سینئر صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کی واردات اور بازیابی ابھی تک بہت سے سوالوں کو جنم دے رہی ہے۔ ان کے سوالات کسی کی جانب سے بھی دیئے جا رہے۔ گو کہ صحافی مطیع اللہ جان کہہ چکے ہیں کہ وہ تفصیلات پولیس کو بیان میں دیں گے۔
تاہم بی بی سی اردو نے ان سے بات کی ہے اور اغوا ہونے کے بعد کیا صورتحال رہی اس پر انکے تاثرات قلم بند کئے ہیں۔
دستیاب معلومات کے مطابق مطیع اللہ جان کو ایک نا معلوم نمبر سے فون آیا تھا اور وہ وہی سن رہے تھے کہ ان پر دھاوا بول دیا گیا۔
بی بی سی نے لکھا ہے کہ مطیع اللہ جان کے مطابق ان کو اغوا کرنے کے فورا بعد انھیں ہتھکڑی لگا دی گئی جبکہ ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی تھی۔ اغوا کار اس عمل کے دوران انھیں کسی دفتر بھی لے جایا گیا تھا جبکہ اغوا کار انھیں بولنے کا موقع نہیں دے رہے تھے اور انھیں اپنا منہ بند رکھنے کا کہتے رہے۔
جب مطیع اللہ کے بھائی اغوا کاروں کی جانب سے بتائی گئے مقام پر اپنے بھائی کو لینے پہنچے تو اغوا کاروں نے ان کی شناختی دستاویز طلب کیں اور ان سے چند سوال بھی کیے۔
یہ بھی پڑھیے:مطیع اللہ جان کی گمشدگی ، مکمل تفصیلات اعزاز سیدکی زبانی
آدھ گھنٹے کی تفتیش کے بعد اغواکاروں نے مطیع اللہ کو ان کے بھائی کے حوالے کر دیا۔ مطیع اللہ نے بتایا اس موقع پر ان کے اغواکاروں نے اُن سے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ آخر ان کے خیال میں انھیں کس نے اغوا کیا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر