نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سلیکٹر براہ راست مارشل لاء لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔۔۔عامر حسینی

اس مرتبہ زندہ دلان لاہور میں کوئی ناصر کاظمی اردوی مہاجر اور کوئی فیض پونجابی بھی نہیں ہے جو اُس سانحے پر جذبات کی عکاسی اشعار کے زریعے کرسکے گا

سلیکٹرز کی سلیکشن ناکام کیا ہوئی، وہ پاکستان کو واپس 50ء کی دہائی کی طرز کے فرقہ وارانہ اور نسلی فسادات کی طرف لیجانا چاہتے ہیں، اُس زمانے میں سلیکٹر کا پنجاب میں سلیکٹر ممتاز دولتانہ تھا اور آج بزدار پنجاب میں ہے اور پاکستان کوشیعہ-سُنی سول وار کی طرف دھکیل کر اور پنجابی شاؤنسٹوں کی مدد سے سندھیوں اور سرائیکیوں کو اشتعال دلاکر سلیکٹر براہ راست مارشل لاء لگانے کی کوشش کررہے ہیں…… پارہ چنار میں جو ہوا اور آج ایک کالعدم تنظیم کے رکن اسمبلی کے زریعے جس طرح کا بِل پاس کروایا گیا اور جس طرح سے سندھی اجرک و ملتانی اجرک کا مذاق اڑایا گیا اس سے یہ خدشہ اب یقین میں بَدل رہا ہے کہ جواز تلاش کیا جارہا ہے کہ پاکستان میں پھر سے آئین معطل یا ختم کرکے فوجی آمریت قائم کردی جائے…….

سلیکٹرز نوشتہ دیوار پڑھ لیں انیس سو تہتر کا آئین 18 ویں ترمیم کے ساتھ ایک ریڈ لائن ہے جسے کراس کرنے کا مطلب سندھ اور بلوچستان سے ویسی تقاریر سامنے آنا ہیں جو رمنا ریس کورس میدان ڈھاکہ میں مارچ 1971ء کو شیخ مجیب الرحمان نے کی تھی…… کب تک کوئی کھپے کھپے کا نعرہ لگاتا رہے گا اور زبردستی اجرک اور سندھی ماسک و ملتانی ماسک پہن کر لاہور میں اپنا مذاق بنواتا رہے گا…..

جب کوئی تنگ آتا ہے تو بھاشانی کی طرح نشتر پارک کراچی میں

"خدا حافظ مغربی پاکستان” اور مجیب کی طرح "ناصر باغ” لاہور میں ” خدا حافظ پنجاب” کہہ کر چلا جاتا ہے- پیچھے بس یا تو ناصر کاظمی بچتا ہے جو کہتا ہے

وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے؟

یا پھر فیض احمد فیض سا رومان پرور کمیونسٹ کہتا ہے

ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی ملاقاتوں کے بعد

…..

جون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

……

تو مشرقی بانگلہ کا کمیونسٹ مظفر احمد فیض کو کہتا ہے

پونجابی کامریڈ! خون کے دھبے برساتوں سے دھلتے نہیں بلکہ وہ خُشک ہونے کے بعد پھر بارشوں سے تازہ ہوکر کچھ اور پھیل جاتے ہیں

آج تو خود پنجاب میں وہ لوگ جنھوں نے یہ شعر لکھے تھے کہ

تُم نے جاں کے عوض آبرو بیچ دی

ہم نے پھر بھی کیا تھا گوارا تمہیں

……

اب وہ تمہیں سپاہی ماننے کو تیار نہیں ہیں…..

کیا کروگے؟

یو ٹیوب بند کراؤ گے؟

وی پی این رجسٹر کراؤگے باقی کو جیل بھیج دو گے؟

جبری گمشدہ کردو گے؟

کسی کو بیچ چوراہے میں پولیس کی وردیاں پہن کر اغواء کرلو گے؟

کسی کو سڑک کے بیچ ماروگے؟ پیٹو گے؟

چند ایک کو مسخ شدہ لاشوں میں بدل ڈالو گے؟

شیعہ مسلمانوں کو کسی لشکر کا خوف دلواؤ گے؟

کسی نئے قاری حسین محسود کو جنم دوگے؟

کسی نئے بیت اللہ محسود کو پتسمہ دوگے؟

کسی قصبے دیہات سے کسی گلا پھاڑ کر چلانے والے ملاں کو بھیجو گے کہ وہ سعودی ریالوں کی جھن جھن پر ناچے اور دور سیکڑوں میل کسی حلب یا انبار میں مفروضہ سُنی نسل کُشی کا بدلہ کراچی سے خیبر تک شیعہ مسلمانوں سے لینے کا نعرہ لگائے اور جب ہر طرف اودھم مچ جائے تو کوئی کالی عبایا میں شہروں کا کنٹرول بندوقوں والوں کو سنبھالنے کی اپیل کرتا نظر آئے اور بیچاری ٹارگٹ کلنگ کی ماری، نسل کُشی کا شکار مذھبی اقلیت کو زرخرید ملاں بتائیں

"عطار کا لونڈا تمہارا طبیب ہے”

اور یک دَم سکون ہوجائے، پیدل سپاہی ماردیے جائیں اور اپنے خاص کارندوں کو بچاکر فرار کروادیا جائے تاکہ کوئی عوامی لیڈر اس سارے کھیل کے پیچھے بیٹھے مداریوں کو للکارے تو ٹوئٹر پر کسی اکاؤنٹ سے مفرور دھمکی دے

جو حشر تمہاری کافرہ ماں کا ہوا وہ ہم تمہارا کریں گے

کوئی بلاگر شہید کے کفن کو گدلا کرنے کی کوشش کرے اور اُسے قانون کی گرفت میں لانا پڑے تو عدالت میں سلیکٹرز کا بیان آئے کہ

"ہاں یہ بلاگر تو ہمارے امیج بلڈنگ کے فلم پروجیکٹس پر کام کرتی ہے، ہم نے اس کے قیام کی مدت بڑھادی ہے”

یہ سب پہلی بار تو نہیں ہورہا، "سلیکٹرز” خود "سلیکٹڈ” ہیں تو اُن کے سلیکٹڈ تو اُن سے بھی زیادہ "چغد” ہوں گے، سلیکٹرز ہمیشہ دوسروں کی اولادوں کو جہاد اور جنگ کے نام پر مرواکر نیل سے تابخاک کاشغر تک اپنی حاکمیت کے خواب دیکھتے ہیں لیکن” انڈے جتنی جھونپڑی نام فرید آباد” کے مصداق یہ اپنے ہی جھونپڑی سے آدھی کشمیری جھونپڑی 1948ء میں دیتے ہیں تو 1965 میں کارگل دے بیٹھتے ہیں اور 1971ء میں پورا مشرقی بنگال ان کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتا اور یہ بنگالی غیظ و غضب سے بچنے اور جان بچانے کے لیے ھتیار بھارتی جرنیلوں کے سامنے پھینک دیتے ہیں اور جنگی قیدی بن جاتے ہیں جو باقی کا پاکستان پھر سے بناتا اور جنگی قیدی چھڑوا کر لاتا اور ایک شکست خوردہ قوت کو علاقائی طاقت میں بدلتا ہے اُسے محض سات سال بعد پھانسی پر چڑھادیا جاتا ہے……. جو ماضی سے سبق نہیں سیکھتے اُن کو حال ایسا سبق سکھاتا کہ کہنا پڑتا ہے

تو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا

ڈال دی میرے بدن نے تیری تلوار پہ خاک

جمہوریت پسند اور سماجی مساوات کے علمبردار عوام اگر فرقہ پرستی اور نسل پرستی کی سازش کا شکار نہ ہوئے تو 1973ء کا موجودہ آئین فیڈریشن بچاپائے گا اور ہمیں سندھی، سرائیکی اور بلوچی اور پشتو میں "نامنظور، نامنظور” کے نعرے نہیں سُننے پڑیں گے، اس مرتبہ زندہ دلان لاہور میں کوئی ناصر کاظمی اردوی مہاجر اور کوئی فیض پونجابی بھی نہیں ہے جو اُس سانحے پر جذبات کی عکاسی اشعار کے زریعے کرسکے گا

About The Author