دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حاصل بزنجو بھی نہ رہے۔۔۔امتیازعالم

سینیٹر حاصل کی سیاست کا نکتہ ہ عروج آیا بھی تو سینیٹ کے چئیرمین کے انتخاب کے وقت۔ اپوزیشن نے اُنہیں اپنا منتخب اُمیدوار نامز د کیا۔

وہ کینسر سے ویسے ہی لڑا جیسے پاکستان میں آمر حکمرانوں کے خلاف ساری زندگی لڑتا رہا اور کبھی ہارا نہیں۔ ایک نہائیت نفیس، شفیق اور انقلابی انسان جس نے جمہوریت، وفاقئیت، اور آئینی حکمرانی کیلئے انتھک جدوجہد کی۔ 

سینیٹر حاصل بزنجو طالب علمی کے زمانے سے ہی ترقی پسند سیاست میں متحرک رہے۔ ڑیموکریٹک سٹوڑینٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے انہوں نے ایوب آمریت کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ اور پھر نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہوگئے۔ اُنکی سیاست کا محور پاکستان کے سٹیٹسمین سیاستدان،عظیم جمہورئیت پسند میر غوث بخش بزنجو تھے اور وہ اُن کے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ 

وہ قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور پھر بطور سینیٹر انہوں نے ایک نہائیت اصول پسند اور ترقی پسند سیاست دان کے پاکستانی سیاست میں اھم کردار ادا کیا۔ پاکستان میں آئینی حکمرانی، جمہوئیت،،وفاقئیت اور عوامی حقوق کی بازیابی کیکئے اُنہوں نے مثالی کردار ادا کیا-

بلوچستان سے تعلق کے باعث وہ ہمیشہ مظلوم قومئئتوں کے جمہوری حقوق کیلئے متحرک رہے۔ لیکن ساری زندگی وہ قومئیتی تنگ نظری اور مضبوط مرکز کی جبرئیت کے خلاف نبرد آزما رہے۔ انہوں نے انتہا پسندی اور خلوت پسندی کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے، سارے عوام کی جمہوری و سماجی حقوق کی جدوجہد کا پارلیمانی راستہ اختیار کیا۔ وہ بڑے امن پسند تھے اور خطے میں امن و تعاون کے حامی تھے۔ وہ سرداروں کی سیاست سے ناکاں تھے اور کسانوں اور مزدورں کی جدوجہد میں شریک رہے۔ 

سینیٹر حاصل کی سیاست کا نکتہ ہ عروج آیا بھی تو سینیٹ کے چئیرمین کے انتخاب کے وقت۔ اپوزیشن نے اُنہیں اپنا منتخب اُمیدوار نامز د کیا۔ اجلاس میں اپوزیشن نے کھڑے ہو کر اپنی اکثریت ظاہر بھی کردی، لیکنُ جب خفیہ ووٹ پڑے تو ایک شرمناک واقع پیش آیا۔ اکثریتی امیدوار حاصل بزنجو ھار گیا اور جیتا بھی وہ جس کا کوئ آگا نہ پیچھا۔ یہ ایک شرمناک دن تھا۔ لیکن حاصل بزنجو نے اپنے ہارنے پہ جو تقریر کی وہ پارلیمانی سیاست کی تاریخ میں یاد رکھی جائے گی۔ آخری دنوں میں وہ پرانی روائیتی جماعتوں سے مایوس ہو چکے تھے اور چاہتے تھے کہ ایک وسیع تر ترقی پسند جمہوری محاز تشکیل دیا جائے۔ اسکے کیئے انہوں نے مجھے اُسکا پروگرام لکھنے کو کہا جو لکھا بھی گیا۔ مگر بیماری نے اُنہیں فرصت نہ دی کہ وہ ایک اور بڑی پہل قدمی کرسکتے۔

About The Author