دسمبر 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مقامی حکومتیں جمہوریت کی انفنٹری، بھلا کیسے؟—اعزازسید

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوان خود مقامی حکومتوں سے ترقی کرتے ترکی کی قیادت تک پہنچے۔

دشمن ملک پر اپنی طاقت کی دھاک بٹھانے اور جنگ جیتنے کے لیے طیارے، میزائل، بحری بیڑے اور جدید جنگی سازوسامان استعمال کیا جاتا ہے مگر جنگ و جدل کے میدان میں عملی فتح پر انحصار ہمیشہ سے انفنٹری یا پیادہ فوج پر ہی رہا ہے۔

انفنٹری کا استعمال جنگوں میں مخالفین کے مقابلے پر ہی نہیں کمزور جمہوری ممالک میں اقتدار پر قبضہ کرکے اپنے ہی عوام کو فتح کرنے کے لیے بھی کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں بھی کمزور جمہوری حکومتیں ہیں وہاں جمہوریت کو اکثر اسی انفنٹری سے ہی خطرہ رہا ہے۔

جس طرح لوہا لوہے کو کاٹتا ہے بالکل اسی طرح انفنٹری ہی انفنٹری کا جواب ہے۔ مسئلے میں ہی حل چھپا ہے یعنی فوجی انفنٹری کے مقابلے میں جمہوری انفنٹری۔ سوال مگر باقی ہے کہ جمہوری انفنٹری بنتی کیسے ہے؟ جواب سے پہلے ترکی کی مثال پیش کرنا ضروری ہے۔

تازہ تاریخ میں جمہوری انفنٹری کی فوجی انفنٹری کے خلاف کامیاب کارروائی کا میدان 15 جولائی 2016 کو ترکی بنا۔ جہاں فوج کے چند طالع آزما جرنیلوں نے حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو رجب طیب ایردوآن نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اپنی جمہوری انفنٹری کو جوابی کارروائی کا حکم دے دیا۔

پھر دنیا نے ترک عوام کو ٹینکوں کے سامنے لیٹتے اور سڑکوں پر باغی فوج کی پٹائی کرتے دیکھا۔ فوجی انفنٹری کو جمہوری انفنٹری کے ہاتھوں عبرتناک شکست کے مناظر پوری دنیا میں ایک مثال بن گئے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوان خود مقامی حکومتوں سے ترقی کرتے ترکی کی قیادت تک پہنچے۔ وہ منتخب تو جمہوری انداز میں ہوئے مگر انہوں نے اپنے ملک میں اپوزیشن اور میڈیا سمیت اپنے خلاف اٹھنے والی پر آواز کو مکمل غیر جمہوری انداز میں بند کیا۔ سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں کو پابند سلاسل کیا ۔

یہ الگ بات کہ طیب ایردوآن کے خلاف جرنیلوں کی قیادت میں فوجی انفنٹری کی شکست ترک لوکل گورنمنٹ یا مقامی حکومتوں اور ان سے منسلک عام آدمی کے ہاتھوں ہی ممکن ہوئی، جو بندوقوں اور ٹینکوں کی پروا کیے بغیر میدان میں آگئے اور اپنے ملک کو ایک بار پھر فوجی جنتا کے ہاتھوں یرغمال بننے سے بچا لیا۔

مطلب یہ کہ ایردوآن کی اصل طاقت اس کا مرکز، بڑے صوبوں یا شہروں پر کلی اختیار نہیں بلکہ مقامی حکومتوں کے ذریعے عام آدمی سے رابطہ تھا کیونکہ انہی مقامی حکومتوں نے عام آدمی کے مسائل کا حل نکالا تھا۔ عوام کو گلی محلے میں ان کے مسائل کا حل ملا تو وقت پڑنے پر عوام ہی جمہوری انفنٹری بن کر منتخب حکومت کے تحفظ کے لیے ٹینکوں کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ ایردوآن خود بھی مقامی حکومت سے سیاست کرتے ہوئے ملک کا سربراہ بنے، لہذا وہ اس کی نزاکتوں سے خوب واقف ہیں۔

ادھر پاکستان میں حالات یکسر مختلف ہیں۔ یہاں سیاسی حکومتوں نے کبھی مقامی حکومتوں کو اہمیت ہی نہ دی۔ الٹا فوجی آمر مقامی حکومتوں کو سرپرستی دے کر اپنے غیر آئینی اقتدار کو انہی حکومتوں کے ذریعے مستحکم کرتے رہے۔ پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کا بنیادی جمہوریتوں کا نظام ہو یا پرویز مشرف کے دور میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا نعرہ ، فوجی آمروں نے ہمیشہ مقامی حکومتوں کو اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے استعمال کیا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاستدان اقتدار میں آنے کے بعد مقامی حکومتوں کی سرپرستی کرتے۔ سیاسی جماعتوں کو نچلی سطح پر منظم کرکے مقامی حکومتوں کا کنٹرول حاصل کیا جاتا اور عوامی مسائل حل کرکے اس میدان سے فوجی آمروں کے سائے کو بھگا کر جمہوریت کے استحکام کی جڑی مضبوط کی جاتیں مگر کبھی ایسا کچھ نہ ہوا۔

پیپلز پارٹی ہو مسلم لیگ ن یا تحریک انصاف نجانے کیوں کوئی بھی سیاسی حکومت اقتدار میں آنے کے بعد یہ میدان خالی چھوڑ دیتی ہے؟ سیاسی قیادت اس کی اہمیت سے اس لیے بھی واقف نہیں کہ وہ بھی اقتدار میں جمہوری انفنٹری کی بجائے براہ راست جی ایچ کیو کے راستے داخل ہوئی اور اسی راستے سے اقتدار لینے پر یقین رکھتی ہے۔ اقتدار کے کھیل میں جاری اللے تللے اپنی جگہ مگر اصل معاملہ تو عوام تک جمہوریت کا ثمر یعنی اطمینان بخش زندگی پہنچانا ہے۔

قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں جمہوری نظام کا دل ہیں تو مقامی حکومتیں اس کی شریانیں۔ جس سے جسم کی حرکت عملی طور پر ممکن ہوسکتی ہے۔ مارشل لا کے طویل ادوار کے بعد سیاسی جماعتیں جب بھی اقتدار میں اپنے دل کے ساتھ آئیں، شریانیں مگر غائِب رہیں ظاہر ہے شریانیں ہی نہ تھیں تو جمہوریت عملی طور پر مفلوج ہی رہی اور عام آدمی کے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے ہی رہے کیونکہ لوکل گورنمنٹ یا مقامی حکومتوں کو اہمیت نہ دی گئی۔ نتیجے میں گالی جمہوریت کو پڑتی رہی جو اس ملک میں کبھی مکمل طورپر آئی ہی نہیں۔

ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان میں سیاسی طور پر منتخب حکومتی٘ں مقامی حکومتوں کو سرپرستی کیوں فراہم نہ کر پائیں؟ وجہ بڑی سادہ ہے۔ وہ یہ کہ کسی بھی ضلع میں مقامی مسائل کے حل کے لیے وارڈز اور یونین کونسلز کی سطح پر کونسلرز یا ناظمین اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

یہ لوگ اپنے مسائل تحصیل ناظمین اور ضلع ناظمین تک لے جاتے ہیں۔ جب ناظمین کا نظام نہ ہوتومقامی حکومتوں کے نظام کی یہی اکائیاں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی طرف دیکھتی ہیں۔ جو انہیں کبھی پھلتا پھّولتا نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ اگر آج یہ پھل پھول گئے اور ان کے ذریعے ایک خاص حد سے زیادہ گلی محلے کے مسائل حل ہوگئے تو کل کلاں یہ کونسلرز یا ناظمین قومی یا صوبائی اسمبلی کے امیدوار بھی بن سکتے ہیں۔

ظاہر ہے اس سے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے چیلنج کی فضا پیدا ہوگی۔ ایوانوں میں میرٹ پر لوگ آئے تو صوبائی اور مرکزی قیادت میں بھی میرٹ کی بات ہوگی۔ جو ظاہر ہے جمہوریت کا نام لے کر حکمرانی کرنے والوں اور اس کا تیا پانچہ کرنے والوں دونوں کو منظور نہیں۔

بغورجائزہ لیا جائے تو عام آدمی کے مسائل کی نوعیت زیادہ تر مقامی ہوتی ہے۔کچی گلیاں، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، صفائی و سیوریج نظام کی عدم موجودگی، تعلیم وصحت ک مراکز کی عدم دستیابی، پولیس، کچہری، زمین کے تنازعات، مقامی ٹرانسپورٹ اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ وغیرہ ۔

یہ سب وہ مسائل ہیں جو کسی طور بھی اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو ذہنی طور پر پرسکون نہیں رہنے دیتے۔ مگر وہ مستقبل کے خوف سے ان مسائل سے باہر بھی نکلنا نہیں چاہتے۔ ایسے میں وہ نہ تو قانون سازی کے عمل میں موثرانداز میں شرکت کرتے ہیں نہ ہی لوگوں کے مسائل حل ہوتے ہیں۔ نتیجے میں عام آدمی مایوس ہوتا ہے۔

اس وقت ملک کی آبادی 21 کروڑ کے لگ بھگ ہے، جس کے پہاڑ جیسے مسائل کے حل کے لیے سینٹ کے 104، قومی اسمبلی کے 342، سندھ اسمبلی168، کے پی کے 124، پنجاب کے 371 اور بلوچستان اسمبلی کے 65 اراکین کام کر رہے ہیں۔ یعنی پوری آبادی کی نمائندگی مجموعی طورپر 1174 افراد کر رہے ہیں، جن میں اکثریت کا تعلق مالدارگھانوں سے ہے۔

اگر اس تعداد میں چاروں صوبوں کے مقامی حکومتوں کے نمائندوں کی کم و بیش ڈیڑھ لاکھ تعداد کو بھی شامل کرکے انہیں مقامی مسائل کے حل کے لیے مالی اور قانونی طور پر مستحکم کر دیا جائے توملک میں ایک طرف تو عام آدمی کے پہاڑ جیسے مسائل کے حل میں مدد ملے گی تو دوسری طرف ملک میں جمہوری انفنٹری کا قیام بھی عمل میں آئے گا اور جمہوریت کو تحفظ بھی ملے گا۔

مجھے یقین ہے کہ آج نہیں تو کل ملک کے پالیسی سازوں بالخصوص سیاسی قیادت و جماعتوں کو جمہوری انفنٹری کی اہمیت ضرور سمجھ میں آئے گی اور جب سیاسی جماعتوں کی طرف سے جمہوری انفنٹری کی تیاری اور سرپرستی کا فیصلہ کر لیا گیا، ملک میں عملی طور پر جمہوریت کے استحکام کا عمل شروع ہوجائے گا۔ کام مگر یہ کچھ طویل ہے۔

About The Author