پنجاب اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اقلیتوں سے متعلق بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو نصاب کا حصہ بنایا جائے ۔ پنجاب اسمبلی کو مبارکباد دینی چاہئے کہ اس نے پہلی مرتبہ نہایت ہی اہمیت کے حامل قرارداد پاس کی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ 11 اگست کا دن نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسی دن اپنے تاریخی خطاب میں فرمایا تھا کہ بلا رنگ ، نسل و مذہب پاکستان میں رہنے والے تمام لوگوں کے حقوق مساوی ہونگے۔ قائد اعظم کے خطاب سے اقلیتوں کو بہت حوصلہ ملا تھا لیکن 1973 ء کے آئین میں بہت سی دفعات پر اقلیتوں کو تحفظات ہیں ۔
ان تحفظات کو دور کیا جانا ضروری ہے کہ اگر پاکستان میں امتیازی قوانین ہونگے تو اس کا نقصان ہندوستان اور دیگر ملکوں میں رہنے والے مسلم اقلیتوں کو ہوگا کہ ایک لحاظ سے وہ بھی امتیازی قوانین بنائیں گے ۔ سٹیٹ ماں ہوتی ہے اور اس میں رہنے والے سب بیٹے تو ماں کو سب سے برابر پیار ہوتا ہے اور ماں کے بیٹے بھی اپنی ماں دھرتی کو مقدس جانتے ہیں ۔ گلستان کی خوبی اس کے مختلف پھولوں ‘ مختلف رنگوں اور مختلف خوشبوؤں سے ہوتی ہے ۔
پاکستان کو بھی اسی طرح کا گلدستہ ہونا چاہئے ۔ جیسا کہ میںنے عرض کیا کہ11 اگست 1947ء کو قائد اعظم نے اقلیتیوں کے مساویانہ حقوق کی بات کی ، انہوں نے اپنی کابینہ میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون بنایا ۔ قیام پاکستان کے دو سال بعد جوگندر ناتھ منڈل نے استعفیٰ دیدیا ۔ انہوں نے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو استعفیٰ کی چٹھی میں لکھا کہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں خصوصاً ہندؤں سے ناروا امتیازی سلوک ہو رہا ہے اور میں ان کے حقوق کا تحفظ نہ کر سکا ۔ لہٰذا مجھے اپنے عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں ۔
جوگندرل پال منڈل کے حوالے سے دو باتیں توجہ طلب ہیں ، ایک یہ کہ قائد اعظم نے خود ایک غیر مسلم کو وزیر قانون بنایا ، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان کو انتہا پسند سٹیٹ نہ بنانا چاہتے تھے۔ لہٰذا 1973ء کے آئین میں اقلیتوں کے خلاف جو امتیازی قوانین بنے ، وہ قائد اعظم کی سوچ کے بر عکس تھے ۔ دوسرا یہ کہ 11 اگست اقلیتوں کے حقوق کا دن منایا تو جاتا ہے مگر حقوق دیئے نہیں جاتے ۔
اس معاملے میں اقلیتیں اور پاکستان میں بسنے والی اصل قدیم محکوم قومیں جن کو انصار بھی کہا جاتا ہے ، ایک صف میں کھڑی ہیں ۔ نئے آنے والے حکمرانوں کی توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں ، وہ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں بسنے والے مقامی لوگوں کو شکایت ہے کہ ان کی خدمات کا کہیں بھی تذکرہ نہیں کیا جاتا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ 1947ء میں سب سے بڑا مسئلہ انتقال آبادی تھا ۔
آزادی کے بعد دونوں حکومتوں نے تبادلہ آبادی کی سکیم تیار کی لیکن غیر دانشمندی کا ثبوت یہ دیا گیا کہ انتقال آبادی کا محفوظ پلان تیار نہ ہو سکا ، پھر دونوں ملکوں میں اس طرح کے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ دونوں طرف سے لاشیں گرنے لگیں ۔ ہندوستان خصوصاً مشرقی پنجاب سے سب سے زیادہ مہاجرین آئے ،ایک اندازے کے مطابق 70 لاکھ آبادی کا ہندوستان سے انخلا ہوا ۔ پناہ گزینوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سپین سے تین لاکھ مسلمانوں کو وطن چھوڑنا پڑا۔ روس اور جرمنی سے 70 ہزار یہودی نکالے گئے اور فلسطین سے ڈیڑھ لاکھ مسلمان ملک بدر ہوئے ۔
پاکستان سے جانیوالے ہندؤں کی تعداد ہندوستان سے آنے والے مسلمانوں کے مقابلے میں کم تھی ۔ جب انتقال آبادی ہوا تو ایک بوڑھی عورت نے بڑی بات کی کہ ’’ بادشاہ بدلتے سب نے دیکھے ، رعیت بدلتے ہم نے پہلی مرتبہ دیکھی ۔ ‘‘ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ جن لوگوں نے پاکستان کے لوگوں کو سلطنت قائم کرنے کیلئے اپنی سرزمین دی اور پاکستان کے نام پر انڈیا سے آنے والے پناہ گزینوں اور لُٹے پُھٹے مہاجرین کے قافلوں کو صرف پناہ ہی نہیں بلکہ اپنی قیمتی املاک، اراضی اور جائیدادیں بھی دیں آج وہ مجرم اور دوسرے درجے کے شہری کیوں ہیں اور جن لوگوں نے یہاں آ کر عافیت حاصل کی وہ ڈنڈے کے زور پر یہ بات کیوں تسلیم کرانا چاہتے ہیں کہ قربانی تمہاری نہیں بلکہ ہماری ہے۔
دیکھنے میں آتا ہے کہ لاہور میں مشرقی پنجاب سے سکھوں کے قافلے آتے ہیں وہاں جشن کا سماں ہوتا ہے جبکہ سرائیکی وسیب سے کوئی ضرورت مندسرکاری فائل کی مجبوری کی وجہ سے لاہور جاتا ہے تو اسے کئی دشوساریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔یہی وجوہات تھیں جن کی بناء پر سرائیکی قومی سوال پیدا ہوا اور اگر تقسیم کے وقت پاکستان کے قومی مسئلے کا ادراک کر لیا جاتا ، بنگالیوں اور دوسری تمام قوموں کو ان کی زبان ، ثقافت اور شناخت کا حق مل جاتا تو مشرقی پاکستان الگ نہ ہوتا اور نہ مغربی پاکستان خلفشار کا شکار ہوتا۔ یوم آزادی کے موقع پر ضروری ہے کہ آزادی کے حالات و واقعات کا نئے سرے سے جائزہ لیا جائے اور مقامی افراد کی قربانیوں کا تذکرہ بھی نصاب اور تاریخ کی کتب میں شامل کیا جائے ، آج نئے مکالمے اور نئے بیانیے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے ۔
یوم آزادی کے موقع پر ہندوستان سے مہاجرین کی ہجرت کے واقعات اور ہجرت کے نتیجے میں پیش آنے والے مصائب و آلام کا تفصیل سے ذکر کیا جاتا ہے ، جو کہ اچھی بات ہے ۔ لیکن یوم آزادی کے تذکروں میں مہاجرین کی مشکلات کے ساتھ انصار کے ایثار کا تذکرہ عنقا نہیں ہونا چاہئے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر