دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

توہین عدالت:سینئر صحافی مطیع اللہ جان کی   سپریم کورٹ میں پیشی

کمرہ عدالت میں صحافیوں کی بڑی تعداد کے علاوہ پاکستان بارکونسل اورسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نمائندگان بھی موجود تھے۔

گزشتہ روز نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغواکے بعد بازیاب ہونے والے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کی توہین عدالت کیس میں  سپریم کورٹ میں پیشی ہوئی ہے ۔

صحافی مطیع اللہ جان نے عدالت عظمی کو بتایا کہ ان کے اغوا کا توہین عدالت کے مقدمے سے براہ تعلق ہے اور وہ ان حالات کے بارے میں تفصیل سے جواب دینا چاہیں گے۔

توہین عدالت کیس میں سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ گزشتہ روز کیا ہوا؟ ہم نے بی بی سی اور سی این این پر دیکھا کہ اس کیس میں مبینہ توہین عدالت کے مرتکب کو اغوا کیا گیا؟ کیا پولیس نے بازیابی کے بعد مطیع اللہ جان کا بیان ریکارڈ کیا؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ‘حکومت کیا کر رہی ہے؟ محکمے کیا کر رہے ہیں؟ اسلام آباد پولیس کے سربراہ کہاں ہیں؟ جب یہ ملے تو بیان کیوں ریکارڈ نہیں کیا گیا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ مطیع اللہ جان کے بھائی جنہوں نے مقدمہ درج کرایا تھا انہوں نے کہا ہے کہ توہین عدالت سوموٹو کیس کی وجہ سے بیان ریکارڈ نہیں کرا سکے۔

اس موقع پر مطیع اللہ جان نے کہا کہ ‘مائی لارڈ’ ۔۔۔ تو چیف جسٹس نے کہا کہ ‘آپ صرف توہین عدالت کیس میں ہی بولیں تاکہ آپ کا کیس متاثر نہ ہو۔’

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کا آغاز کیا تو سب سے پہلے سینئر صحافی اور کالم نگار مطیع اللہ جان کے اغوا کا معاملہ اٹھایا۔

کمرہ عدالت میں صحافیوں کی بڑی تعداد کے علاوہ پاکستان بارکونسل اورسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نمائندگان بھی موجود تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کیا مطیع اللہ جان خود اغوا ہوئے اور پھر خود واپس بھی آگئے؟؟اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی مطیع اللہ جان کے اغواکے معاملے پر کارروائی کی ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا صحافی مطیع اللہ جان کا ابھی تک بیان کیوں قلمبند نہیں کیا گیا،حکومت کے محکمے کیا کر رہے ہیں،آئی جی اسلام آباد پولیس کو ابھی بلائیں اُن سے پوچھ لیتے ہیں پہلے بیان قلم بند ہونا چاہیے تھا۔جسٹس اعجا زالااحسن نے کہا مطیع اللہ جان کے بھائی نے ایک تحریری لکھی ہے کہ اُنکے بھائی واپس آگئے ہیں اس کی قانونی حیثیت کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا صحافی کا بیان قلمبند ہونے کے بعد معاملہ قانون کے مطابق آگے بڑھے گا،یہ بہت سنگین معاملہ ہے،قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد حقائق سامنے آجائیں گے۔اٹارنی جنرل نے کہا حکومت نے معاملے پر ایکشن لیا ہے بلاتفریق کارروائی کی جائے گی۔

چیف جسٹس نے کہا مطیع اللہ جان پاکستان کے شہری ہیں،کسی بھی ایجنسی کو پاکستان کے شہری کے بنیادی حقوق سلب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے صحافی مطیع اللہ جان سے پوچھا کیا آپ نے کوئی جواب داخل کرایا ہے۔ صحافی مطیع اللہ جا ن نے جواب دیا میں اغو ا کے باعث جواب نہیں دے سکا،مجھے تحریری جواب جمع کرانے اور وکیل کرنے کیلئے وقت درکار ہے۔

مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد اور صحافی مطیع اللہ جان کے درمیان ایک دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔ صحافی مطیع اللہ جان نے کہا مجھے شفاف ٹرائل اور مکمل دفاع کا موقع ملنا چاہیے۔چیف جسٹس گلزار احمد نے مسکرا کر صحافی مطیع اللہ جان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں آپ کو شفاف ٹرائل کا مکمل موقع ملے گا،جانبداری نہیں برتی جائے گی۔

چیف جسٹس نے کہا توہین عدالت کے مقدمے کا صحافی کے اغوا سے کیا تعلق ہے۔ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے کہا اگر سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس نہ ہوتا تو اُنکی بازیابی ممکن نہ ہوتی۔لطیف کھوسہ نے ایک شعر بھی پڑھا جو کچھ یوں تھا خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار نہ ہوتا۔

صحافی مطیع اللہ جان نے سپریم کورٹ کو بتایا میرے اغوا کا توہین عدالت کے مقدمے سے تعلق جڑتا ہے۔چیف جسٹس نے پوچھا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔صحافی مطیع اللہ نے جواب دیا مجھے کس طرح دھمکیاں دی گئیں،کیا ہوتا رہا اس سے لنک ہے۔چیف جسٹس نے کہا آپ نے جو کہنا ہے تحریری جواب مین دیں،گفتگو میں احتیاط برتیں۔

سماعت کے اختتام پر عدالت نے حکمنامہ لکھوایا مطیع اللہ جان کے اغوا کی اُنکے بھائی کی مدعیت میں تھانہ آبپارہ میں ایف آئی آر درج ہوئی،صحافی کے بھائی نے ایک ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریرپیش کی جس میں بتایا گیا اُنکے بھائی فتح جنگ قطب آباد سے ملے ہیں،وہ بالکل ٹھیک ہیں اور گھر پہنچ چکے ہیں۔

عدالتی حکمنامے میں مزید کہا گیا حکومت صحافی کے اغوا کی ایف آئی آر پر قانون کے مطابق کارروائی کرے۔چیف جسٹس نے جب حکمنامے میں جج صاحبان سے مشاورت کے بعد مبینہ مغوی کے بیا ن ریکارڈ کرانے کے الفاظ لکھوائے تو اس پر صحافی مطیع اللہ جان نے کہا یہ اغوا مبینہ نہیں بلکہ مجھے حقیقت میں اغوا کیا گیا تھا۔اس پر جسٹس اعجاز الااحسن بولے یہ قانون کی زبان ہے۔

عدالتی حکمنامے میں مزید کہاگیا پولیس صحافی مطیع اللہ جان کا بیان ریکارڈ کر کے قانون کے مطابق کارروائی کرے،آئی جی اسلام آباد پولیس آئندہ سماعت پر پولیس کی کارروائی سے متعلق تحریری جواب پیش کریں۔

عدالت نے صحافی مطیع اللہ جان کو وکیل کرنے اور جواب داخل کرانے کیلئے وقت دیتے ہوئے سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔

About The Author