دسمبر 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

Wusat Ullah Khan

شکر کہ عمرِ عزیز کا ہاتھی نکل گیا ۔۔۔ وسعت اللہ خان

کیفے اور چائے خانے کیا تھے گویا غیر رسمی یونیورسٹیاں تھیں جہاں گفتگو، سوال، رد، قبول اور تخلیقی غیبت داخلِ نصاب تھی۔

کوئی بہت زیادہ پرانی بات نہیں۔ بیس پچیس برس اًدھر کا قصہ ہے (چوتھائی صدی یوں نہیں کہہ رہا کہ بہت لمبا زمانہ نہ لگے)۔

یہ تب کی بات ہے جب خواندہ طبقات کی روزمرہ گفتگو میں سیاست پہلے نمبر سے دسویں نمبر تک نہیں چھائی رہتی تھی۔ بلکہ سیاست اگر بحث کے پہلے پائیدان پر تھی تو دوسرے ہی پائیدان پر ادبی گفتگو و غیبت براجمان تھی اور پھر تیسرے چوتھے نمبر پر دیگر سماجی و مقامی و قومی و بین الاقوامی مسائل زیرِ گفتگو رہتے تھے۔

یہ تب کی بات ہے جب وسطی پنجاب میں ریاستی سرپرستی میں راتوں رات ترقی کے سبب موٹر سائیکل سے سیدھے پجیرو پر چڑھ جانے کا کلچر پوری طرح پروان نہیں چڑھا تھا۔ برسرِ عام کسی سے پیسے لے کر وہیں گننا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ چیرمین کا کلف زدہ لٹھا اور کالی چارسدہ چرمی چپل اشرافی طاقت کا استعارہ نہیں بنی تھی۔ سیاسی ورکر نرا جی سر، سر جی جاپنے والے دولے شاہ کے چوہے میں تبدیل نہیں ہوا تھا بلکہ اپنے دماغ سے خود بھی تھوڑا بہت کام لینا جانتا تھا اور اپنے طور پر کتابوں اور فلمی و غیر فلمی رسالوں کی ورق گردانی بھی کر لیتا تھا۔ کبھی سیاسی بحث میں پورے اخلاص سے کود پڑتا تھا۔ محض لیڈر کی اچھالی گیند دانتوں میں پکڑ کے لانے کا خوگر نہیں تھا بلکہ خود بھی اپنی رائے کی گیند اکثر ہوا میں اچھال دیا کرتا تھا۔

یہ تب کی بات ہے جب کراچی اور صوبے کے دیگر شہری مراکز میں تنگ نظر قوم پرستی ابھی نہیں ابھری تھی اور اردو ثقافت ابھی کرتے پاجامے، واسکٹ اور سلیم شاہی جوتی تک محدود نہیں ہوئی تھی۔ لوگ کسی بھی کھلی یا بند جگہ، سڑک، کیفے یا گلی کے تھڑے پر بنا دائیں بائیں آگے پیچھے دیکھے اور ویرانے میں بھی سرگوشی اوڑھے بغیر من کی بات کہہ ڈالتے تھے اور یہ خطرہ نہیں تھا کہ رات کے پچھلے پہر کوئی کنڈی بجا کے کہے گا کہ چچا میاں ہم پہلی اور آخری بار سمجھا رہے ہیں کہ سوچ سمجھ کے بولا کریں۔ اس سے پہلے کہ کوئی آڑا ترچھا لمڈا یونٹ یا سیکٹر تک بات پہنچا دے۔ (آخری جملہ سندھ کے کسی شہری علاقے والے کو سمجھانے کی ضرورت نہیں اور کسی دوسرے صوبے کے شہری کو سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں)۔

یہ تب کی بات ہے جب رسا چغتائی، رئیس فروغ، سلیم احمد، قصری کانپوری، ساقی امروہوی، محشر بدایونی، راغب مراد آبادی، صہبا اختر، محسن بھوپالی، پروفسیر کرار حسین، قمر جمیل کی جگہ ابھی اصغر کمانڈو، ناصر چنگاری، فہیم مینٹل، شہاب کنگلہ، شبیر لنگڑا، ضیغم کن ٹٹا، نعمان چیتا، نسیم ہاتھی کراچی کا تعارف نہیں بنے تھے۔

یہ تب کی بات ہے جب خط لکھے، پڑھے اور سنائے جاتے تھے۔ رومانی خطوط کی اپنی دنیا تھی اور ادبی خطوط کی الگ اہمیت۔ فیکس مشین تو آ گئی تھی مگر انٹرنیٹ یا ای میل کا نام کسی نے نہ سنا تھا۔

یہ تب کی بات ہے جب سترہ اٹھارہ برس کے بچوں کو وڈیو گیمز میسر نہیں تھا لہذا وہ چائے خانوں میں عصر کے بعد سے بیٹھنے والے ادھیڑ عمر اور بوڑھے تخلیق کاروں کی گفتگو خاموشی سے سنا کرتے تھے۔ یہی گفتگو ان نوجوانوں کا لسانی و تہذیبی تربیتی نصاب تھا جو غیر محسوس انداز میں ان کی نفسیات اور رویوں میں بتدریج رچ بس جاتا۔

کیفے اور چائے خانے کیا تھے گویا غیر رسمی یونیورسٹیاں تھیں جہاں گفتگو، سوال، رد، قبول اور تخلیقی غیبت داخلِ نصاب تھی۔ اس یونیورسٹی میں داخلے کے لیے بظاہر کوئی ٹیسٹ یا انٹرویو نہیں تھا مگر سطحی و اتھلے دماغ ایک آدھ ہفتے بھر میں ہی فرار ہو جاتے۔ جو رہ جاتے وہ پھر ایک نئی دنیا کے نشے میں داخل ہو جاتے۔

یہ تب کی بات ہے جب چکن بریانی اور تکہ کلچر گلی گلی نہیں پہنچا تھا اور ان کل موہوں نے چائے، کیک رس، پیٹیز والے ریستورانوں کو بے دخل و رسوا نہیں کیا تھا۔ اور چائے ابھی دودھ پتی میں نہیں بدلی تھی اور پانی پتی اور دودھ والی نجیب چائے نے کٹ چائے کہلانا شروع نہیں کیا تھا اور چائے کے کپ کا حجم ہر سال نصف انچ گھٹ جانے کا چمتکار شروع نہیں ہوا تھا اور پانچ روپے کے کپ کے سہارے کم ازکم ایک پوری شام کیفے سفید پوش میں بیٹھ کر گذاری جا سکتی تھی۔

یہ تب کی بات ہے جب نہ پڑھنے والے بھی اتوار کے دن فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں کے ٹھیلوں، اسٹالوں اور چھابوں کے آس پاس منڈلاتے تھے۔ کتابوں کی دوکانیں تالا بند تو نہیں ہوئی تھیں مگر ان پر زوالِ آفتابِ علم کے سائے گہرے ہونے شروع ہو گئے تھے۔

یہ تب کی بات ہے جب انسان ایک دوسرے سے فضول موضوعات پر ہی سہی مگر گھنٹہ آدھا گھنٹہ نکال کر اچھی بری تلخ و شیریں بات کرنے کے عادی تھے۔ انسان ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے بھی تھے اور منہ بھی بسور لیتے تھے۔ وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ آپ کو شاید پہلے بھی کہیں دیکھا ہے بلکہ انھیں دوسرے انسانوں کے نام بھی یاد رہتے تھے۔

یہ انسان اور کیسا چل رہا ہے، اور سب ٹھیک ہے، اور گھر میں سب خیریت ہے، اور کیا ہو رہا ہے، اور سنائیے جیسے لایعنی فقرے بول کر جان نہیں چھڑاتے تھے بلکہ ایک دوسرے کے بارے میں بنیادی معلومات رکھتے تھے۔

اور پھر ایک دن اینڈورائڈ فون آ گیا اور سب ختم ہو گیا اور سب نیا ہو گیااور سب بدل گیا۔ میرے اور میرے باپ کے بیچ نسل بھر کا ذہنی فاصلہ تھا۔ میرے اور میری اولاد کے بیچ دس نسل کا فاصلہ ہے اور میرے اور میرے نواسوں اور پوتیوں کے بیچ کی دنیا میں زمین اور مریخ کے برابر ذہنی فاصلہ ہے۔

بس آخری چند برس رہ گئے ہیں قدرتی ذہانت کے تصرف میں۔ جس تیزی سے مصنوعی ذہانت فرد سے ریاست تک ہر شے پر قبضہ کر رہی ہے، اس کے پیشِ نظر مجھے تو بے حد خوشی ہے کہ عمر عزیز کا بیشتر ہاتھی ماہ و سال کے ناکے سے بخیریت و باعزت گذر گیا۔ اب بس دم باقی ہے وہ بھی کسی دم پار ہوا چاہتی ہے۔ اور کتنی خوش قسمتی چاہیے؟

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

About The Author