گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستانی سیاست دانوں نے ایک دوسرے کو چور،لٹیرے اور نکما پکارنے کا چلن اختیار کرلیا ہے۔ دُنیا بھر کی سیاست میں یہ رویہ معمول کی صورت اختیار کرچکاہے۔سوشل میڈیا نے اسے مزید شدت فراہم کی۔پارلیمان کے مگر اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔بنیادی مقصد اس ادارے کا قانون سازی ہے۔یہ عمل کافی توجہ اور سنجیدگی کا طلب گار ہوتا ہے۔
گزشتہ چار دنوں میں قومی اسمبلی کے روبرو کئی اہم ترین قانون پیش ہوئے۔عام شہری ہوتے ہوئے ہمارا یہ بنیادی حق تھا کہ ہمیں تفصیلی طورپر سمجھانے کی کوشش ہوتی کہ مذکورہ قوانین کی متعارف کروانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ اپوزیشن کو ان کی چند شقوں پر کونسے تحفظات ہیں۔ ایسا مگر ہو نہیں پایا۔ حکومت یہ ثابت کرنے میں مصروف رہی کہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)کی بلیک لسٹ سے بچانے کے لئے چند قوانین کا نفاذ ضروری ہے۔ ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں حکومت کی اس ضمن میں مدد کرنے کے بجائے مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی یہ تقاضہ کررہی ہیں کہ اگر تعاون درکار ہے تو نیب کے قوانین میں نرمی لائی جائے۔عمران حکومت کرپشن کیخلاف کسی سمجھوتے کو مگر تیار نہیں۔ ’’کپتان‘‘ ڈٹ گیا۔فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر کرپشن پر سمجھوتہ نہ کرنے کی وجہ سے حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے تب بھی لچک نہیں دکھائی جائے گی۔
بدھ کے دن شدید ترین ہنگامہ آرائی کو یکسوئی سے نظرانداز کرتے ہوئے عمران حکومت نے لہٰذا قومی اسمبلی سے دو قوانین منظور کروالئے ۔تکنیکی اعتبار سے یہ نئے قوانین نہیں۔ پہلے سے موجود دو قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے انہیں مزید سخت گیر بنادیا گیا ہے۔پہلا قانون ان ’’ذمہ داریوں‘‘ کو نبھاتا نظر آتا ہے جو اقوام متحدہ کا رکن ملک ہوتے ہوئے پاکستان سے درکار تھیں۔ دوسرا قانون ’’دہشت گردی‘‘ سے متعلق تھا۔اصولی طورپر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر قانون قومی اسمبلی میںکھڑے ہوکر سادہ زبان میں نئی ترامیم کی تفصیلات اور انکی ضرورت کو بیان کرتے۔ان کی تقریر کے بعد اپوزیشن کی جانب سے آئین اور قانون کی باریکیوں سے کامل آگاہ کوئی نمائندہ جوابی تقریر کرتا۔تمام تر شورشرابے اور غصے کا رُخ مگر اس جانب مرکوز رہا کہ پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ سے نکلوانے کے لئے ضروری قرار پائی ترامیم کے بدلے میں اپوزیشن نیب قوانین میں ترامیم لانے کا تقاضہ کررہی تھی یا نہیں۔گزشتہ منگل کی شام وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایوان میں ’’اچانک‘‘ وارد ہوئے تھے۔وہاں تشریف لانے کے بعد انہوں نے ایک طولانی تقریر فرمائی۔ اس کے ذریعے بہت مہارت سے کہانی یہ پھیلائی کہ ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کے تقاضوں کو خود غرضی سے نظرانداز کرتے ہوئے اپوزیشن اپنے رہ نمائوں کو نیب کے شکنجے سے رہائی کی طلب گار ہے۔ ان کی دھواں دھار تقریر کے بعد اسمبلی کا اجلاس بدھ تک ملتوی کردیا گیا۔اپوزیشن کو وضاحت کا موقعہ ہی میسر نہ ہوا۔
بدھ کے روز خواجہ آصف صاحب کو یہ موقع مل گیا۔ تقریر ان کی بھی کافی طویل تھی۔شاہ محمود قریشی کی ذات مگر اس کی حقیقی زد میں رہی۔’’قبروں کی کمائی‘‘ کے حوالے سے انہوں نے جو رکیک مگر چسکہ بھرے فقرے کسے انہوں نے ریگولر سے زیادہ سوشل میڈیا پر رونق لگادی۔ اس تقریر کے بعد دونوں جانب کے اراکین آگ بگولہ ہوگئے۔ایوان میں ’’نظم‘‘ بحال کرنے کی خاطر تین وقفے بھی لئے گئے۔معاملات مگر سدھرے نہیں۔بالآخر اپنی اکثریت کے بل بوتے پر عمران حکومت نے قومی اسمبلی سے اپنی خواہش کے قوانین منظور کروالئے۔ یہ کالم چھپنے تک سینٹ بھی مذکورہ قوانین کی منظور دے چکا ہوگا۔شاہ محمود قریشی صاحب نے ’’قومی مفاد‘‘ کا سوال اٹھادیا تھا۔اپوزیشن اس ’’مفاد‘‘ کو نظرانداز کر نہیں سکتی۔ سینٹ میں بھاری اکثریت کی حامل ہونے کے باوجود حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے کو مجبور ہوجائے گی۔میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی مگر اس امر کے بارے میں قطعاََ نابلد رہیں گے کہ اقوام متحدہ اور FATFکی ہدایت کے مطابق پہلے سے موجود قوانین میں کونسی ترامیم ہوئی ہیں۔نہایت دیانت داری سے اعتراف کرتا ہوں کہ 1985سے پارلیمانی امور پر رپورٹنگ کے دعوے دار مجھ جیسے صحافی کو یہ فریضہ سرانجام دینا چاہیے تھا۔ اپنے دفاع میں صرف یہ التجا کرسکتا ہوں کہ گزشتہ چند برسوں سے میں عملی رپورٹنگ سے ریٹائر ہوچکا ہوں۔اب اُردو اور انگریزی میں کالم لکھ کر ’’دانشوری‘‘ بگھارتا ہوں۔ مجھ میں جوان رپورٹر والا تجسس،لگن اور طاقت موجود نہیں رہے۔میری وضاحت جواز تراشی ٹھہراکر ہر اعتبار سے رد کی جاسکتی ہے۔اپنی کوتاہی کا اعتراف مگر مجھے یہ سوال اٹھانے سے روک نہیں سکتا کہ ہماری ذہن سازی پر بھرپور توانائی سے مامور ہوئے مقبول ترین صحافیوں نے اس ضمن میں اپنا فریضہ کیوں ادا نہیں کیا۔اکھاڑے سے باہر بیٹھے پہلوانی کے ’’خلیفہ‘‘ ہوئے ’’بوڑھے ماہر‘‘ کی طرح میں یہ اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ بدھ کے روز عجلت میں جو ترامیم منظور ہوئی ہیں ان کے سنگین مضمرات ہوسکتے ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ ہماری حکومتیں اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے ایسے قوانین بے دریغ استعمال کرتی ہی ہیں جو بنیادی طورپر منشیات فروشی یا دہشت گردی جیسے گھنائونے جرائم کے تدارک کے لئے تعارف کروائے جاتے ہیں۔1970کی دہائی میں استاد دامن جیسے درویش شاعر کی کھولی سے’’بم‘‘ برآمد ہوا تھا۔ چودھری ظہورالٰہی مرحوم کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ قائم ہوا۔تاریخ کو نظرانداز کرتے ہوئے سرعت سے ’’حال‘‘ پر توجہ کریں تو گزشتہ برس پاکستان مسلم لیگ (نون) کے رانا ثناء اللہ کے ساتھ ہوا سلوک یاد کرنا ہوگا۔ بدھ کے روز اپنی تقریر میں خواجہ آصف نے اس واقعہ کاحوالہ بھی دیا۔اپوزیشن جب اس خدشے کااظہار کرتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف بنائے قوانین میں ہوئی سخت گیر ترامیم اس کے خلاف بھی استعمال ہوسکتی ہیں تو اس خدشے کو بے بنیاد قرار دینا بہت مشکل ہے۔یہ لکھنے کے بعد کامل ڈھٹائی سے یہ اعتراف کرنابھی ضروری ہے کہ ہماری سیاست میں حکومتیں ’’قانونی طور‘‘ پر میسر اختیارات کو انتہائی ڈھٹائی اور سفاکی کے ساتھ اپنے سیاسی مخالفین کی زندگی کو اذیت دہ بنانے کے لئے استعمال کرتی رہی ہیں۔ہم اس کے عادی ہوچکے ہیں۔’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘ کہتے ہوئے مصیبت میں گھرے فرد کو ’’وقت اچھا بھی آئے گاناصرؔ‘‘ کی امید دلاتے رہتے ہیں ۔’’انسانی حقوق‘‘ اور ان کا احترام ہمارے اجتماعی رویوں میں کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ ’’شریکا‘‘ صدیوں سے ہماری ثقافت کاکلیدی رویہ ہے۔انٹرنیٹ کی بدولت ہماری سیاست میں اندھی نفرت وعقیدت کی بنیاد پر جو تقسیم شدید تر ہوئی اس نے ’’شریکا‘‘ سے جڑے رویوں کو توانا تر بنادیا ہے۔مجھے خود کو ’’قومی مفادات‘‘ کا واحد نگہبان ثابت کرنے کا فتور کبھی لاحق نہیں رہا۔دو ٹکے کا صحافی ہوتے ہوئے آپ سے مگر فریاد کروں گاکہ بدھ کے روز ’’اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی ہدایات کی تعمیل ‘‘کرتی جو ترامیم منظور ہوئی ہیں ان کا مسودہ تلاش کرنے کی کوشش کریں۔اسے غور سے پڑھیں تو اندازہ ہوگاکہ اب ’’دہشت گردی‘‘ کے نام پر کیسے کیسے افراد کو گھیرے میں لیا جاسکتا ہے۔اس کی وجہ سے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بھی چند مشکلات درپیش آسکتی ہیں۔کسی قانون کا مسودہ تیار کرنے کے لئے بہت مہارت درکار ہوتی ہے۔ہماری وزارتِ قانون میں جو لوگ اسے تیار کرتے ہیں انہیں Draftsmanکہا جاتا ہے۔ان میں سے چند لوگ اپنے کام کے اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے کئی برس گزرجانے کے بعد بھی وزارتِ قانون انہیں ’’کنٹریکٹ‘‘ پراپنے لئے کام کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔اس ضمن میں تین چار افراد کے نام بھی لے سکتا ہوں۔ وہ غیر سیاسی افراد ہیں۔حقیقی معنوں میں ٹیکنوکریٹ۔اپنے کام کے ماہر ۔قانونی زبان لکھنے کے حتمی ہنر مند۔ قانونی باریکیوں سے قطعاََ نابلد ہوتے ہوئے بھی مجھے مذکورہ ترامیم کی زبان نے پریشان کردیا ہے۔ربّ کریم سے فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ اس ضمن میں میرے وسوسے بھرے ذہن میں جو خدشات امڈے ہیں وہ بالآخر بے بنیاد ثابت ہوں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر