کورونا دنیا کو بدل رہا ہے اور یہ کہاں تک بدلے گایہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ کچھ ممالک میں کورونا کے مریضوں میں کمی ہونے پر یہ سمجھ لیا کہ کورونا ختم ہورہا ہے لیکن پھر اچانک سے مریضوں میں تیزی آنا شروع ہوگئی جس نے اس بات کو یقینی بنادیا کہ یہ معاملہ مستند ویکسین کی تیاری تک بے قابو ہی رہے گا اور زندگی کو احتیاطی تدابیر کیساتھ آگے بڑھانا ہوگا۔ ملک کی معاشی حالت پر کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی لیکن عوام کیلئے بدترین بجلی کا بحران، پانی کا بحران، چینی کا بحران، آٹے کا بحران اور پھر طبی سہولیات کا بحران موجود ہیں۔ ان حالات میں سب ہی کسی نا کسی طرح سے مشکلات سے دوچار رہے ہیں وہیں سب سے زیادہ نقصان تعلیم کا ہوا ہے۔ سب سے پہلے تعلیمی ادارے بند ہوئے۔
تعلیم کا کافی نقصان ہونے کے بعد کچھ تعلیمی اداروں نے آن لائن کلاسوں کے انعقاد کاایک مشکل فیصلہ کیا اور بغیر والدین کے مشورے کے یہ فیصلہ صادر کردیا گیا۔ فیصلہ اچھا تھا والدین نے تسلیم کیا۔عام معلومات کے مطابق بہت محدود اسکولوں نے یہ مشکل فیصلہ کیا اور بہت حد تک کامیابی کیساتھ اس پر عمل پیرا ہوئے۔تعلیم کی ترویج کے سلسلے میں یہ ایک انتہائی احسن قدم ہے اور سب سے بڑھ کر آنے والے وقتوں میں ہماری ترقی کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہوگا، جوادارے اس نظام کو مستحکم کرینگے وہ آنے والے وقتوں میں اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکینگے۔ مخصوص تعلیمی اداروں کے علاوہ بہت کم ایسے تعلیمی ادارے ہیں جو ان حالات میں اپنے آپ کو باقی رکھ سکے ہیں یقینا انکی انتظامیہ کی بہترین حکمت عملی، انکا میعار تعلیم کیساتھ ساتھ ان کا دیا گیا والدین کواعتماد بھی ہے۔
انتہائی محدود وسائل کیساتھ کس طرح سے اسکولوں نے آن لائن کلاسزکیلئے عملی اقدامات کئے اور باقاعدہ کلاسوں کا آغاز کیا، وقت آنے پر ان اسکولوں کی انتظامیہ کو حکومت کی جانب سے خصوصی پذیرائی ملنی چاہئے اور باقاعدہ ان اسکولوں کونمایاں بھی کرنا چاہئے۔ یہاں ایک اور بات بھی قارئین کی نظر کرتا چلوں کہ یہ بہترین وقت ہے کہ تعلیمی اداروں اور نظام تعلیم کو مستحکم کرنے کا۔جہاں گلی محلوں میں اسکول کھلے ہوئے جوکہ تعلیم کی ترویج کا صحیح طریقہ نہیں ہے، مستقبل کے معماروں جنہوں نے کل کو ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے کو نمایاں کرنے کیلئے ضروری ہے کہ انہیں باقاعدہ کسی مستحکم نظام تعلیم سے منسلک کیا جائے۔ ان چھوٹے اسکول مالکان سے گزارش ہے کہ اگر یہ واقعی ملک و قوم میں تعلیم عام کرنا چاہتے ہیں تو وہ ان اسکولوں کیساتھ الحاق کریں جو نظام تعلیم کی ترویج میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ سکینڈری اور اس سے بڑی کلاسوں کی آن لائن کلاسیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں لیکن پرائمری کی آن لائن کلاس کا انتظام کرنا یقینا کسی درد سر سے کم نہیں ہوگا، لیکن حقیقی معنوں میں علم کے فروغ کی اہمیت کو سمجھنے والوں نے کمر کس لی اور اس مشکل ترین کام کو سرانجام دے کر دیکھارہے ہیں۔یہاں ایک پہلو تو علم کی ترویج ہے تو دوسرا اہم پہلو ان اسکولوں سے وابسطہ اساتذہ اور دیگر عملے کی گھریلو معاشیات ہے، جس کی بدولت انکے معمولات زندگی نمو پاتے ہیں۔
اب آتے ہیں ہم اس طرف جہاں ہمارے ملک کے بچوں کی اکثریت زیر تعلیم ہوتی ہے یعنی سرکاری اسکول، یہاں پہلے اس بات کو واضح کرتے چلیں کہ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ سرکاری ملازم ہوتے ہیں اور ہمارے ملک میں کچھ بھی ہو جائے یا خدا ناخواستہ ملک کسی بحران کی زد میں بھی آجائے جیسا کہ کورونا کی وجہ سے آیا ہوا ہے سرکاری ملازمین پر کوئی فرق نہیں پڑتا تو سرکاری اساتذہ پر بھی بظاہر تو کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہوگا۔ایک قابل ذکر بات بھی شامل مضمون کرتا چلوں کہ گزشتہ دنوں قابل احترام علی زیدی صاحب نے سرکاری اسکولوں کے حوالے سے سماجی میڈیا کے توسط سے آگاہ کیا کہ سندھ میں (شائد بشمول کراچی)سرکاری اسکولوں کی کل تعداد اننچاس ہزار ایک سو تین ہیں، نوے فیصد(چوالیس ہزار ایک سو تیرانوے)اسکولوں میں سائنس کے استاد ہی موجود نہیں ہیں، ستر فیصد (چوتیس ہزار تین سو بہاتر)اسکولوں میں تجربہ گاہ (لیبارٹری) موجود نہیں، اٹھارہ ہزار چھ سو ساٹھ اسکول صرف ایک استاد کیے ذمہ ہے یعنی صرف ایک ہی استاد موجود ہے(طالب علموں کا علم نہیں) اور قارئین بارہ ہزار ایک سو چھتیس ایسے اسکول ہیں کہ جہاں کوئی بھی استاد موجود نہیں ہے۔ یہاں پہلے تو سندھ کی دھرتی کے ایک ہونہار سپوت علی زیدی صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے مستقبل کے معمارتیار کرنے کی صنعتوں (اسکولوں) کا احوال سے آگاہ کیاگوکہ ہوتا کچھ دیکھائی نہیں دیتا۔ہمیں وہ اسکول بھی یاد ہیں کہ جہاں بھیسوں کے باڑے بنے ہوئے تھے اور درختوں سے گدھے بندھے ہوئے تھے۔ یہ سب کچھ ہم بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں اور آج سے نہیں دھائیوں سے جانتے ہیں بلکہ جب یہ سماجی میڈیا نہیں تھا تب سے جانتے ہیں لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔شائد ہم اپنے موضوع سے کہیں اور نکل گئے لیکن موضوع کا تعلق تو بنتا ہے کیوں کے بات ہورہی ہے آن لائن تعلیم و تدریس کی تو اس میں سب سے آگے سرکاری اسکولوں کو ہونا چاہئے تھا۔
آن لائن کلاسوں کاسلسلہ کسی حد تک خوش اسلوبی سے چل رہاہے اور بچوں کی محدود تعداد مستفید ہورہی ہے۔ آن لائن کلاسوں کیلئے کچھ اہم لوازمات ضروری ہیں جن میں کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا پھر کوئی بہتر قسم کا اسمارٹ فون اور ان سب کیساتھ آن لائن ہونے کیلئے انٹر نیٹ کی موجودگی،مان لیا کہ یہ سب چیزیں موجود ہیں لیکن بجلی کی فراہمی کو آپ کیسے یقینی بناسکتے ہیں۔جہا ں ایک بچہ پڑھ رہا ہے وہاں تو بہت ہی اچھی بات ہے لیکں گھمبیر مسلۂ کے ایک گھر میں ایک سے زیادہ بچوں کو کلاس لینی ہے وہ کیا کرینگے کیاتمام والدین ہر بچے کیلئے مکمل لوازمات کا انتظام کرسکتے ہیں، ایک اہم اور قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ دو کمروں کے گھر میں رہنے والے بھلا بچوں کو کس طرح سے آن لائن کلاس لینے کیلئے پرسکون ماحول مہیہ کر سکتے ہیں جو لازم ہے۔ جہاں اسکولوں کے آن لائن کلاسوں کو شروع کرنے کے اقدام کا سرہا گیا ہے وہیں اس بات پر بھی توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اور جہاں آج کل دو وقت کی روٹی کا حصول ایک معمہ بنا ہوا ہے وہاں کس طرح سے آن لائن کلاسوں کو یقینی بنایا جائے اور اس پر یہ بھی کہ اسکولوں کی فیس بھی بروقت ادا کرنی ہے، انٹرنیٹ کا بل اور بجلی کابے قابو بل۔اسکولوں کا کام تھا کہ وہ کسی بھی تھا طرح سے بچوں کو اسکول اور کتابوں سے جڑے رکھنے کی ہرممکن کوشش کریں جو انہوں نے کرلی لیکن کیا ہمارے نظام تعلیم میں ایسی تعلیم کی کوئی گنجائش ہے، کیا ارباب اختیار (حکومت) نے اس جانب توجہ دینے کی کوشش کی،کیا اسکولوں سے انہوں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ انہیں آن لائن کلاسوں میں کسی قسم کی سرکاری معاونت تو درکار نہیں، کیا والدین کیلئے کم از کم انٹرنیٹ کی سہولت کے حوالے سے کوئی خصوصی رعایت کا اعلان کیا، ان سب باتوں سے ہماری حکومت کا تعلیم سے لگاؤ یا بچاؤ کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
آخر کار حکومت نے بہت سوچ بچار کے بعد یا پھر انہیں اس بات کا اندازہ ہوگیا ہوگا کہ آن لائن کلاسیں کتنے بچوں کو تعلیم یافتہ کر رہی ہیں، پندرہ ستمبر سے اسکولوں کو جزوی طور پر واضح کردہ طریقہ کار کی بنیاد پر کھولے جانے کا اندیہ دے دیا گیا ہے اس کے برعکس کراچی کی نجی اسکولوں کی ایسوسی ایشن نے پندرہ اگست سے اسکول کھولنے کا اعلان کردیا ہے۔ ابھی طریقہ کار واضح کرنا باقی ہے کیونکہ اسکے لئے بڑے پیمانے پر مشاورت کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔یونیسکو نے بھی اسکول دوبارہ کھولنے کے لیئے طریقہ واضح کردیا ہے لیکن اسے دیکھنے کے بعد لگتا ہے کہ ہمارے یہاں تو ان پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوسکتا ہے۔ سب سے پہلے صفائی کا بہترین انتظام جس میں جراثیم کش ادویات کا استعمال باقاعدگی سے ضروری دیا ہے، بیمار بچوں کو اسکول آنے سے روکنا ہے (جس میں والدین کی بھی ذمہ داری بنتی ہے)، اساتذہ کو اس بات سے آگاہ ہونا چاہئے کہ بچے ذہنی طور پر کہاں ہیں یعنی کورونا کے ان پر کیسے اثرات مربت کئے ہیں، اسکول بچوں کو یونیفارم اوردیگر اخراجات پر مبنی لوازمات سے مبراء قرار دیں۔اب ہماری عمومی تجویز ہے کہ جن اسکولوں میں بڑے اور کشادہ کمرے ہیں وہ ایک دن آدھی کلاس کو بلائیں اورآدھی دوسرے دن یعنی پچاس فیصد حاضری، بچوں کی کڑی نگرانی کیلئے کلاس میں کم از کم دو استاد موجود ہوں یا پھر ایک استاد کیساتھ کوئی انتظامیہ کا فرد ہو نہیں تو کلاس میں سے ہی کسی بچے کو معاون بنادیا جائے تاکہ کلاس میں موجود بچوں کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھی جائے، ماسک لازمی ترین قرار دیا جائے، کھانے اور پینے کیلئے طالب علم ذاتی اشیاء استعمال کریں اور نقل و حرکت کو محدود کیا جائے۔ جہاں کلاسیں چھوٹی ہیں انہیں چاہئے کہ وہ میدان میں یا دستیاب کھلی جگہ میں کلاسوں کا انعقادیقین بنائیں۔ حکومت کیلئے بہترین وقت ہے کہ چھوٹے اسکولوں کو بڑے اسکولوں میں ضم کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار واضح کرے اور مستقبل کے معماروں کیساتھ اساتذہ کے مستقبل کو بھی تحفظ فراہم کرے۔
کورونا واقعی نئے نظام کی جانب دھکیل رہا ہے، یہ تمام امور کو انکی اہلیت کیمطابق دیکھنا چاہتا ہے۔یہ صرف صحت کے شعبے میں انقلابی تبدلیوں کا تکازہ نہیں کررہا ہے یہ ریاستوں کوحقیقی فلاحی ریاست بننے کی جانب دھکیل رہا ہے جہاں افراد کی مکمل دیکھ بھال کا باضابطہ نظام موجود ہو، یہ تعلیم کے میعار کو جعلی ڈگریوں سے نکالنے کو یقینی بنانے کی طرف دھکیل رہا ہے یعنی سب سے اولین تکازہ یہ ہے کہ بدعنوانی کی بنیاد پر کھڑا معاشرہ کسی بھی ایسی وباء کا سامنا نہیں کرسکے گااس لئے بے ایمانی اور بدعنوانی کو مکمل طور پر بے دخل کرنا پڑے گااسی کی تعلیم اپنے کھلنے والے اسکولوں میں بھی لازمی قرار دینی چاہئے۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی