11 اگست کو نیب لاہور کے دفتر کے سامنے ن لیگ کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپ نے ایک بار پھر پاکستانی سیاست اور ریاست کی دیرینہ دراڑوں اور موجودہ سیاسی بساط کی پیدائشی کمزوریوں کو عیاں کر دیا ہے۔
نہ چاہتے ہوئے بھی نیب کے بلاوے نے ملکی سیاست اور خود ن لیگ میں ان قوتوں کو مضبوط کیا ہے جنہیں وہ کمزور کرنا چاہتے تھے۔
مریم نواز شریف، میاں نواز شریف کی برطانیہ روانگی کے بعد خاموش تھیں۔ ن لیگ، شہباز شریف اور ان کے قریبی رفقا کی قیادت میں سیاست کر رہے تھے۔ نیب کے بلاوے آ تے تھے اور ن لیگی رہنما خاموشی سے پیش ہو جاتے تھے۔ میڈیا میں مریم نواز کی خاموشی پر تبصرے ہوتے لیکن وہ خاموش رہتیں۔
یہ خاموشی اس وقت ٹوٹی جب عدلیہ اور حزب اختلاف کی شدید تنقید اور دباؤ میں آ کر نیب نے جہاں حکومت اور حزب اختلاف کے کئی لوگوں کی پکڑ دھکڑ کرنے کی کوشش کی وہاں انہوں نے ایک پتھر مریم نواز شریف کی طرف بھی پھینک دیا۔
بلاوے کے نوٹس کو پڑھیں تو نہ اس کا سر ہے اور نہ پیر۔ نہ الزام ہے اور نہ کوئی سنجیدہ سوال۔ معلومات وہ مانگی گئی ہیں جو پہلے ہی سرکاری ریکارڈ میں موجود ہیں۔ بظاہر اس کا مقصد مریم نواز شریف پر دباؤ برقرار رکھنا اور اپنی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ میں پیوندکاری کرنا تھا۔
مریم کیمپ کے ایک رہنما نے کہا: ’ہم پہلے ہی خاموش تھے۔ ہم نے اپنی پارٹی کے مصالحتی ونگ سے کہا کہ ہم خاموش ہیں جو فائدہ حاصل کرنا ہے کر لو۔ حکومت کو بھی کھلی چھوٹ دی ہوئی تھی کہ آپ نے جو چن چڑھانا ہے چڑھا لو، بس ہمارے متھے نہ لگو۔ ایسے میں یہ نوٹس ایک کھلی اشتعال انگیزی اور سرخ لکیر کو پار کرنے والی بات تھی۔ ہمارے لوگ پہلے ہی ہم پر تپے بیٹھے تھے۔ اس اشتعال انگیزی پر ہماری طرف سے خاموشی ممکن نہ تھی۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔‘
نوٹس ملنے کے فوراً بعد مریم نواز شریف نے صورت حال کو بھانپتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ پیش ہوں گی۔ ساتھ ہی ان کے کارکنوں نے بھی تیاری شروع کردی۔ جب نیب کو پتہ چلا کہ یہ معاملہ ن لیگ کے دوسرے رہنماؤں سے مختلف ہو گا تو انہوں نے مختلف حلقوں سے پیغامات بھجوانے شروع کر دیے کہ آپ تشریف نہ لائیں ہم اسے نمٹا لیں گے۔ مریم کو شک تھا کہ نیب ان کی طرف سے پیش نہ ہونے کو ان کی کمزوری کے طور پرپیش کرے گی اور تحریک انصاف بھی اسے مریم نواز شریف کو سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرے گی اس لیے انہوں نے جوابی پیغام بھجوایا کہ وہ صرف اس صورت میں پیش نہیں ہونگی اگر نیب تحریری طور نوٹس سے دستبردار ہو جائے۔
نوٹس منسوخ کرنے سے نیب کی رہی سہی ساکھ بھی جاتی رہتی اور آئندہ وہ کسی اور کو طلب کرنے کے قابل نہ رہتی اس لیے انہوں نے آخری وقت تک مریم نواز کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ نیب دفتر نہ آئے۔
منگل کی صبح نیب لاہور دفتر کے سامنے جو کچھ بھی ہوا اس نے نیب اور نیب کی اعانت کرنے والوں خصوصاً پی ٹی آئی سرکار کو زخمی کر دیا ہے۔ ن لیگی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ، گرفتاریاں، رہائی، مریم نواز اور ان کے کارکنوں پر پولیس کی طرف سے پتھراؤ اور خاص طور پر مریم نواز کی گاڑی کو پہنچنے والے نقصان کے نتائج ن لیگ کی اندرونی سیاست اور ملکی سیاست میں در رس نکلیں گے۔ واقعے کے بعد مریم نواز شریف نے ایک زوردار پریس کانفرنس میں ایک بار پھر اپنے والد کے ’ووٹ کو عزت دو‘ والے پرانے بیانیے کا اعادہ کیا ہے اور اپنے والد کی طرف سے حزب اختلاف کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے اور اجتماعی فیصلہ سازی پر زور دیا ہے۔
لندن سے جو آوازیں آ رہی ہیں وہ مقتدر حلقوں کو خوش کرنے کے لیے دھڑا دھڑ قانون سازی کرنے اور مولانا فضل رحمان کو ناراض کرنے پر ناراضگی کا اظہار کر رہی ہیں۔
لندن کی ایک آواز نے سرگوشی کی: ’ملک کو درپیش خطرات کے لیے قانون سازی ضرور کریں لیکن یہ نہ بھولیں کہ یہ وہی خطرات ہیں جن کی نشاندی کرنے پر ہمارے گلے میں ڈان لیکس کا طوق ڈالا گیا تھا اور جس کی وجہ سے عدلیہ کو استعمال کرتے ہوئے ہماری حکومت ختم کی گئی اور انتخابات میں انجنیئرنگ کے ذریعے موجودہ کٹھ پتلی سرکار کو بٹھایا گیا۔ اب اگر ہم نے قانون سازی بھی کرنی ہے تو حزب اختلاف کو یک آواز ہوکر کریہ کام کرنا چاہیے اور پارلیمان مین اس پر بحث ہونی چاہیے کہ ہم یہاں پہنچے کیسے۔ بغیر اس بحث کے ہم ان قوتوں کے دم چھلہ کیسے بنیں جنہوں نے ملک کو اس حال تک پہنچایا ہے؟‘
منگل کے واقعے نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ میاں نواز شریف کے بعد ن لیگ کی مسقبل کی قیادت کس کے پاس ہو گی۔ قطع نظر اس کے کہ مریم نواز ڈیڑھ درجن نائب صدور میں سے ایک ہیں، پارلیمان سے وہ باہر ہیں لیکن سیاست وقت پر پیش رفت کرنے اور بہادری دکھانے کا نام ہے۔ اس کا تعلق عہدوں اور عمر سے نہیں ہے۔
دو دن بعد انصافی سرکار تیسرے سال میں داخل ہو جائے گی۔ پنجاب کے معاملات ابھی تک بڑی کامیابی تو درکنار معمولی سیاسی استحکام سے بھی دور ہیں۔ حکومت کے بڑے اتحادی جوگر پہن کر دوڑنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور صرف سبز جھنڈی کا انتظار کر رہے ہیں۔ عثمان بزدار کے حالیہ سکینڈل نے، جس کے لیے نیب نے انہیں طلب کیا تھا، نظام کی ناپائیداری کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ لے دے کر نامکمل بی آر ٹی کا ہوشربا لاگت کے بعد عمران خان کا جمعرات کو پشاور میں افتتاح ہی رہ گیا ہے۔ ملکی معیشت دگر گوں ہے، خارجہ پالیسی میں بغیر سوچے سمجھے بے تکے بیانات کے نتائج بھی آئے دن بھگتنے پڑتے ہیں۔
یہ نہیں معلوم کہ شاہ محمود قریشی کو سعودی عرب کے حوالے سے دھکہ کس نے دیا لیکن اب آخری کوشش کے طور پر فوج کے سربراہ کو اتوار کے روز ریاض جانا پڑ گیا ہے تاکہ معاملات کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔
خارجہ امور حلقوں کے مطابق شاہ محمود قریشی کی طرف سے سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے حوالے سے بیان بازی نے معاملات کو بہت خراب کر دیا ہے اور پاکستان کی طرف سے روایتی خارجہ پالیسی جس میں چین کے قریب رہ کر باقی دنیا کو ناراض نہ کرنا شامل تھا، ہلا کر رکھ دیا ہے۔ چین نے ایک ارب ڈالر پاکستان کو دے کر اور مزید پیسے دینے پر آمادگی کا اظہار تو کیا ہے لیکن اس سے نہ صرف سعودی اور امریکی کیمپ کو مزید ناراض کر دیا ہے بلکہ تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہ ڈالنے والی پالیسی کو بھی تہس نہس کردیا ہے۔
یہ سب کچھ ایسے وقت ہو رہا ہے جب خطے میں غیر معمولی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔ اتوار کے روز دوحہ میں افغانستان میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات شروع ہو رہے ہیں، ٹرمپ نے صدارتی انتخابات سے ڈھائی ماہ قبل متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان مکمل تعلقات کی بحالی بشمول سفارتی تعلقات کا معاہدہ کروا ڈالا ہے، ایران کو مزید تنہا کیا جا رہا ہے جہاں چین بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے اور بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات آئے روز مزید کشیدہ ہو رہے ہیں۔
ایسے میں نئے کٹے کھولنا جن میں سندھ حکومت کے خلاف وفاقی سرکار کے متوقع اقدامات کی گونج اور مریم نواز شریف کے خلاف نیب کی حالیہ کارروائی ایک بے وقت کی بے سری راگنی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس کا حاصل مطلب اسی شاخ کو کاٹنا ہے جس پر آپ بیٹھے ہیں۔
نہیں معلوم کہ نیب کا اگلا قدم کیا ہو گا لیکن یہ بات واضح ہے کہ اگر نیب نے، جس کے چیئرمین کی مدتِ ملازمت میں صرف پونے دو ماہ رہ گئے ہیں، پھرمریم نواز شریف کیخلاف کوئی الٹا سیدھا قدم اٹھایا تو منگل کے روز ن لیگی کارکنوں کے چہروں کے تاثرات کے مطابق اس کا رد عمل منگل سے زیادہ سخت ہو گا۔
لیکن اگر نیب نے یہ معاملہ سرد خانے میں ڈال دیا تو مریم نواز بھی نسبتاً خاموشی اختیار کر لیں گی اور عمران سرکار کو اپنے اقتدار کی طوالت کی رسی میں جھولتا دیکھنے کی پالیسی پر عمل کریں گی۔
جاتی عمرہ سے فی الحال پیغام یہی ہے کہ ’نہ چھیڑ ملنگاں نوں!‘
(یہ تحریر مصنف کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر