دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زندہ ہیں ایسے شہر میں ۔۔۔ گلزار احمد

ایسی فضا کے قہر میں … ایسی ہوا کے زہر میں… زندہ ہیں ایسے شہر میں ..اور کمال کیا کریں …اور بہت سی الجھنیں طوق و رسن سے بڑھ کے ہیں

بجلی کی لوڈشیڈنگ اور جرمانوں سے عاجز ڈیرہ کے لوگ پہلے احتجاجی جلوس وغیرہ نکالتے ہیں ۔پھر اخباروں اور سوشل میڈیا پر خبریں چلاتے ہیں اور کچھ دوست واپڈا کے خلاف اپنی پوسٹ میں دل کی بھڑاس نکال کر اس پوسٹ میں مجھے ٹیگ کر دیتے ہیں اور دلچسپ سوال پوچھتے ہیں۔۔کہ ڈیرہ یتیم ہے یا اس کا ولی وارث کوئی نہیں جو 48 ڈگری گرمی میں لوڈیڈنگ چل رہی ہے؟
اب میں ان سوالوں کا کیا جواب دوں؟
منیر نیازی نے کہا ہے۔۔۔
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے ۔۔
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے۔۔ خراب صدیوں کی بے خوابیاں تھیں آنکھوں میں ۔۔۔
اب ان بے انت خلاں میں خواب کیا دیتے۔۔

بھائی لوگو کئی دفعہ گزارش کر چکا ہوں بجلی کے نام پر ملک کو پرائیویٹ پاور پروڈیوسر کے پاس گروی رکھوا دیا گیا۔ اور یہ مبارک کام ہمارے منتخب نمائندوں اور حکمرانوں نے اس صفائی سے کیا کہ پاکستان کے ہاتھ پاں باندھ کے رکھ دیے اب آپ نہ آگے چل سکتے ہیں نہ پیچھے مڑ سکتے ہیں۔ واپڈا جیسا دنیا کا بہترین محکمہ کنگال ہو کے رہ گیا ۔اب واپڈا ان سفید ہاتھیوں کے لیے دن رات جرمانے کر کے رقم جمع کرتا ہے اور گالیاں بھی کھاتا ہے۔ دو دن پہلے واپڈا کا لائین مین چاہ سید منور میں بجلی کے کھمبے پر کام کرتے کرنٹ لگنے سے شدید زخمی ہو گیا اور صرف اللہ کے کرم سے جان بچی۔کیونکہ واپڈا کے پاس سیفٹی گاڑیاں نہیں ہیں

جن کے اوپر کھڑے ہو کر بے خطر مرمت کا کام کیا جا سکتا ہے۔ اب واپڈا کے پاس نہ تاریں تبدیل کرنے کا بجٹ ہے نہ ٹرانسفارمر خریدنے اور مرمت کرنے کا پیسہ ہے۔ سسٹم ہر گھنٹے ٹرپ کر جاتا ہے۔ڈگری کالج ڈیرہ فیڈر کے ساتھ مدینہ کالونی۔یوسف ٹاون۔گلستان چوک کے کم و بیش ساٹھ ستر ٹرانسفارمر ہیں ۔اگر ایک ٹرانسفارمر بھی روز پھٹ جائے تو اسے ٹھیک کرنے کے لیے اڈہ بند کرنا پڑتا ہے یوں سارا علاقہ بجلی سے محروم ہو جاتا ہے۔ بجلی کے غیر ملکی پرائیویٹ پروڈیوسرز کے ساتھ تیس تیس سال کے معاھدے ہیں

اور موجودہ حکومت اگر ICJ کی عدالت کیس لے جائے تو ہار جائیگی کیونکہ معاہدوں میں ہم نے ملک کا سب کچھ لکھ کے اپنے ہاتھ کاٹ دیے ہیں۔ ایسے معاھدوں کے الٹا اربوں ڈالر جرمانے ہم پر بین الاقوامی عدالت لگا دیتی ہے۔لوڈ شیڈنگ سے تنگ ایک بچی نے مجھے آج لکھا کیا ہم اس ملک سے ہجرت کرکے دوسرے ملک چلے جائیں؟ میں کیا جواب دیتا بس سوچ کا گھن چکر گھومنے لگا۔میں نے سوچا ہم یعنی میری عمر کے لوگ وہ بد نصیب نسل ہیں کہ اپنی آنکھوں کے سامنے ملک ٹوٹتے دیکھا۔ہماری نسل نے کرپشن۔ملاوٹ۔بلیک مارکیٹنگ اور ناانصافی کی بنیادیں رکھیں اور آنے والی نئی نسل کا مستقبل تاریک کر دیا۔

ہم وہ بد نصیب نسل ہیں جن کو زلزلے۔سیلاب۔بم دھماکے۔خودکش اور ڈرون حملے کرونا ٹھیک نہ کر سکے اور آج بھی بے انصافی کا دور دورہ ہے۔ہم نے ماضی کے ظالم حکمرانوں سے نجات کے لیے جانیں قربان کیں نئیے حکمرانوں کو لانے کے لیے ناچ ناچے مگر مقدر کی سختی بڑھتی گئی۔ پہلے والے حکمران کم از کم ہماری بات سنتے تو تھے مگر عمل نہیں کرتے تھے اب والے تو ہماری بات سننا گوارا نہیں کرتے۔ ہم نے علی امین خان کو کشمیر اور بلتستان کے مسلے حل کرنے کے لیے ووٹ نہیں دیے تھے بلکہ ہماری بجلی گیس پانی کے مسائل تھے۔عمران خان اسے چھین کر کشمیر لے گیا اور جو صوبے کی وزارت تھی

وہ بھی واپس لے لی۔ بہرحال بھائی لوگو نہ لوڈشیڈنگ ختم ہو گی اور نہ جرمانے کم ہونگے ۔آپ لوگوں کے لیے میری دعا ہے کہ اللہ ایک ہفتے ساون کا بادل بھیج دے اور موسم ٹھنڈا ہو جائے۔۔ حکومت جرمانوں کے پیسوں سے کم از کم لائن مینوں کو محفوظ گاڑیاں اور لباس فراہم کرے تاکہ ٹرانسفارمر ٹھیک کرتے وقت اڈہ نہ کاٹنا پڑے۔ اس بات بھی غور کیا جائے کہ پنجاب میں لوڈشیڈنگ کم ہے اور KPK جو خود بجلی۔گیس کی پیداوار میں خود کفیل ہے اس عذاب میں کیوں مبتلا ہے؟ دوسرا ڈیرہ وال اس بات کو بھی ذھن میں رکھیں

کہ نہر کے پانی کا جو کسان آخر ٹیل پر ہوتا ہے اس کو سب سے کم پانی ملتا ہے ہم صوبہ سرحد کا ٹیل کا ضلع ہیں یہاں بچا کھچا بجٹ ۔بجلی ۔گیس اگر پہنچ جائے تو اللہ کا شکر ادا کیا کرو ۔ ہمارے سیاستدان صوبائی خود مختاری پر تو خوب زور دیتے ہیں لیکن ضلعی حکومت کی خود مختاری کی بات گول کر جاتے ہیں۔ہر منتخب حکومت نے ضلعی حکومتوں اور بلدیاتی نظام سے جان چھڑائی اور ان کے الیکشن ملتوی کیے تاکہ گلیاں ہو جانڑ سنجیاں تے وچ سانول یار پھرے۔ خود ڈیرہ میں رمضان شریف میں جب بعض علاقوں میں بجلی کا بحران تھا تو لوگوں نے واپڈا کے خلاف خوب شور مچایا کہ روزے ہیں بجلی بند ہے ۔واپڈا کے ایک اہلکار نے ان کو خوب جواب دیا۔اس نے مظائیرین کو کہا کہ۔۔ روزے تو چودہ سو سال سے فرض ہیں اور مسلمان اس وقت بھی روزے رکھتے تھے جب واپڈا نہیں بنا تھا اور بجلی بھی نہیں تھی۔تم لوگ زیادہ ٹر ٹر مت کرو اور روزے رکھو ۔اب آپ میری طرف سے یہ شعر قبول فرمائیں۔

ایسی فضا کے قہر میں … ایسی ہوا کے زہر میں… زندہ ہیں ایسے شہر میں ..اور کمال کیا کریں …اور بہت سی الجھنیں طوق و رسن سے بڑھ کے ہیں۔۔
ذکر جمال کیا کریں ، فکرِ وصال کیاکریں..
ڈھونڈ لئے ہیں چارہ گر، ہم نے دیارِ غیر میں…گھر میں ہمارا کون ہے ، گھر کا خیال کیا کریں…چنتے ہیں دل کی کرچیاں .. بکھری ہیں جو یہاں وہاں..
ہونا تھا ایک دن یہی، رنجِ مآل کیا کریں..

About The Author