پاکستان میں صحافیوں کی زندگی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کی وجہ سے مشکل میں ہی پڑی رہتی ہے۔ لیکن اگر خواتین صحافی بن جائیں تو ان کے لئے یہ دشت صحافت زیادہ دہشت ناک ہو کر وا ہوتا ہے۔ اور آج کل کی حکومت کے خلاف اگر یہ کوئی رپورٹ دے دیں تو پھر تو ان پر باقاعدہ طور پر زندگی تنگ کی جاتی ہے۔
لیکن اب پاکستان میں خواتین صحافیوں نے اپنے خلاف ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھانا شروع کر دی ہے اور اس حوالے سے پاکستان کی خواتین صحافیوں نے ایک پٹیشن پر دستخط کئے ہیں جس میں ان تمام مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے جو ان کو بطور خاتون صحافی آتی ہیں اور انہوں نے تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کو اپنے خلاف چلنے والی مذموم مہم کی سرپرستی کرنے کے لئے مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
اس اعلامیئے میں لکھا گیا ہے کہ ہم خواتین صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف بات کرنے کی سزا دی جاتی ہے اور حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے سوشل میڈیا اکاونٹس سے ہم پر حملہ کیا جاتا ہے اور ہماری ذاتی معلومات کو عام کیا جاتا ہے۔ ہمیں مزید داغدار کرنے کے لئے لفافہ، فیک نیوز چلانے والے قرار دیا جاتا ہے ۔ کئی واقعات میں ہماری تصاویر اور ویڈیوز کو منفی طور پر کردار کشی کے لئے ایڈیٹ کرکے سوشل میڈیا پر چلایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ہمارے کام کے علاوہ ہماری صنف کی وجہ سے ہمیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہماری ٹائم لائنز کو عورتوں کے لئے مخصوص گالیوں سے بھرا جاتا ہے، ہمیں جسمانی و جنسی تشدد کی دھمکیاں دی جاتی ہیں جن میں ہمارے خلاف کسی بھی جرم کو اکسانے کی صلاحیت ہوتی ہے اور ہمارا وجود ہر وقت خطرے میں رہتا ہے۔ پھر سب سے بڑی کر ہمارے سوش میڈیا اکاؤنٹس ہیک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس میں سے اہم اور ذاتی نوعیت کی معلومات نکالی جاتیں ہیں اور کئی خواتی صحافیوں کے اکاونٹ کا قبضہ حاصل کر کے انہیں اپنے اکاونٹس سے ہی فارغ کر دیا جاتا ہے۔
اس صورتحال میں خواتین صحافیوں نے خود کو سینسر کرنا شروع کردیا ہے اور سوشل میڈیا پر معلومات کے تبادلے سمیت کسی بھی قسم کے تبادلہ خیال سے خود کو باز رکھنا شروع کردیا ہے جس سے عوام کا صحافت سے یقین اٹھنے لگا ہے اور یہ آئین کی خلاف ورزی اور جمہوریت کی پامالی بھی ہے جس میں عوام تک معلومات کی مکمل رسائی لازم بنانا بنیادی جزو ہے۔
اعلامیئے میں کہا گیا ہے کہ جب ہم خود کو سینسر کرتے ہیں تو عوام تک معلومات کی رسائی نہیں ہو پاتی جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو وہ قانونی سہولت نہیں ملتی جس کی ضمانت آئین کی شق چار میں دی گئی ہے۔ اور یہ ان لوگوں کی وجہ سے جو براہ راست پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ ہیں۔
گزشتہ سال وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے وعدہ کیا تھا کہ وہ صحافیوں کے خلاف دھمکیاں دینے والوں کے خلاف ایکشن لیں گی اور دھمکیوں، زیادتیوں، جبر اور خوف سے پاک ماحول بنائیں گی۔ اعلامیے میں شیریں مزاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہم انتظار کر رہے ہیں۔
اعلامیے میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت فوری طور اپنے اراکین کو میڈیا میں موجود خواتین کو ٹارگٹ کرنے سے روکے۔ اور یہ کہ حکومت اپنے اراکین، پارٹی کے چاہنے والوں کو واضح پیغام دے کہ وہ خواتین صحافیوں کو ہراساں کرنے سے باز رہیں۔ اور ایسے عناصر جو اس میں ملوث ہیں انکا احتساب یقینی بنایا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے دونوں ایوانوں کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حکومت کا احتساب کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ حکومت خواتین صحافیوں کی شکایت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ حرکتیں بند کرے، اسے ٹھیک کرے اور اس حوالے سے معافی مانگے۔ اور کمیٹی اس خوف کی فضا کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن اقدام کرے۔
اس پٹیشن پر اب تک عنبر شمسی، آئمہ کھوسہ، بے نظیر شاہ، محمل سرفراز سمیت 15 سے زائد خواتین صحافی دستخط کر چکی ہیں۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ