ڈیرہ اسماعیل خان شھر میں دلدار آلا کھوہ ہمارے محلہ گاڑیبان کے مغرب متصل تھا۔اس کھوہ کا ایک بڑا کھاڈہ ڈاکٹر فضل الرحمان مرحوم کی بگائی ہاوس میں قائم ہسپتال کی پچھلی جنوبی سائڈ پر تھا۔ ہمارے بچپن کے زمانے اس کھوہ کی زرعی زمین میں فصلیں کاشت ہوتی تھی اور بیساکھی گراونڈ ہم ان زمینوں سے گزر کر جاتے تھے۔دلدار والے کھوہ میں ایک علامہ عبدالمجید صاحب رہتے تھے جو ترکی ٹوپی پہنتے تھے اور بہت علمی آدمی تھے ۔ وہ غالبا جلسوں میں علامہ اقبال کے اشعار سنا کر محفل گرم کر دیتے تھے ۔
اصل میں بیساکھی گراونڈ کی زمین دلدار صاحب کی تھی جس کے نام پر یہ کھوہ تھا ۔ یہ زمین کوئی 1920 کے لگ بھگ میونسپل کمیٹی ڈیرہ اور ہندں نے ملکر آٹھ سو روپے میں دلدار خان سے خریدی تاکہ بیساکھی کا میلہ اور تہوار منعقد ہو سکے۔ حکومت نے ہندو چودھریوں سے یہ لکھوا لیا تھا کہ بوقت ضرورت حکومت اس گراونڈ کو اپنے کسی استعمال میں لا سکتی ہے۔ بہر حال ہندو اس میں اپنے تہوار منانے لگے۔
1926 میں ڈیرہ میں ہندو مسلم فساد بھڑک اٹھے اور شھر میں ٹینشن بڑھ گئی۔ اس کے بعد جب عید آئی تو مسلمانوں نے عید پر گھوڑا دوڑ۔نیزہ بازی اور دودہ کا میلہ منعقد کرنا تھا جس کے لیے بڑے گراونڈ کی ضرورت تھی۔ اگرچہ مسلمانوں کے پاس شمالی سرکلر روڈ پر عیدگاہ ایک بنگلی باغ لیاقت پارک وغیرہ موجود تھے مگر ان میں گھوڑا دوڑ نہیں ہو سکتی تھی۔ چنانچہ مسلمانوں کی طرف سے تین معززین کا وفد اس وقت کے انگریز ڈپٹی کمشنر سے ملا اور میلے کی اجازت حاصل کر لی جس پر ہندو خفہ بھی ہوئے حالانکہ
میونسپل کمیٹی نے اسے مشترکہ رکھا تھا ۔ وہ تین معززین یہ تھے۔ پہلے نمبر پر خان بہادر عبدالحئی خان قصوریہ تھے۔ ان کے ایک بیٹے فضل کریم خان قصوریہ مرحوم ایوب خان کے زمانے MNA بنے ۔ اس کے ساتھ ساتھ سردار عبدالحئی خان قصوریہ کے پوتے جناب عبدالکریم خان قصوریہ KPK کے سابق صوبائی وزیر اور عبدالحلیم خان قصوریہ KPK کی اسمبلی کے سابق MPA ہیں۔
دوسرے وفد میں شامل مولوی نور بخش اعوان ایڈوکیٹ تھے۔ مولوی نوربخش کے بیٹے جنوبی ایشیا کے پہلے مسلمان پائلٹ ایزد بخش اعوان مرحوم تھے جن کو ہم انکل زیدی کہتے اور میونسپل لائبریری میں ہمارے جیسے نوجوانوں کو گائڈ کرتے تھے۔ مولوی نور بخش اعوان کے ایک اور بیٹے ایوب بخش اعوان ویسٹ پاکستان کے آئی جی پولیس تھے اور بہت لائق افسر تھے۔ تیسرا شخص اس وفد میں جناب فیض اللہ خان ایڈوکیٹ شامل تھا۔ چونکہ بیساکھی گراونڈ میں میونسپل کمیٹی کا پیسہ لگا ہوا تھا
اور یہ شرط بھی تھی کہ حکومت اپنی ضرورت کے تحت اس کو استعمال کر سکتی ہے اس لیے عید کا میلہ کرانے کی اجازت دے دی گئی۔ بیساکھی گراونڈ میں یہ میلہ دو سال ہوتا رہا پھر کسی اور جگہ منتقل ہوا۔ اب دیکھتے ہیں کہ ہندو ڈیرہ وال بیساکھی کا میلہ کس طرح مناتے تھے پارٹیشن سے پہلے ہندو ہرسال 13 اپریل سے 16 اپریل تک چار دن یہ میلہ بڑی دھوم دھام سے مناتے تھے۔
بیساکھی گراونڈ میں نہ صرف مقامی ہندو جمع ہوتے بلکہ باہر سے بھی ان کے دوست رشتہ دار اس میں شرکت کرنے آتے تھے۔ جب بیساکھی گراونڈ نہیں بنا تھا تو یہ میلہ مہاشہ جیندہ رام وکیل کے باغ میں لگا کرتا تھا جبکہ عورتیں باغ استھان گنیش پوری میں یہ میلہ مناتی تھیں۔ دسہرہ کا میلہ بھی ہندو اس بیساکھی گراونڈ میں منالیتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد اس گراونڈ میں آل پاکستان فٹ بال ٹورنامنٹ منعقد ہوتا رہا اور پورے پاکستان کی ٹیمیں اس میں شرکت کرتیں۔کشتیوں کا اکھاڑہ بھی تھا جس میں پہلوان زور آزمائی کرتے۔اس گراونڈ میں بڑے بڑے سیاسی جلسے بھی ہوتے رہے جس میں ملک کے حکمران شرکت کرتے۔ کرونا وبا سے پہلے اس گراونڈ میں صبح یوگا کی کلاس لگتی تھی مگر کرونا نے سارے پارک ویران کر دئیے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر