دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اقتدار میں شرکت کا احساس اور حکمران۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

پاکستان کی ایک بڑی اور محب وطن قوم وطن عزیز کی دوسری قوموں کی طرح اپنی شناخت اور حقوق مانگتی ہے.

خطہ سرائیکستان کی دھرتی پیر جو گوٹھ سنجر پور صادق آباد سے تعلق رکھنے والے ملک کے نامور ادیب و دانشور مبارک اردو لائیبریری کے بانی پیر سید مبارک علی شاہ کے صاحب علم و ادب اور صاحب فکر و دانش صاحبزادے سید انیس شاہ جیلانی کا نام علم و ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے.آجکل اور زمانہ قریب کے پیروں فقیروں کی اولادوں میں اتنا صاف گو, کھرا اور سچا انسان میں نے نہیں دیکھا. سید انیس شاہ جیلانی صحیح معنوں میں نمائش اور بناوٹ سے پاک صاف ستھرے ایک چھپے ہوئےدرویش انسان تھے. اللہ تعالی نے انہیں بہت ساری خوبیوں سے نوازا ہوا ہے.
محترم قارئین کرام،، آج میں آپ کے ساتھ ایک اہم آٹو گراف شیئر کر رہا ہوں. جو جناب صدیق سالک نے جناب سید انیس شاہ جیلانی کو دیا تھا. 24جولائی1986کا یہ آٹو گراف سید انیس شاہ جیلانی کی بیاض میں محفوظ ہے. صدیق سالک کے بارے میں بتاتا چلوں. صدیق سالک المیہ مشرقی پاکستان کے وقت آرمی میں میجر تھے وہ ھندوستان میں جنگی قیدی رھے بعد میں وہ میجر جنرل کے عہدے پر فائز رھے. انہوں نے اپنے آٹو گراف میں ایک بہت اھم بات لکھی.یہ علیحدہ بات ہے کہ وطن عزیز میں ایسی اہم باتوں، المیوں اور سانحات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی. صرف یہی نہیں بلکہ انہیں نظر انداز کرتے ہوئے وہ سب کچھ جاری و ساری رکھا جاتا ہے. جو المیے، سانحے اور خرابیوں کی وجہ ہوتا ہے. ہمارے رویوں اور کردار میں اصلاح نام کی کوئی چیز اور بہتری نہیں آتی. وہ نقطہ جس کی جانب آپ سب کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں صدیق سالک صاحب لکھتے ہیں کہ ملک کے تمام علاقوں اور تمام باشندوں کو اقتدار میں شرکت کا احساس دلائیں. یہاں میں ان کا مکمل آٹو گراف من و عن لکھنا از حد ضروری سمجھتا ہوں تاکہ آٹو گراف سیاق و سباق کے ساتھ سمجھ آ سکے
ُ ُ بسم اللہ الرحم الرحیم
انیس صاحب، آپ نے ُ ُ ہمہ یاراں دوزخ ٗ ٗ کا حوالہ دے کر تعارف کا اعزاز بخشا اور اسی حوالے سے سے کچھ لکھنے کا حکم دیا. سو عرض ہے کہ دعا کیجئے (اور میں بھی کرتا ہوں) کہ مجھے یا کسی اور کو پھر کبھی ہمہ یاراں دوزخ نہ لکھنی پڑے. ہم پھر کبھی ایسے بحران سے دو چار نہ ہوں اور کبھی ناموس وطن کو ٹھوکر نہ لگنے پائے. یہ اسی صورت ممکن ہے کہ ہم المیہ مشرقی پاکستان سے کچھ سیکھیں. ملک کے تمام علاقوں اور تمام باشندوں کو اقتدار میں شرکت کا، احساس دلائیں. ملکی فیصلے کرتے وقت ان کی صاحب الرائے سے استفادہ کریں اور کسی بھی سطح پر عقل کل ہونے کا دعوی نہ کریں. احقر، صدیق سالک راولپنڈی. ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،، ذرا غور فرمائیں کہ ہماری اشرافیہ، سیاسیت دانوں، بیورو کریسی، رولر کلاس اور ان کے طبالچیوں نے تاریخ سے کیا کچھ اور کتنا سیکھا ہے. پاکستان میں محکوم اقوام کا نعرہ کیا ہے. اس میں شامل قومیں اور لوگ اپنے آپ کو کیوں محکوم سمجھتے ہیں. کوئی اپنی شناخت کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے پر مجبور ہے اور کوئی قومی وسائل اور اداروں میں اپنے حصے کے اِدھر اُدھر ہوجانے کا رونا روتے اور دہائیاں دیتے نظر آتے ہیں. ایسا کون اور کیوں کر رہا ہے. انہیں سننے اور جائز باتوں کو تسلیم کرنے، پسماندگی اور محرومیوں کا ازالہ کرنے کی بجائے الٹا غداری کے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے والے کون لوگ ہیں.
پاکستان کی ایک بڑی اور محب وطن قوم وطن عزیز کی دوسری قوموں کی طرح اپنی شناخت اور حقوق مانگتی ہے. پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح اپنا صوبہ سرائیکستان مانگتی ہے تو انہیں طرح طرح کی عجیب و، غریب باتیں اور طعنے سننے پڑتے ہیں. ناانصافی اور استحصال کے خلاف بولتے اور لکھتے ہیں تو انہیں متعصب تنگ نظر انڈیا کے ایجنٹ وغیرہ سمیت نہ جانے اس طرح کے درجنوں مزید القابات سے نوازنے والے ملک کے مامے کون ہیں. قومی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سراسر ظلم و زیادتی ہے.اب دیکھیں ایک طرف ایک ہی صوبے میں روہی چولستان اور تھل کے عوام بنیادی ضرویات زندگی سے محروم ہیں یا شدید ترین کمی کا شکار ہیں. دوسری جانب تخت لاہور پر قومی وسائل بے دریغی سے لوٹانے کا سلسلہ کل کی طرح آج بھی جاری ہے.میٹرو بس اور میٹرو ٹرین تو اب پرانی باتیں ہو چکیں ہیں. نئے پاکستان کے نئے حکمران تمام سابقین کے ریکارڈ توڑنے کےفیصلہ کا اعلان فرما چکے ہیں. روکنے والا تو دور کی بات ہے کوئی پوچھے والا ہی نہیں ہے. سنا ہے کہ 50کھرب روپے خرچ کرکے تخت لاہور میں روای کنارے لندن کی طرح کا ایک نیا شہر بسانے جا رہے ہیں.جس کی خوبیاں اور خصوصیات بیان کرنا شروع کر دی گئی ہیں. وقت کے حکمرانوں کے قصدہ خوانوں نے نئے شہر کے فضائل بیان کرنے کے لیے جمع کرکے ترتیب دینا اور لکھنا شروع کر دیئے ہیں. روہی کی زمینیں مقامی حقداروں سے کئی گنا زیادہ مخصوص طبقے کو دی جا رہی ہیں. نارووال کے بعد قادیانیوں کی مستقبل میں دوسری بڑی سرحدی آبادی خطہ سرائیکستان کا چولستان روہی ہوگی.روہی کو بہت جلد نئی نہریں سرسبز و شاداب کر دیں گی. روہی میں بڑی ڈیزرٹ ہائی وے بنے گی. بھارت کے ساتھ کوئی پرانی گزر گاہ اور تجارتی راستہ کھلے گا. جنگل میں منگل ہوگا. نیا انڈسٹریل شہر آباد ہوگا.اس وقت قدیمی مقامی لوگ اقلیت میں ہوں گے. مزید بے بسی اور غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے. ہمیشہ کی طرح چند ایک مراعات یافتہ گھرانے اور لوگ بھی نئے راج میں چوکیداری کی خدمات دینے پر معمور ہوں گے اور خوشحال بھی. آنکھیں بند کرنے سے یا میرے نہ لکھنے سے حالات اور حقائق کی صحت پر تو کوئی فرق نہیں پڑنے جا رہا. دنیا اور خطے کے بے شمار ممالک میں نئی تبدیلیوں کے دور کا آغاز ہو چکا ہے.بکنے والی قومیں اور بکے ہوئے لوگوں کے آگے جھکنے والے لوگوں میں حالات کا مقابلہ کرنے کی جرات اور ہمت نہیں ہوتی. روہی کی تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی ڈیموگرافی کوئی عام اور معمولی بات نہیں ہے.
محترم قارئین کرام،، صدیق سالک نے اقتدار میں مختلف علاقوں اور قوموں کو شرکت کا احساس دلانے کی بات ہے. ہمارے حکمران عوام کو احساس دلانے کا کام باخوبی سرانجام دے رہے ہیں.پسماندگی اور محرومیوں کا احساس ، مفتوح اور غلام ہونے کااحساس، بے اوقات ہونے کا احساس، اپنے آپ کے اعلی و، ارفع ہونے کا احساس، ہماری مرضی ہمارے فیصلے کا احساس، بہاول پور کو اپنا دوسرا گھر قرار دینے اور اس پیرس بنانے کے دعوے کرنے والوں سے لیکر موجودہ حکمرانوں تک سبھی ایک دیئے پیٹرن پر چل رہے ہیں. بھائی چارے کےچورن کی حقیقت بھی کھل چکی ہے. انصاف کے دہرے معیار کے مینار بھی زمین بوس ہو کر اپنی عزت و وقار اور اعتماد کھو چکے ہیں.جب تک نفرتوں کو جلا بخشنے والے مذکورہ بالا کام بند نہیں کیے جاتے سدھار کی امید رکھنا فضول ہے.
آج یہ بات بھی کسی المیے سے کم نہیں ہے کہ خطہ سرائیکستان کے عوام میں اس خطے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی موجودگی کے باوجود احساس محرومی ہے. یہ سوچوں اور کرداروں کے درمیان بہت بڑی خلیج ہے. سوچنے اور فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہے?.استحصال اور محرومیوں کا خاتمہ کرکے ہی لوگوں کو اقتدار میں شرکت کا احساس دلایا جا سکتا ہے خالی باتوں، نعروں اور تقریروں سے نہیں. میں سابق ایم این اے جمشید دستی کی طرح کسی کو تخت لاہور کے چوکیدار،ایجنٹ، دلال وغیرہ نہیں کہنا چاہتا.سرائیکی خطے کا وزیر اعلی سردار عثمان بزدار اور ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والا صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت اگر خواجہ فرید کالج، خواجہ فرید انجینئر نگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی، شیخ زاید ہسپتال و کالج رحیم یار خان کیڈٹ کالج خان پور وغیرہ کے مسائل حل نہیں کر سکتے یا حل نہیں کروا سکتے تو ایسے بے فیض عہدوں کا خطے کے عوام کو کیا فائدہ.سرائیکی خطے کو اتنے بڑے عہدے دینے والوں انہیں کچھ اختیار بھی دو تاکہ یہ عوام سے اپنے وعدے نبھا سکیں اپنا صوبہ اپنا اختیار مل جانے پر کچھ کام کرنے کے قابل ہو سکیں.سرائیکی خطے کے ان عقل کل لوگوں کو کوئی تو بتائے کہ جناب اپنے صوبے والوں کے پاس ہی اپنے اختیار ہوتے ہیں نہ کہ……..

About The Author