ہندوستان میں گورنر جنرل کا عہدہ 1773 میں پہلی بار فورٹ ولیم میں وجود میں آیا جہاں وارن ہیسٹنگزکو ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی جانب سے پہلا گورنر جنرل مقرر کیا گیا۔ 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد پورے ہندوستان پر تاج برطانیہ کی حکومت قائم ہوئی تو گورنر جنرل کا عہدہ بھی ہندوستان پر نافذ کیا گیا۔ متحدہ ہندوستان میں گورنر جنرل تاج برطانیہ کا نمائندہ کہلاتا تھا اور گورنر جنرل کو وائسرائے کا منصب بھی حاصل ہوتا تھا۔
1947 میں تقسیم ہند کے بعد وائسرائے کا عہدہ تو ختم کر دیا گیا جبکہ گورنر جنرل کے عہدہ کو علامتی طور پر قائم رکھا گیا۔ پاکستان کے بننے کے بعد گورنر جنرل کا عہدہ بنیادی طور پر تاج برطانیہ کے علامتی نمائندہ کی حیثیت سے ملک کا اعلیٰ ترین عہدہ تھا۔ اس میں شاہ برطانیہ وزیراعظم کے مشورے سے گورنر جنرل کا تقررکرتا تھا۔
اسی سبب گورنر جنرل ملک میں بادشاہ یا ملکہ کا نمائندہ ہوتا تھا۔ انڈین ایکٹ 1935 کے تحت گورنرجنرل کا عہدہ ایک طاقتور ترین عہدہ تھا اور گورنر جنرل کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی بھی بل کو آگے بڑھا سکتا تھا۔ کیونکہ قیام پاکستان کے بعد ملک کے سیاسی نظام کا ڈھانچہ 1935 کے انڈیا ایکٹ کے تحت بنانا پڑا تو اسی وجہ سے پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی قائد اعظم محمد علی جناح نے 15 اگست 1947 کو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔
پاکستان میں 1947 سے لے کر 1952 تک گورنر جنرل برطانوی بادشاہ جارج ششم اور 1952 تا 1956 تک ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوئم کا نمائندہ قرار دیا جاتا تھا۔ پاکستان کے پہلے آئین کی تکمیل کے ساتھ ہی 23 مارچ 1956 کو گورنر جنرل کا عہدہ ختم کرکے صدر کا عہدہ بنایا گیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی 1948 میں رحلت کے بعد لیاقت علی خان ایک طاقتور وزیراعظم کے طور پر سامنے آئے۔ اس سے قبل تمام تر اختیارات کا منبع قائد اعظم کی ذات اور گورنر جنرل کا عہدہ تھا۔ حتیٰ کہ کابینہ کے اجلاس کی صدارت بھی قائد اعظم کرتے تھے جو کہ بطور گورنر جنرل ان کا استحقاق تھا۔ اس ساری مدت میں وزیراعظم لیاقت علی خان مرکزی کابینہ کے کسی بھی اجلاس کی صدارت نہیں کرسکے اور ان کی حیثیت کابینہ میں سینئر وزیر کی سی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ قائد کے بعد لیاقت علی خان نے کوشش کرکے ڈھاکہ کی نواب فیملی کے کشمیری نژاد سر خواجہ ناظم الدین کو نامزد کیا جنہوں نے 14 ستمبر 1948 کو بطور گورنر جنرل اپنے عہدے کا حلف لیا۔ مگر اس بار گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے دیکھا کہ اصل عہدہ تو وزیراعظم کا ہے۔
راولپنڈی کے ایک جلسہ عام میں ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد وزارت عظمیٰ کے لیے زور آزمائی شروع ہو گئی۔ اس دھینگا مشتی میں گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین بھی وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے۔ اس کے متعلق گورنر جنرل کے پی اے، م ب خالد نے اپنی کتاب ایوان صدر میں سولہ سال میں لکھتے ہیں کہ ”لیاقت علی خان کی شہادت کے وقت خواجہ ناظم الدین جو ان دنوں گورنر جنرل پاکستان تھے، نتھیا گلی میں قیام پذیر تھے۔ کہتے ہیں کہ کابینہ میں اتفاق رائے تھا کہ وزیراعظم کا عہدہ ملک غلام محمد کو پیش کیا جائے جو اس وقت وزیر خزانہ کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔
وزیراعظم کا عہدہ ہاتھ سے جاتا دیکھتے ہوئے خواجہ ناظم الدین نے بطور گورنر جنرل خود کو وزیراعظم نامزد کر لیا اور گورنر جنرل کے لیے پرانے بیوروکریٹ اور قائد اعظم کے قریبی ساتھی ملک غلام محمد کا نام تجویز کر دیا“ ۔
یہ ایک المیہ تھا کہ خواجہ ناظم الدین ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ ان کا دور حکومت ایک انتشار کا دور تھا۔ وزیراعظم کی تبدیلی کی خاطر کی جانے والی محلاتی سازشوں سے سیاسی عدم استحکام بڑھنے لگا۔ وزرا کی ناقص کارکردگی کے باعث ملک میں اناج کی قلت پیدا ہوگئی جس پر لوگ بطور طنز وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو قائد قلت کہتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 1948 میں قائد اعظم کی وفات کے بعد ملک کے ابتدائی دس سال سیاسی طور پر عدم استحکام، نا اہل سیاسی اشرافیہ کی اقتدارکے حصول کے لیے کی جانے والی سازشوں کے سبب غیر یقینی صورتحال کا شکاررہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر 1958 تک کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔ ان دس سالوں میں لیاقت علی خان کے بعد چھ وزیراعظم یکے بعد دیگرے تبدیل ہوئے جس میں آئی آئی چندریگر کی وزارت عظمیٰ کی مدت دو ماہ سے بھی کم تھی۔ پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو اپنے عہدے سے اس وقت الگ ہونا پڑا جب 1953 میں گورنر جنرل ملک غلام محمد نے ان کی حکومت تحلیل کردی۔ ملک کے تیسرے وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی حکومت 1955 میں گورنر جنرل اسکندر مرزا نے ختم کردی۔ اس کے بعد اسکندرمرزا نے کسی وزیراعظم کو کام نہیں کرنے دیا۔ پاکستان کے چوتھے وزیراعظم چوہدری محمد علی نے گورنر جنرل سے اختلافات کے سبب 1956 میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ملک کے پانچویں وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے بھی گورنر جنرل سے اختلافات کے سبب اپنے منصب سے علیحدگی اختیار کرلی۔
چھٹے وزیراعظم ابراہیم اسماعیل چندریگر صرف دو ماہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے اور دسمبر 1957 میں مستعفی ہوگئے۔ ملک فیروز خان نون ملک کے ساتویں وزیراعظم تھے۔ 1958 میں مارشل لا لگنے کے بعد ان کو منصب سے ہٹا دیا گیا۔ پاکستان کے قیام کے ابتدائی دس سالوں میں چار گورنر جنرل اور سات وزرائے اعظم نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا۔
قائد کی جلدی وفات اور لیاقت علی خان کے قتل نے پاکستان کے سیاسی نظام کے اندر گویا بھونچال پیدا کر دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام کے ابتدائی سالوں میں جو پاؤں اکھڑے وہ دوبارہ نہیں جم سکے۔ ہر دس سال بعد ملک میں نیا سیاسی تجربہ کیا گیا کسی ایک نظام کو یکسوئی کے ساتھ اگر چلنے دیا جاتا تو شاید ملک سیاسی طورپرایک مستحکم ملک ہوتا۔ حالیہ سیاسی ابتری کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ملک کے سیاسی نظام کی دیوار کی پہلی اینٹ ہی جب ٹیڑھی رکھی گئی تو دیوار نے ٹیڑھا ہی بننا تھا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر