ڈیرہ اسماعیل خان ایک گرم علاقہ ہے جہاں درجہ حرارت 48 ڈگری چھونے لگتا ہے۔رات کو کافی گرمی ہوتی ہے اس لیے جون جولائی کی شدید گرمی کے بعد ساون کا مہینہ خوشیوں اور محبت کا سندیسہ لے کر آتا ہے۔ آج ساون کی پہلی تاریخ تھی اور فجر کی نماز کے وقت بڑے گہرے بادل ڈیرہ شھر پر چھا گئیے۔ ہم امید کرنے لگے کی ابھی بارش ہوئی کہ ہوئی مگر ان بادلوں نے ذرا جنوب مشرق کی طرف دریا کی سائیڈ کا رخ کیا اور بھکر پر برسنے لگے۔اگرچہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے پتہ چل گیا ساون کہیں برس رہا ہے
مگر جب بھکر سے استاد محترم ریاض انجم صاحب کا سٹیٹس دیکھا تو اس میں بھکر کی بارش کا ذکر تھا۔ ساون کی بارش بھی عجیب ہوتی ہے کیونکہ اس کی آواز۔موتیوں کی شکل میں بوندوں کا زمین پر گرنا دل کے اندر موسیقی کے تار چھیڑ دیتا ہے۔ساون ہمیں کئی رنگ دکھاتا ہے ۔مثلا کہیں موسلا دھار بارش ہے تو کہیں پھوار ہے اور کہیں رم جھم تو کہیں کنڑ منڑ بوندوں کی برسات ۔کہا جاتا ہے کہ ساون کی بارش بیل کے ایک سینگ پر برس رہی ہوتی ہے جبکہ اس کا دوسرا سینگ خشک ہوتا ہے۔
ساون کی بارش کے بعد مناظر کی خوبصورتی اور نکھار شباب پر آ جاتا ہے ۔کوئل کی کوک،پرندوں کی چہچہاہٹ،دور کہیں بانسری کی لے اور بارش کا جل ترنگ طبیعت پر ایسے اثر انداز ہوتا ہے کہ ہر طرف برسات کے نغمے بکھرنے لگتے ہیں۔
یہ سب منظر ہرانسان کی طبیعت پر اثر انداز ہوتا ہے ۔شاعر تو حساس احساسات رکھتے ہیں اسی لیے باہر کا موسم اچھا ہو تو اندر کا موسم بھی بے حد شگفتہ ہو جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ساون کو شاعر بطور استعارہ اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہیں۔ساون پر بڑی شاعری ہوئی اور نغمے گائے گئے ۔ عام لوگوں میں بھی برسات کا رومانس جاگ اٹھتا ہے ۔ہجرو فراق اور مسرت و شادمانی کے شعر وناغمے کہے اور سنے جاتے ہیں۔ تیری دو ٹکے کی نوکری میرا برسوں کا ساون جائے ۔۔۔جیسے نغمے تخلیق ہوتے ہیں۔
دراصل شعر و ادب کی دنیا تعلق اور رشتہ کی استواری کی دنیا ہے یہ تعلق جو فرد سے بھی ہو سکتا ہے اور کائنات میں موجود دوسری اشیا سے بھی اور اسی تعلق کی سچائی اور تہذیب ہی سے شعر وا دب عبارت ہے ۔موسم انسانی جذبات میں جومحسوس یا غیر محسوس تبدیلی کی وجہ بنتا ہے شاعری اسی تبدیلی سے تحریک حاصل کرتی ہے اور یوں اس تعلق کا رشتہ زمین سے کائنات تک جڑتا چلا جاتا ہے۔ یہ تعلق موسم بہار کے خوشبوں بھرے لمحات میں بھی مضبوط ہوتا ہے اور پت جھڑ کی اداس رتوں میں بھی اور سرما کی طویل سرد راتوں میں بھی ہجر و وصل کے گیت بنتا ہے ۔ ہمارے ہاں دسمبر میں بھی بڑی رومینٹک شاعری ہوتی ہے۔
ساون کا مہینہ باغوں کی خوشبو کا مہینہ ہے۔ ربیل کے پھول مہک اٹھتے ہیں رات کی رانی سولہ سنگھار کرتی ہے درختوں پر لٹکتے آم۔ ٹہنیوں پر چمکتے پکے کالے جامن اور کھجور کے رنگارنگ خوشے دل دماغ میں مہک پیدا کر دیتے ہیں۔ اس مہینے باغوں اور گھروں کے درختوں پر جھولے ڈال کر سکھیاں رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس جھولے جھولتی اور گیت گاتی ہیں۔ برسات کے دن گھروں میں طرح طرح کے پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔ ساون کی بارش میں چرواہے بانسری کے نغموں سے جنگل میں منگل بنا دیتے ہیں۔مجید امجد کا ایک شعر ہے۔
صبحوں کی وادیوں میں گلوں کے پڑاو تھے
دور ایک بانسری پہ یہ دھن پھر کب آ گے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر