نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خانیوال کا پہلا انگلش میڈیم اسکول۔۔۔مبشرعلی زیدی

اسکول میں داخل ہونے سے پہلے مجھے الف ب پ، اے بی سی ڈی اور سو تک اردو اور انگریزی میں گنتی یاد ہوچکی تھی۔

قائداعظم پبلک اسکول خانیوال کا پہلا انگلش میڈیم اسکول تھا۔ اسے باری صاحب نے قائم کیا تھا۔

مجھے تفصیلات کا علم نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ یہ اسکول 1970 کے عشرے کے دوسرے نصف میں قائم کیا گیا ہوگا۔ میرے پاس پہلی جماعت کا رزلٹ کارڈ محفوظ ہے۔ اس وقت تک اسکول انتظامیہ اپنے نام کے کارڈ نہیں چھپوا سکی تھی۔ رزلٹ کارڈ پر علامہ اقبال اسکول لکھا ہے جسے قلم سے کاٹ کر اپنے اسکول کا نام لکھا گیا ہے۔

ایک دن بابا کسی دوست کے ساتھ مجھے باری صاحب کے گھر لے گئے تھے۔ انھوں نے داخلے کی بات کی تو باری صاحب نے کہا، آپ کا بچہ ابھی چھوٹا ہے۔ جب پانچ سال کا ہوجائے، تب داخلے کے لیے لائیں۔

داخلے کے دن امی اسکول چھوڑنے گئی تھیں۔ واپس جانے لگیں تو میں نے بہت شور مچایا۔ اسی دن یا شاید اگلے دن میری پڑوسن اور ہم عمر رانی کو اسی اسکول میں داخل کروایا گیا تو مجھے کچھ تسلی ہوئی۔

میرے گھر کے قریب اسکول کی ٹیچر میڈم قیصرہ رہتی تھیں۔ امی صبح مجھے ان کے گھر پہنچا دیتیں اور میں ان کے ساتھ اسکول جاتا۔ وہ بڑی کلاس کو پڑھاتی تھیں۔ میں ان کے کلاس روم کے باہر کرسی پر بیٹھ کر نائس بسکٹس کھاتا رہتا۔

اسکول میں داخل ہونے سے پہلے مجھے الف ب پ، اے بی سی ڈی اور سو تک اردو اور انگریزی میں گنتی یاد ہوچکی تھی۔

ایک دن میڈم قیصرہ نے مجھے کلاس ون میں بٹھادیا۔ اس کی ٹیچر بہت غصیلی تھیں اور ہر وقت ڈانٹتی رہتی تھیں۔ لیکن شکر ہے کہ چند دن بعد ان سے جان چھٹ گئی۔ شاید ان کی شادی ہوگئی تھی۔ ان کے بعد مس پروین ہماری کلاس ٹیچر بنیں اور ڈھائی سال ہمیں پڑھایا۔

میڈم پروین کی صورت مجھے کچھ کچھ یاد ہے۔ وہ بنجمن سسٹرز کی چھوٹی بہن جیسی تھیں۔ مجھے بہت عزیز رکھتی تھیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ہمارے گھر آتیں اور اپنے گھر کے درخت کے لیموں بھی لاتیں۔

ان کے والد ریلوے میں ملازم تھے۔ ان کا کراچی تبادلہ ہوگیا تو مس پروین نے استعفا دے دیا۔ پوری کلاس کو بہت دکھ ہوا۔ میڈم کراچی جانے سے پہلے اپنے والدین کے ساتھ ہمارے گھر آئیں۔ اتفاق سے اس رات بجلی چلی گئی تھی اور ہم نے اندھیرے میں مہمان نوازی کی۔

میڈم پروین کی بڑی بہن نسرین گورنمنٹ گرلز اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ اسی اسکول میں میری کزن بھی ٹیچر تھیں۔ میں نے کراچی آنے کے بعد کئی بار کزن سے میڈم پروین کا پتا مانگا لیکن وہ فراہم نہیں کرسکیں۔ کاش کبھی ان سے دوبارہ ملاقات ہوسکتی۔

قائداعظم پبلک اسکول شہر کی سب سے بلند عمارت حسنین چیمبرز میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ عمارت اب بھی موجود ہے اور صرف تین منزلہ ہے۔ اسکول اس کی پہلی منزل پر تھا۔ اسکول نےترقی کی اور طلبہ کی تعداد بڑھی تو باری صاحب نے اسی گلی میں ایک گھر کرائے پر لیا اور آدھی کلاسیں وہاں منتقل کردی گئیں۔ ہم بھی ان میں شامل تھے۔

انھیں دنوں ہماری کلاس میں ایک لڑکی شاہینہ پڑھتی تھی۔ دبلی پتلی اور پراعتماد۔ پڑھائی میں اچھی تھی اس لیے اس سے میرا مقابلہ رہتا تھا۔ اس کا گھر اسکول کے بالکل برابر میں تھا۔ غالباً اس کے نانا کا گھر تھا۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ لاہور منتقل ہوگئی۔ کبھی خانیوال آتی تو ہم کلاس فیلو سے ملنے اسکول آجاتی تھی۔

میڈم پروین کے جانے کے بعد میڈم شگفتہ قادری ہماری کلاس ٹیچر بنیں۔ وہ بھی بہت جلد ہماری دوست بن گئیں۔ ہمارا رزلٹ دوسری کلاسوں سے بہتر ہوتا تھا تو اس میں ان کا کمال تھا۔ حالانکہ وہ خود اس وقت طالبہ تھیں۔ شاید ایم اے کررہی تھیں۔

ہمارے کراچی منتقل ہونے کے بعد بابا نے بتایا کہ نیشنل بینک میں ان کے کولیگ ملک عطا الرحمان کی شادی ہماری ٹیچر سے ہوگئی ہے۔ یہ جان کر بہت خوشی ہوئی تھی۔

ملک صاحب نیشنل بینک سے ریٹائر ہونے کے بعد وکالت کرتے ہیں اور خانیوال کی ممتاز سماجی شخصیت ہیں۔ اچھے شاعر ہیں اور انھوں نے کسی زمانے میں خانیوال سے ایک ادبی پرچہ چمن زار نکالا تھا۔ ایک بار اس میں بے وجہ میری تصویر بھی شائع کی تھی۔

میں 1993 میں خانیوال جاکر مس شگفتہ سے ملا تھا۔ آخری بار 2017 میں خانیوال گیا، تب بھی انھیں سلام کرنے گیا۔ اپنے بیوی بچوں کو ان سے ملوایا۔ ان دنوں میڈم گردوں کی تکلیف میں مبتلا تھیں۔ میرے امریکا آنے کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔

پہلی سے پانچویں تک ہم پندرہ سولہ بچے ایک ساتھ ایک کلاس میں پڑھے۔ دو تین درمیان میں چلے گئے اور دو تین آئے بھی لیکن بیشتر جمے رہے۔ میں خانیوال جاتا رہا اس لیے دو تین قریبی دوستوں سے رابطہ برقرار تھا۔ اب ایک واٹس ایپ گروپ میں آدھی کلاس موجود ہے۔ فیصل رفیق فوج میں بریگیڈئیر بن چکا ہے۔ عبدالنعیم پولیس کا سچا اور ایماندار افسر ہے۔ نثار احمد خان موبائل کمپنی کا ایگزیکٹو ہے۔ عمر احمد خان نیازی بیرون ملک بڑی کمپنی کا افسر ہے۔ اسد مہدی لاہور ہائیکورٹ کا وکیل ہے۔ عبدالوحید لاہور میں کنسٹرکشن بزنس کرتا ہے۔ سحر افشاں ولایت سے پڑھنے اور مڈل ایسٹ میں پڑھانے کے بعد اپنا اسکول قائم کرچکی ہے۔

میرے پاس چار سال کے رزلٹ کارڈز موجود ہیں۔ سال میں تین امتحان ہوتے تھے۔ سہہ ماہی، ششماہی اور سالانہ۔ میں دو میں فرسٹ پوزیشن لیتا تھا اور ایک میں سیکنڈ۔

پانچویں میں سہہ ماہی اور ششماہی میں فرسٹ آیا تو میں نے سوچا کہ اس سال ریکارڈ قائم کرنا ہے۔ سالانہ امتحان سے پہلے میڈم شگفتہ نے بتایا کہ اسکول نے مجھے وظیفے کے امتحان کے لیے نامزد کیا ہے۔ مجھے اس کے لیے اسکول کے امتحان سے بالکل مختلف تیاری کرنا پڑی۔

پہلے اسکول کے امتحانات ہوئے۔ اس کے بعد میں اسلامیہ ہائی اسکول خانیوال میں تحصیل سطح کے امتحان میں شریک ہوا۔ اس میں پاس ہونے کے بعد نشتر اسپتال ملتان کے پاس کسی عمارت میں ضلعی سطح کا امتحان ہوا۔ خاص بات یہ تھی کہ ایک دن میں سات آٹھ پرچے دینے پڑے۔

وظیفے کے امتحان کے بعد جب میں اسکول گیا اور میڈم کو پرچے اچھے ہونے کی اطلاع دی تو انھوں نے بہت شاباش دی۔ پھر میں نے پوچھا، کیا آپ نے رزلٹ مرتب کرلیا۔ فرسٹ کون آئے گا؟

میڈم نے کہا، مبشر! وظیفے کے امتحان کی وجہ سے تم پر زیادہ بوجھ پڑگیا۔ اس بار تم نہیں، نعیم فرسٹ آیا ہے۔ مجھ پر گھڑوں پانی پڑگیا۔ وظیفے کے امتحان کی خوشی جاتی رہی۔

بابا کے انتقال کے بعد ایک دن عجیب خیال آیا کہ سیکڑوں لوگوں سے کتابوں پر دستخط کروائے ہیں اور آٹوگراف لیے ہیں۔ بابا سے بھی کسی کاغذ پر دستخط کروالیتا تو اچھا تھا۔ پھر ان رزلٹ کارڈز پر نظر پڑی جنھیں دیکھ کر بابا بہت خوش ہوتے تھے اور جن پر ان کے دستخط موجود ہیں۔

About The Author