ایک خبر کے مطابق حکومت نے سی پیک منصوبے کے تحت بہاولپور کو ٹیکس فری انڈسٹریل زون بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے، اہل بہاولپور کے لئے یہ بہت بڑی خوشخبری ہے، خدا کرے کہ ایسا ہی ہو ، یہ بہاولپور کا حق بھی ہے ۔سی پیک منصوبے کو غلط ٹرن دے کر بہاولپور سے 70 سے 100 کلومیٹر دور کر دیا گیا ، وزیراعلیٰ کے اعلان کے باوجود ابھی تک بہاولپور کو سی پیک سے لنک اپ نہیں کیا گیا ۔
البتہ پچھلے دنوں کمشنر بہاولپور چوہدری آصف اقبال نے خوشخبری دی کہ پنجاب حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ بہاولپور کو سی پیک سے لنک کیا جائے گا ۔ اس کے ساتھ کمشنر نے یہ بھی کہا کہ اب بہاولپور کی ترقی و خوشحالی کا نیا دور شروع ہو گا اور ایک ایسی کتاب بھی شائع ہوگی جو بہاولپور کی عظمت رفتہ کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ ترقی کے امکانات پر پر مواد فراہم کرے گی ۔
ہمارے لاہور کے دوست مجاہد حسین کی ایک فکر انگیز کتاب آئی ہے جس کا نام ’’ بہاولپور۔ خوشحال ریاست سے پسماندہ ڈویژن تک ‘‘ ہے ۔ مجاہد حسین نے بہاولپور کے تاریخی پس منظر کے ساتھ ساتھ محرومی کی داستان بھی بیان کی ہے ۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ون یونٹ کے قیا م 1954ء تک ریاست بہاولپور کا وجود قائم رہا اور نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی ریاست بہاولپور کے سربراہ کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیتے رہے ۔ ریاست کے آخری فرمانروا نے بہاولپور کو ہندوستان کی خوشحال اور فلاحی ریاست بنا دیا تھا ، تعلیم صحت اور روزگار کے معاملے میں ریاست بہاولپور اپنی مثال آپ تھی ۔ یہ ٹھیک ہے کہ کچھ صنعتی ادارے بعد میں قائم ہوئے لیکن ان کا خاکہ اور نقشہ ریاست کے زمانے میں منظور ہوا ، جیسا کہ جیٹھہ بھٹہ خانپور میں شوگر مل کے قیام کیلئے شوگر فارم قائم ہوا ، ہزاروں ایکڑ رقبہ ریاست نے دیا ، رحیم یارخان نے عباسیہ ٹیکسٹائل مل قائم ہوئی ، اسی طرح خانپور میں بہاولپور ٹیکسٹائل مل ، یہ سب ادارے ریاست کے مرہون منت تھے ۔مگر افسوس کہ قیام پاکستان کے بعد سب کچھ تنزلی کا شکار ہوا ، ایشیاء کی بڑی عباسیہ ٹیکسٹائل مل رحیم یارخان اب عباسیہ ٹاؤن کی شکل میں موجود ہے ،اسی طرح بہاولپور ٹیکسٹائل مل خانپور بھی قصہ پارینہ بن چکی ہے ۔
البتہ ہائی سنز شوگر مل جیٹھہ بھٹہ اب حمزہ شوگر مل کی شکل میں نہ صرف چل رہی ہے بلکہ اس میں توسیع بھی ہوئی ہے اور اس کا شمار پاکستان کی سب سے بڑی شوگر مل میں ہوتا ہے۔ بہاولپور کی سربراہان کی تاریخ اس طرح ہے کہ یہ بغداد کے حکمران تھے ، چپقلش کے نتیجے میں مصر گئے ، مصر سے سندھ آئے اور شکار پور کو اپنا پایہ تخت بنایا ۔ سندھ میں یہ خاندان آپس کے جھگڑوں میں بکھر گیا ۔
ان میں سے کچھ لوگ ملتان کے علاقے اوچ شریف آئے ، اوچ شریف کے بزرگوں کے مہمان بنے ، 1727ء میں ملتان کے صوبیدار حیات اللہ خان نے ان کو موجودہ لیاقت پور کے علاقے میں جاگیر عطا کی ، آہستہ آہستہ جاگیر بڑھتی گئی ، پھر عباسیوں نے قلعہ ڈیراور فتح کر لیا اور پھر ایک ریاست کی بنیاد بن گئی ۔ در اصل یہ سب علاقہ ملتان کا حصہ تھا اور ملتان بہاولپور الگ الگ نہیں بلکہ ایک تہذیب، ثقافت اور ایک ہی جغرافیہ کا حصہ ہیں ۔
یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ داؤد خان کی اولاد داؤد پوترے کہلواتی ہے اور انہوں نے ریاست بہاولپور کی بنیاد رکھی ۔1739ء میں شہنشاہ نادر شاہ نے صادق محمد خان اول کو نواب کا خطاب عطا کیا گیا ۔ ریاست بہاولپور ابتداء میں کئی سالوں تک کچھ چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا مجموعہ تھی اور جن میں سے ہر ایک حکمران کو انتظامی اختیارات اور مالکانہ حقوق حاصل تھے اور محض برائے نام نواب کو اپنا بالادست حاکم تسلیم کرتے تھے ۔ نواب صادق محمد خان اول کے پوتے نواب بہاول خان عباسی پہلے حکمران تھے جنہوں نے تمام چھوتے داؤد پوتہ رئیسوں کو اپنے حلقہ اطاعت میں داخل کرتے ہوئے 1748ء میں ایک متحد ریاست قائم کی ۔
1833ء میں راجہ رنجیت سنگھ کی سکھ افواج نے بہاولپور پر چڑھائی کی تو اس وقت نواب بہاولپور نے انگریزوں سے مدد کی درخواست کی ۔ انگریزوں نے ریاست کو سکھوں سے بچا لیا اور اس وقت سے برطانوی عہد کی ایک دیسی ریاست بن گئی۔
بہاولپور پہلی ریاست تھی جس نے 3 اکتوبر 1947ء کو پاکستان کے ساتھ الحاق کیا ، جس کا سہرا امیر بہاولپور نواب صادق محمد خان عباسی خامس کے سر تھا ۔ 1949ء میں جب بہاولپور بہاولپور کی افواج کو پاکستانی افواج کے ساتھ شامل کیا گیا تو ان کے اقتصادی تقاضوں کو پوراکرنے کیلئے نواب صاحب نے ایک کروڑ 25لاکھ کی خطیر امداد بھی دی ۔ افسوس کہ بہاولپور رجمنٹ کو بلوچ رجمنٹ میں ضم کیا گیا، اسی بناء پر وسیب رجمنٹ کا مطالبہ ہو رہا ہے۔
1955ء میں ریاست بہاولپور کو وحدت مغربی پاکستان ( ون یونٹ ) میں ضم کیا گیا ،لیکن 1970ء میں جب ون یونٹ کو منسوخ کیا گیا تو بہاولپور کو ایک ڈویژن بنا دیا گیا ۔ جس پر بہت بڑا احتجاج ہوا ، پہلے بہاولپور صوبہ محاذ بنا ، جسے بعد میں سرائیکی صوبہ محاذ میں تبدیل کر دیا گیا۔ نواب بہاول خان عباسی اول نے اس کی بنیاد رکھی تو شہر کے گرد ایک فصیل تعمیر کرائی ۔
فصیل باقی نہیں رہی پر شہر میں داخل ہونے کے جو چھے دروازے بنائے گئے ہیں ان کے نام اور آثار اب بھی باقی ہیں ، ان میں شکار پوری گیٹ ،بوہڑ گیٹ ، ملتانی گیٹ، بیکانیری گیٹ ( اب یہ فرید گیٹ کے نام سے مشہورہے ) ، احمد پوری گیٹ اور دراوڑی گیٹ شامل ہیں ۔شاہی بازار سب سے اہم اور خوبصورت ہے۔ مچھلی بازار اور گری گنج قابل ذکر ہیں ،اندرون شہر چوک کے نزدیک جامع مسجد ہے جو بہاولپور کی سب سے قدیم اور عظیم مسجد ہے ۔
بہاولور کی جامعہ اسلامیہ ، صادق پبلک سکول ، صادق ایجرٹن کالج ،قائد اعظم میڈیکل کالج ، وکٹوریہ ہسپتال ، انجینئر کالج ، ہائی ، مڈل پرائمری اور فنی تعلیم کے سکول موجود ہیں ۔
پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز اور ادارے ہیں ، ریڈیو اسٹیشن بھی موجود ہے، کئی مقامی اور قومی اخباروں کے دفاتر بھی موجود ہیں ،فوجی چھاونی بھی بنائی گئی ۔ صنعتی مراکز بھی ہیں ۔ گھی ، ٹیکسٹائل ، ہوزری اور پلاسٹک کی مصنوعات کے کئی کارخانے ہیں ۔
اشرف شوگر ملز بھی اِدھر ہی ہے ۔ بین الاقوامی معیار کا اسپورٹس سٹیڈم ہے، عجائب گھر اور چڑیا گھر بھی ہیں ۔ ڈویژن کا صدر مقام ہونے کے باعث تمام محکموں کے ڈویژنل دفاترر بھی ہیں ، لاہور ہائی کورٹ کا بینچ بھی موجود ہے ، سیشن کورٹ اور زیریں عدالتیں بھی موجود ہیں ، نور محل ، گلزار محل ، دوست خانہ اور قدیم طرز رہائشی والی دو آبادیاں ماڈل ٹاؤن اور سٹیلائٹ ٹاؤن ہیں ۔ مٹی کے نفیس برتن دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی دلچسپی کی وجہ سے اپنا بنا لیتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر