اپردیر سے ذکاء اللہ لکھتے ہیں
”آپ صرف مایوسی کی باتیں کرتے ہیں’ ایسا لگتا ہے جیسے تحریک انصاف اور عمران خان سے ذاتی دشمنی ہے یا پھر پیپلز پارٹی اچھی خاصی رقم سے جیب گرم کرتی ہے، آپ کو یہ کیوں دکھائی نہیں دیتا کہ عمران خان نے سب چوروں’ کمیشن خوروں اور بھارت نوازوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا، پاکستان بہتری کی طرف بڑھ رہا ہے، دنیا عمران خان کی پالیسیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے لیکن آپ کے ہر کالم میں زہر بھرا ہوتا ہے”۔
پرنٹ والیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر گنڈہ پوری شہد کی مٹھاس سے بھرے لب ولہجہ میں انسانی تاریخ کی پہلی کامیاب حکومت کیلئے حوصلہ افزائی کے بیچوں بیچ ایک آدھ ناقد کو بھی برداشت کر لیا جائے تو یہ صحت کیلئے بہتر ہوتا ہے۔
تحریر نویسوں کی دوستیاں ودشمنیاں نہیں ہوتیں (پسند وناپسند سے انکار نہیں) جو سامنے ہے، محسوس ہو اوردیکھائی دے معلومات کالم کی عمارت انہی تین باتوں سے اُٹھائی جاتی ہے۔
چور کمیشن خور اور بھارت نواز کون ہے؟
حضور یہ پاکستانی سیاست کے چناچور گرم کے اجزائے ترکیبی ہیں جو بہتر برسوں سے فروخت ہو رہے ہیں۔
دنیا نے کس پالیسی کی تحسین کی کوئی ہمیں بھی بتلائے تاکہ دھمال ڈالی جاسکے۔
پیپلز پارٹی نے اس قلم مزدور کو کیا دینا ہے اس کے پاس دینے کیلئے ہے کیا، البتہ اس کیلئے نرم گوشہ ہے اس کی وجوہات تنخواہ داری نہیں کچھ اور ہے۔
رفیق خٹک نوشہرہ سے لکھتے ہیں
”قومیتوں کے مسائل اور دیگر معاملات پر آپ اکثر لکھتے ہیں، پشتون قوم کو جس سیاسی، معاشی اور مذہبی استحصال کا عشروں سے سامنا ہے اس کے بارے میں بھی لکھا کریں، حکومت سے سوال کریں کہ سابق فاٹا علاقوں میں کیوں اب تک قانون کی درست طور عملداری قائم نہیں ہوسکی”
ان کالموں میں بلاامتیاز محکوم ومظلوم طبقات اور قومیتوں کے حقوق سے جڑے مسائل کے حوالے سے معروضات پیش کرتا آرہا ہوں۔
سیاسی ومعاشی استحصال کا خاتمہ عملی سیاسی جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔
مثال کے طور پر آپ نے جس کو بھی 2018ء میں ووٹ دیا اس سے کم ازکم اپنے حلقہ انتخاب کے حوالے سے سوال کیجئے کہ رائے دہندگان کے مسائل ومشکلات کیسے اور کب حل ہوں گے۔
غربت وبیروزگاری کیسے ختم ہوگی۔
رہا مذہبی استحصال تو اس سے نجات فقط علم وحکمت کے حصول سے ہی ممکن ہے۔
ہر شخص اپنے لئے نجات دہندہ بن سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ مطالعہ کرے اور مطالعہ بھی کھلے ذہن کیساتھ تاکہ اسے یہ حقیقت سمجھ میں آسکے کہ مذہبی پاپائیت اپنے اپنے سماج کو قیدی بنا کر کیوں رکھنا چاہتی ہے۔
سابق فاٹا کے حوالے سے یقینا صوبائی حکومت کو اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ حالیہ چند واقعات نے عملی طور پر ثابت کیا کہ خود حکومت کو ہی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اسے کرنا کیا ہے، فرائض کیا ہیں، بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نظام بدلنے کے باوجود سابق فاٹا علاقوں (اب اضلاع) میں تعینات افسران زندگی کی حقیقتوں اور فرائض منصبی کو سمجھ نہیں پارہے۔
ایک خط پشاور سے محمود عالم خان کا ہے وہ لکھتے ہیں ”صوبے کے دارالحکومت کے شہری چند برسوں سے جن عذابوں سے دوچار ہیں ان سے نجات دلانے کیلئے امریکہ یا چین آنے سے رہے، زیادہ بہتر ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دے۔ بی آر ٹی کی تعمیر سے پیدا شدہ مسائل’ صفائی کا فقدان’ نکاسی آب کے نظام کی بارشوں کے دوران ناکامی ان سب کی ذمہ داری کون قبول کرے گا اور کون انہیں حل کروانے میں دلچسپی لے گا”
محمود عالم نے چند مسائل کی نشاندہی کیساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے تباہ حال شہریوں کی حالت زار بھی بیان کی ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ اگر صوبائی حکومت دارالحکومت کے حالات بہتر بنانے اور بدتر ہوئے مسائل کے حل کیساتھ مہنگائی وغیرہ پر بھی توجہ دے۔
ہم سے قلم مزدور تو اپنے قارئین کے تقاضوں بھرے خطوط کالم کا حصہ بنا کر حکومت کو متوجہ ہی کرسکتے ہیں۔ اب یہ حکومت اور شہری انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ شہریوں کی دادرسی کرے تاکہ بہتری کی طرف بڑھا جاسکے۔
پہلی خبر تو پی ٹی وی کی لائسنس فیس میں 65روپے کا اضافہ ہے، صارفین کو اب 35 کی بجائے 100روپے ماہانہ دینے ہوں گے۔
پی ٹی وی تو اس طرح 23ارب روپے سالانہ اضافی آمدنی کمالے گا لیکن حکومتی تحویل میں چلنے والا یہ ادارہ اپنے ناظرین کو تفریح اور معلومات کے نام پر سطحی پروگراموں اور پروپیگنڈے کے سوا دیتا کیا ہے؟
ادھر ڈریپ نے مہنگائی کی شرح کے حساب سے ادویات کی قیمتوں میں 10فیصد اضافے کیلئے ادویہ ساز اداروں سے کچھ معلومات طلب کی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ڈریپ نے پچھلے برس ادویات کی قیمتوں میں 65سے 200فیصد تک ہونے والے اضافے کو کم کروانے اور لوٹ مار ختم کروانے میں کوئی کردار ادا کیا؟
مہنگائی سے شہری بدحال ہیں، ان کی فریاد تو کوئی نہیں سن رہا مگر ادویہ ساز اداروں کے ”دکھ” کا احساس فوری طور پر کر لیا گیا۔
ادویات کی قیمتوں میں مزید 10فیصد اضافہ ظالمانہ اقدام ہوگا، وزیراعظم اور دیگر متعلقہ حکام کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔
وفاقی وزیر عمرایوب نے تسلیم کیا کہ حکومت فی لیٹر پیٹرول پر 47روپے اور ڈیزل پر 51روپے ٹیکس وصول کرتی ہے، اس بھتہ گیری کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ چونکہ پچھلے سال محصولات کی وصولی میں کمی رہی اس لئے خسارہ پورا کرنے کیلئے یہ فیصلہ ناگزیر ہے
یعنی پالیسی سازوں کی نالائقی کا خمیازہ عوام دو طرح سے بھگتیں، اولاً اضافی ٹیکسوں کی صورت میں ثانیاً مہنگائی کی بدترین شکل میں۔
واہ رے انصافی حکومت کا انصاف، حالانکہ یہی لوگ پچھلے ادوار میں کہتے تھے حکومت ٹیکسوں کے نام پر عوام کو لوٹ رہی ہے۔
پی آئی اے کے پائلٹوں کے لائسنس جعلی ہیں کا شوشہ چھوڑنے والے وزیر ہوابازی محض معذرت کرے بری الذمہ ہوگئے مگر ان کے ”ارشاد” سے قومی ادارہ تباہ ہوگیا۔ غورطلب امر یہ ہے کہ آخر وزیراعظم نے ان موصوف کو اب تک برطرف کیوں نہیں کیا؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر