چند دن پہلے بیٹے کو شک ہوا کہ اس کا کمپیوٹر ٹھیک نہیں چل رہا۔
اس نے کہا کہ مجھے ریم بڑھانی پڑے گی۔
میں نے امیزون پر آرڈر کی۔ ریم آگئی۔ مسئلہ حل نہیں ہوا۔
بیٹے نے ریم اتار کے دی۔ میں نے واپس بھیج دی۔ پیسے جس کارڈ سے گئے تھے، اسی میں واپس آگئے۔
بیٹے نے کہا کہ شاید گرافک کارڈ کا مسئلہ ہے۔
میں نے بیسٹ بائے پر آرڈر کردیا۔ گرافک کارڈ آگیا۔ مسئلہ حل نہیں ہوا۔
بیٹے نے کارڈ اتار کے دے دیا۔ میں خود واپس کر آیا۔ پیسے ہاتھ کے ہاتھ مل گئے۔
بیٹے نے کہا کہ میں کمپیوٹر بیچنا چاہتا ہوں۔ جو پیسے ملیں گے، ان سے دوسرا خریدوں گا۔ میں نے کہا، جیسا جی چاہے۔
اس نے کسی ویب سائٹ پر تفصیل درج کی۔ 24 گھنٹوں سے پہلے مناسب آفر آگئی۔ خریدار خود آکر کمپیوٹر لے گیا۔ کیش دے گیا۔
بیٹے نے مجھے بتایا کہ پارٹس الگ خرید کر کمپیوٹر بنائیں تو نیا کمپیوٹر خریدنے کے مقابلے میں دو ڈھائی سو ڈالر سستا پڑتا ہے۔
بیٹا مجھے بٹھاکر گاڑی چلا کر مائیکرو سینٹر لے گیا۔ کمپیوٹر خریدنے کے بجائے تمام نئے پارٹ الگ الگ خریدے۔
میں نے سوچا کہ دیکھتے ہیں، لڑکا کیا کرتا ہے۔
اس نے گھر آکر پورا کمپیوٹر بنایا۔ مجھے چلا کر دکھایا۔ حیران کن پرفارمنس تھی۔
کل سب کھول کر ڈبوں میں پیک کیا اور واپس کر آیا۔ پیسے اکاؤنٹ میں واپس آگئے۔
نوجوان ابھی ساڑھے 16 سال کا ہے۔ خدا جانے کیا کرنا چاہتا ہے۔
ایک طرف اس کی حرکتیں حیران کررہی ہیں اور دوسری جانب امریکیوں کی خرید و فروخت کی روایت۔
سستی سے سستی یا مہنگی سے مہنگی شے لے کر واپس کردیں۔ ان کے ماتھے پر بل نہیں پڑتا۔
خوش دلی سے مال واپس لیتے ہیں اور فوراً پورے پیسے واپس کردیتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر