زندہ قومیں اپنے قومی تہوار جوش و خروش کے ساتھ مناتی ہیں ۔
اچھی بات یہ ہے کہ یومِ آزادی کے حوالے سے ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ لوگوں میں بھی جوش و خروش دیکھنے میں آ رہا ہے۔
پاکستان کے دوسرے علاقوں کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب میں بھی یومِ آزادی کے حوالے سے جوش و خروش پایا جاتا ہے ۔ تحریک آزادی سے لیکر قیامِ پاکستان اور بعد ازاں استحکام پاکستان کیلئے سرائیکی وسیب کی خدمات تاریخ کا حصہ ہیں ۔ وسیب کے دوسرے علاقوں کے ساتھ ساتھ سابق ریاست بہاولپور نے پاکستان کیلئے دامے ، درمے ، قدمے، سخنے ساتھ دیکر قربانی و ایثار کی نئی تاریخ رقم کی۔
ریاست بہاولپور کی پاکستان کے لئے کتنی خدمات ہیں ؟ اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے نواب بہاولپور نے ریاست کی طرف سے ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا جس پرایک طرف مملکت خداداد بہاولپور اور دوسری طرف پاکستان کا جھنڈا تھا ،پاکستان قائم ہو تو قائداعظم ریاست بہاولپور کی شاہی سواری پربیٹھ کر گورنر جنرل کا حلف اٹھانے گئے ،پاکستان کی کرنسی کی ضمانت ریاست بہاولپور نے دی ،پہلی تنخواہ کی چلت کیلئے پاکستان کے پاس رقم نہ تھی تو نواب بہاولپور نے پہلے تنخواہ کی چلت کے لئے 7کروڑ روپے کی خطیر رقم دی قائد اعظم نے نواب بہاولپور کو محسن پاکستان کا خطاب دیا۔لیکن قیام پاکستان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کو بنایا گیا ۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ قیام پاکستان سے قبل بھی ایک پاکستان ڈھائی سو سال پہلے موجود تھا اور اس کا نام ریاست بہاولپور تھا ۔ افسوس کہ قیام پاکستان کے بعد ریاست بہاولپور کے تمام احسانات کو بھلا دیا گیا ،بہاولپور رجمنٹ کو ختم کیا گیا ، ملازمتوں کے دروازے بند کئے گئے ، فارن سکالر شپ ختم ہوئی ، ریونیو بورڈ لاہور چلے جانے سے ناجائز الاٹمنٹوں کا طوفان اٹھا دیا گیا ، بہاولپور کے دریا بیچ دیئے گئے ، واہگہ بارڈر آج تک کھلا ہے مگر بہاولنگر جنکشن بند ، امروکہ بند ، اس کے ساتھ یہ ظلم بھی کیا گیا کہ کراچی دہلی کا سب سے بڑا ریلوے ٹریک میکلوڈگنج جنکشن بند کر دیئے گئے ،دریائے ستلج کی موت کے بعد آج اس خطے میں دوسرا چولستان وجود میں آرہا ہے۔
حکومت کو ان امور کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ کوئی مانے یا نہ مانے یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے وجود کی عمارت مقامی افراد کی سر زمین پر قائم ہے، اسے کوئی گملے کی شکل میں ہندوستان سے اُٹھا کر نہیں لایا ۔ مہاجر بھائیوں کی اولادیں جو یہاں پیدا ہوئی ہیں ، ان کو فاتحانہ طرز و فکر اختیار کرنے کی بجائے حقائق کا ادراک کرنا چاہئے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی برکتوں سے مقامی لوگ آج بھی محروم ہیں ۔ وہ اپنے ہی گھروں میں مہاجر بنا دیئے گئے ، وہ صرف وسائل سے محروم نہ ہوئے ، ان کی زبان ، تہذیب و ثقافت بھی خطرات کا شکار ہے۔
یوم آزادی کا پیغام یہ ہے کہ وسائل اور مسائل کی برابر تقسیم اور تمام علاقوں کے ساتھ مساویانہ سلوک ہو۔ ہجرت کے وقت وسیب کے لوگوں نے مہاجرین سے کیسا برتاؤ کیا، ان کے ساتھ حسن و سلوک سے پیش آئے یا اغیار والا معاملہ تھا ؟ اگر مقامی لوگوں کا رویہ ایثار و قربانی والا تھا تو پھر اس کا اعتراف مقامی آبادی کی تہذیب ،ثقافت اور زبان سے مانوسیت اور جذب پذیری کی صورت میں آنا چاہئے اور یوم آزادی کے تذکروں میں مہاجرین کی مشکلات کے ساتھ انصار کے ایثار کا تذکرہ عنقا نہیں ہونا چاہئے ۔
یوم آزادی کے تذکرے میں انصار عنقا کیوں ؟ کے سوال کے ساتھ ساتھ لفظ پاکستان کے حوالے سے بھی بہت سی باتیں ابھی تک وضاحت طلب ہیں ۔ لفظ پاکستان کے بانی چوہدری رحمت علی سے اس وقت تفصیل پوچھی گئی تو انہوں نے پ سے پنجاب ، الف سے افغانیہ ، ک سے کشمیر ، س سے سندھ اور تان سے بلوچستان بتایا ۔ اس پر مشرقی پاکستان کے بنگالیوں نے کہا کہ ہم کہاں گئے ؟ اس پر چوہدری رحمت علی تو کوئی جواب نہ دے سکے مگر حکومتی زعماء نے خود ساختہ وضاحت دی کہ پاکستان کا مطلب ’’ پاک لوگوں کی سر زمین ‘‘ ہے ۔ اقلیتوں نے پوچھا کہ پاک سے کیا مراد ہے تو کہا گیا کہ ’’ مسلم ‘‘ ۔
اس پر اقلیتوں نے کہا کہ پھر ’’ ناپاک غیر مسلم ‘‘ برابر کے شہری کس طرح ٹھہرے ؟ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ آج تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے حالات و واقعات پر نئے سرے سے غیر جانبدارانہ تحقیق اور تجزیے کی ضرورت ہے ۔ یکطرفہ باتوں سے حقائق کبھی سامنے نہیں آ سکیں گے ۔ قیام پاکستان کی مخالفت میں ہندو کی ذہنت اور سکھوں کی حماقت پر دو رائے نہیں ہو سکتیں ۔’’
لے کے رہیں گے پاکستان ، بٹ کے رہے گا ہندوستان ‘‘ کے نعرے بھی گونجتے ۔ کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا ، لاوا پکتا جا رہا تھا ، دوسری طرف سے سکھ رہنما تارا سنگھ نے مارچ 1947ء میں جالندھر شہر کے بھرے جلسے میں اپنی قمیض پھاڑ کر جوش خطابت میں سکھوں کو مخاطب کر کے کہا کہ ’’ مسلمانوں کو ایسے چیر دو ‘‘ ۔ اس پر اسی وقت لاوا بھڑک اُٹھا اور فسادات ہوئے ۔
آج سکھوں سے ہمدردی حکمرانوں کیلئے سوالیہ نشان ہیں؟ یوم آزادی کے موقع پر یہ باور کرانا ضروری ہے کہ موجودہ حکومت صوبے کے وعدے پر بر سر اقتدار آئی ہے، تحریک انصاف نے اپنے منشور میں صوبے کا وعدہ شامل کیا ، سول سیکرٹریٹ نہ تو صوبے کا متبادل ہو سکتا ہے اور نہ ہی تحریک انصاف نے سول سیکرٹریٹ کا وعدہ کیا تھا ۔
اصل مسئلہ صوبے کا ہے جس کے قیام کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں ۔ صوبہ بننا چاہئے، سول سیکرٹریٹ کے نام پر ملتان اور بہاولپور کے نام پر جو تفریق پیدا کی گئی ہے اور نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں اس کو ختم کرنا چاہئے کہ پورا سرائیکی خطہ ایک ہی تہذیب ، ایک ہی ثقافت اور ایک ہی جغرافیے کا وارث ہے ۔
یوم آزدی کے موقع پر صوبے کا اعلان وسیب کے کروڑوں افراد کی خوشیوں کا باعث ہے اور وسیب کے لوگ برملا طور پر یہ کہہ سکیں گے کہ ’’ تو بھی پاکستان ہے ، میں بھی پاکستان ہوں ‘‘ ، ’’ یہ تیرا پاکستان ہے، یہ میرا پاکستان ہے ‘‘ ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر