کھری کھری سنائیں تو خیال یہی تھا کہ اسکے فوری بعد سرکاری طور پر وضاحت آ جائے گی کہ وزیر خارجہ کی باتوں کو سیاق سباق سے ہٹ کر یا توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔لوگوں کو اس وقت حیرانی ہو ئی جب دفتر خارجہ نے اپنے باس کی باتوں کا دفاع کرتے ہوئے اسے پاکستان کا اصولی مؤقف قرار دیا،اس وقت یوں دکھائی دے رہا تھا کہ اس معاملے میں پورا ایک پیج آن بورڈ ہے۔پھر اچانک احساس ہوا کہ تیر نشانے پر لگنے کی بجائے الٹا نشانہ باز کو ہی گھائل کررہا ہے تو وہی راگ الاپنا شروع کردیا گیا کہ وزیر خارجہ کے کہنے کا یہ مقصد ہرگزنہیں تھا۔سعودی عرب بڑا بھائی ہے وغیرہ وغیرہ،فوجی ترجمان نے تو یہ بھی واضح کر دیا کہ برادر ملک کے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور پاکستان کسی نئے اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا۔شاہ محمود قریشی نے سکرپٹ کے تحت انٹرویو میں جو تلخ باتیں کیں اسکا جواز کشمیر کو بنایا گیا۔اب اگر کوئی پلٹ کر ا ن سے پوچھ لے کہ خود ان کی حکومت نے کشمیر کے معاملے پر کیا کیا ہے تو جواب کیا ہوگا۔آگے بڑھنے سے مشرف دور پر نظر ڈالنا ضروری ہے، کیا بھارت نے ایل او سی پر آہنی باڑ اس وقت نہیں لگائی تھی جب دونوں ملکوں کی مسلح افواج آمنے سامنے کھڑی تھیں،کیا فوجی آمر نے کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو قصہ پارینہ قرار نہیں دیا تھا، ایسا کرکے پوری دنیا کو کیا پیغام دیا گیا،کیا مشرف دور کے وزیر خارجہ ان دنوں نجی محفلوں میں لوگوں یہ نہیں بتا رہے تھے کہ کشمیر اب ایک ڈیڈ ایشو ہے۔

اب آتے ہیں موجودہ حکومت کی طرف،5اگست2019 ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے ہڑپ کرنے کی اشتعال انگیز بھارتی کارروائی کے جواب میں زبانی کلامی دعوؤں کی بجائے عملی اقدامات کیے جاتے تو منظر کچھ اور ہوتا۔بھارت کا یہ اقدام کھلا اعلان جنگ تھا ایسے موقع پر ہماری فورسز حرکت میں آ جاتیں تو کسی ممکنہ تصادم سے پہلے ہی عالمی برادری بیچ میں کود پڑتی۔نہ صرف مسئلہ کشمیر دنیا کا سب سے اہم معاملہ بن کر اجاگر ہوتا بلکہ اسکے منصفانہ حل کی جانب پیش رفت کیلئے عالمی برادری کی عملی معاونت بھی مل سکتی تھی۔اس وقت اس سمت میں آگے بڑھنے کاایسا ہی موقع قومی اسمبلی میں بنا جب ا پوزیشن لیڈر شہباز شریف کمزور حکومتی رد عمل پر تنقید کر رہے تھے وزیر اعظم عمران خان نے زچ ہو کر کہا تو کیا میں اعلان جنگ کردوں؟ شہباز شریف یہ جملہ سن کر چونک گئے اور فوراً صفائی پیش کی کہ میں نے ایسا کب کہا؟ یوں دونوں نے“ باہمی افہام و تفہیم“ سے معاملے کو لپیٹ دیا۔اگر اس وقت بھارت کو کوئی الٹی میٹم دے دیا جاتا تو عرب دنیا ہی کیا سلامتی کونسل میں بھارت کے حامی امریکہ،روس،فرانس اور برطانیہ بھی مسلح ٹکراؤ کو ہر صورت ٹالنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور ہو جاتے۔چین کا شکریہ کہ وہ اس معاملے میں ہمیں کھل کر سپورٹ کرتا ہے لیکن یہ بات کسی کو بھولنی نہیں چاہیے کہ لداخ کے حوالے سے چین اس معاملے میں بھارت کے خلاف خود ایک فریق ہے۔کسی بھی تنازعہ میں باہربیٹھے کردار یہ دیکھتے ہیں کہ فریقین خود کس حد تک سنجیدہ ہیں۔اسکے بعد ہی مداخلت یا معاونت کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا جا تاہے۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جب پاکستان کے دورے پر آئے تو ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔اس سے پہلے ہمارے لیے 3ارب ڈالر اور 3سال کیلئے مؤخر ادائیگی پر تیل فراہمی کا پیکج دیا جا چکا تھا اور ایسا ہماری ہی درخواست پر کیا گیا تھا۔

پاکستانی حکام کے جذبات دیکھ کر محمد بن سلمان نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر ہیں۔اس پر بہت تالیاں بجائی گئیں۔محمد بن سلمان پاکستان کا دورہ ختم کر کے ریاض واپس گئے اور پھر بھارت کے دورے پر آ گئے۔بھارتی وزیر اعظم مودی نے پروٹوکول کے تمام ضابطے نظرانداز کرکے خود ہوائی اڈے پر آ کر ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔دھڑا دھڑ 90 ارب ڈالر کے معاہدے ہوئے اور پھر محمد بن سلمان نے مودی کو اپنا بڑابھائی قرار دے دیا۔یہ وہ اہم موڑ تھا جب ہمیں صورتحال کا ادراک کرلینا چاہیے تھا امارات نے بھارتی وزیر اعظم کو سب سے بڑا سول ایوارڈ دے کر پوری دنیا کو ایک پیغام دیا۔اب ہمیں جان لینا چاہیے تھا کہ سفارتی محاذ پر ہمارے لیے جگہ کم ہو رہی ہیں اور مشکلات بڑھ رہی ہیں۔

امارات نے ہمارے تمام تر اعتراضات کے باو جود او آئی سی کے اجلاس میں بھارت کو بطور مبصر مدعو کرکے تنظیم کی تبدیل شدہ سمت کا بھی تعین کردیاتھا۔ایسے ہی واقعات کے تسلسل میں وزیر اعظم عمران خان کے ”مشہور“ دورہ ا مریکہ کے لیے سعودی ولی عہد نے اپنا خصوصی طیارہ عنایت کیا،اصولی طورپر میزبان سے شکریہ کے ساتھ معذرت کر لینا چاہیے تھی کیونکہ وزیر اعظم عمران خان پاکستان کی نمائندگی کر نے سرکاری طور پر جارہے تھے۔یہ کسی بھی طرح موزوں نہ تھا کہ وہ کسی دوسرے ملک کے حکمرانوں کا ذاتی طیارہ استعمال کرتے۔بہرحال انہوں نے ایسا کیا اور پھر امریکہ جا کر ملائشیاء اور ترکی کے ساتھ مل کر نئی حکمت عملی بنانے کے کھلے اشارے دئیے امریکہ کا دورہ ختم کر کے واپس آنے لگے تو سعودی عرب سے کوئی سخت ہدایت آئی۔طیارہ راستے سے امریکہ واپس پلٹ گیا اور وزیر اعظم کو عام پروزا سے آنا پڑا۔یہ شاید اپنی نوعیت کی پہلی مثال تھی، مقام افسوس ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو سفارتی نزاکتوں کا علم تھا اور نہ ملائشیا اور ترکی کی اندرونی صورتحال اور پالیسیوں کے بارے میں مصدقہ معلومات تھیں۔مہاتیر محمد حکومت سے باہر ہو گئے۔اب ملائشیا کی نئی پالیسی کیا ہوگی۔

وثوق سے کچھ نہیں کیا جا سکتا، اطلاعات یہی ہیں کہ اب ملائشیا کسی متنازعہ معاملے میں فریق نہیں بنے گا۔ترکی کے صدر اردگان نے مسئلہ کشمیر پر جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ہمارا ساتھ دیا۔مگر ہم یہ کیسے بھول گئے کہ دنیا بھر میں کسی بھی جگہ مسلمانوں پر مظالم ہو ں تو ترک صدر کی آواز ضرور گونجتی ہے۔خواہ وہ سنکیانگ کے چینی مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔چین کو اس حوالے سے سخت تحفظات ہیں۔دوسری جانب ترکی کے اسرائیل سے زبردست تجارتی تعلقات ہیں۔ترکی کی امریکہ،روس،برطانیہ اور فرانس سے بھی دوستی ہے۔ طیب اردوان کے قائدانہ کردار کا ہرگز یہ مطلب نہیں کوئی ملک اپنے مخصوص حالات کوپس پشت ڈال کر کسی نئی مہم جوئی میں شریک ہونے کی کوشش کرئے۔عالمی اسٹیبلشمنٹ نے پوری دنیا میں اپنا جال پھیلا رکھا ہے۔ ایران ان دنوں پابندیوں کی زد میں ہے۔ایک طرف یورپی ممالک اسے ریلیف دینے کی باتیں کرتے ہیں تو دوسری جانب امریکہ دھمکاتا ہے کہ مزید سختی کی جائے۔مشرقی وسطیٰ اور خلیج فارس میں عالمی فورسز کی بڑے پیمانے پر موجودگی کے باوجود پچھلے کئی سالوں کے دوران ایران کو عراق،یمن،لبنان،شام میں انٹری دی گئی۔سمندری،فضائی اور زمینی راستوں سے اسلحہ اور جنگجو گروہ جاتے رہے مگر نگرانی کا انتہائی کڑا نظام رکھنے والوں نے آنکھیں بند کیے رکھیں۔پھر ایک موقع آیا جب یہ سمجھا گیا کہ ایران کی سرگرمیاں مطلوبہ حد سے زیادہ پھیل سکتی ہیں تو جنرل قاسم سلمانی کو عراق میں نشانہ بنا کر واضح پیغام د ے دیا گیا۔

عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب کو نئی پراکسی جنگوں میں الجھا دیاگیا۔آج دنیا میں کس نئے بلاک کے قیام کی باتیں کی جار ہی ہیں۔ ایسا دور دور تک نظر نہیں آرہا، ملائشیا اور ترکی کا ذکر تو ہوچکا اب قطر کی بات کرتے ہیں جہاں دنیا میں امریکہ کا اڈا اور 35 ہزار فوجی موجود ہیں، سو قطر بھی کسی نئے اتحاد میں جانے سے رہا، اب ہم نے چین یا ایران کے ساتھ مل کر کوئی نیا عالمی اتحاد بنانا ہے کیا؟ 2014ء میں دھرنے دینے والے دھڑلے سے حکومت کر رہے ہیں، سی پیک سلو ہوچکا، چینی حکام خوش نہیں، بھارت امریکی دباؤ کی تاب نہ لاتے ہوئے جیسے ہی سرمایہ کاری ادھوری چھوڑ کر ایران سے نکل بھاگا تو چاہ بہار کی بندرگاہ سمیت 400ارب ڈالر کی انوسٹمنٹ کے معاہدے چین نے کرلیے، اب رہ گیا ایران تو اس سے ہمارے تعلقات کتنے دوستانہ ہیں؟ اگرچہ وجوہات کئی ایک ہیں لیکن ناقدین طویل عرصے سے گلہ کرتے آرہے ہیں کہ پاکستان میں ایران کا اثر ورسوخْ پہلے ہی اسکے حجم، حیثیت اور“ کوٹے“ سے کہیں زیادہ ہے چلیں دل خوش کرنے کے لیے فرض کرتے ہیں،کوئی معجزہ ہو اور اچانک کوئی نیا اتحاد بن جائے تو اس میں ہمارا رول کیا ہوگا۔یہی اصل سوال ہے خوابوں کی جنت میں رہنا بھی احمقوں کی جنت میں رہنے جیسا ہی ہے۔حقیت یہ ہے کہ روس اور امریکہ بظاہر ایک دوسر ے کے حریف ہیں۔ذراشام کی جنگ کو یاد کریں جب جہادی تنظیموں نے بشارالاسد کی فورسز کا کباڑہ کر ڈالا تو اچانک پراسرار تنظیم داعش شامی حکومت کے مخالف جنگجووں پر ٹوٹ پڑی۔ گھمسان کی لڑائی پھر بھی جاری رہی۔ ایک موقع پر لگا کہ جہادی تنظیمیں دمشق میں داخلے کے قریب ہیں تو اچانک روس اپنے لاؤ لشکر سمیت آن ٹپکا اور پوری بازی پلٹ دی۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ امریکی فورسز کی موجودگی میں روسی فوج کی آمد کسی گرین سگنل کے بغیر ہو گئی تھی تو اسکی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے،یہ بات زیادہ قرین ازقیاس ہے کہ امریکہ نے روسی فوج کو خود ہی مداخلت کی پیشکش کردی ہو۔شام میں بشارالاسد کا برقرار رہنا عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ان مفادات کے عین مطابق ہے جنکا مقصد خطے میں کشیدگی کے ”توازن“ کو قائم رکھنا ہے۔ایسے میں بشارالاسد کو بچانے کیلئے امریکی فورسز خود جہادی تنظیموں پر ہلہ کیسے بول سکتی تھیں۔اس لیے روس کو آگے کر کے تمام مطلوبہ مقاصد پورے کر لیے گئے۔روس کو اس کے بدلے میں طرطوس کے اڈے کا دائمی کنٹرول مل گیا، اسی کو کہا جاتا کہ عالمی سیاست کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں، موجودہ صورتحال میں اردگرد کے حالات کو ہوش مندی سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیا واقعی بھارت اور چین کے درمیان کسی بڑی جنگ کے ا مکانات موجود ہیں۔ زمینی حقائق تو بتاتے ہیں کہ چینی فورسز کے ہاتھوں لداخ میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد حالات میں سخت کشیدگی تو آئی مگر کھلی جنگ لڑنے کے لیے دونوں تیار نہیں۔اب تو مذاکرات بھی شروع ہو گئے۔چین جنگی حوالے سے بھارت کے معاملے میں کہیں زیادہ مضبوط ہے۔مگر اسکی ابھرتی معیشت اسے کسی بھی مسلح تنازعہ میں ملوث ہونے سے روکتی ہے۔بھارت کا بنیا بھی کبھی نہیں چاہے گا کہ چین مخالف قوتوں کے اکسانے کے باوجود انڈیا چین کے ساتھ کسی لڑائی میں ملوث ہو۔ سو ہمیں اپنا اگلا لائحہ عمل اسی تناظر میں تیار کرنا ہوگا۔ ہر ملک نے اپنی داخلہ اور خارجہ پالیساں اپنے حالات دیکھ کر خود کو تیار کرنا ہوتی ہیں۔مسئلہ کشمیر پر حالیہ سرگرمیوں سے ہمیں عالمی برادری، اْمّہ اور دوست ممالک کے موڈ کا پتہ چل چکا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کو چیلنجز درپیش ہیں اور کچھ مواقع بھی مل سکتے ہیں۔ سوال مگر اتنا ہی کہ کیاہماری موجودہ قیادت میں چیلنجوں سے نمٹنے اور مواقع سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت موجودہے۔

About The Author