کالم کی ابتدا میں ہی واضح کر دوں کہ تحریر کے عنوان میں جو کانچ کی گڑیا یا شیشے والے الفاظ لکھے ہیں یہ ججز کے منہ سے نکلے ریمارکس ہیں جو کہ کھلی عدالت میں دیے گئے تھے اس لیے فدوی ایسی ویسی توہین عدالت کی ہر گز مرتکب نہیں۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے 18ویں آئینی ترمیم کیس کے دوران کہا تھا کہ ’عدلیہ کانچ کی گڑیا نہیں کہ کسی کمیشن کی تشکیل سے اسے ٹھیس پہنچے۔‘
شیشے کے گھر والی بات ابھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’جج شیشے کے گھر میں رہتا ہے وہ بھی قابل احتساب ہے، جواب دہ ہے۔‘
جج جواب دہ ہیں یا نہیں، یہ جواب دہی ججوں سے کون کرے، کیا عوام بھی جج سے جواب مانگ سکتے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب ابھی تک واضح نہیں۔ عین ممکن ہے ایسے سوال ججوں کے شیشے والے گھروں پر پتھر کی صورت برسیں اس لیے یہ سوال پوچھنے بھی چاہیے یا نہیں۔ یہ بھی واضح نہیں۔
اگر کوئی عدلیہ سے غلام قادر اور غلام سرور کے بارے میں پوچھ لے تو اس سے ڈانٹ ڈپٹ ہو گی کہ نہیں، اس بارے میں بڑی بےیقینی ہے۔ یہ رحیم یار خان کے وہی دو بھائی ہیں جنہیں سپریم کورٹ نے باعزت بری کیا تو پتہ چلا دونوں کو دو سال پہلے یہ نظام پھانسی کے پھندے پر چڑھا چکا ہے۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جو ڈیم فنڈ کے نام پر چندہ اکٹھا کیا تھا تھا، اس کی شفافیت کا کیا انتظام ہے؟ کیا یہ سوال بھی عدلیہ کی توہین تو نہیں؟ سابق چیف صاحب کی چھاپہ مار کارروائیوں نے جو ادارے بند کرا دیے ان کا سوال پوچھنا جائز ہے کہ نہیں؟ ایک پان فروش کو دی گئی پانچ دن قید کی سزا ختم ہونے میں چھ سال لگ گئے، کیا عدالتی نظام کی خستہ حالی پر سوال کرنا کوئی بدتمیزی تو نہیں ہو گی؟
آئین پاکستان کا آرٹیکل 204 تو کچھ ابہام اور کچھ وضاحت کے ساتھ کہتا ہے کہ کسی بھی زیر سماعت مقدمے پر ایسا اظہار خیال جو تعصب پر مبنی ہو یا جو مقدمے کے حق یا خلاف فضا بنا دے توہین عدالت ہے۔ ایسا عمل جو فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے لیے کیا جائے توہین عدالت ہے۔ جج کو سکینڈلائز کرنا، نفرت پھیلانا یا اس کا مذاق اڑانا بھی عدلیہ کی توہین ہے۔
اس آرٹیکل کی روشنی میں دیکھیں تو پاکستان کا پورا سوشل میڈیا ہی توہین عدالت کا ملزم ہو گا۔ صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے والوں کو ہی پکڑ لیں تو سپریم کورٹ کو توہین عدالت کے مقدمات نمٹانے کی سال بھر کی مصروفیت مل جائے گی۔
پاکستانی سیاست میں عدلیہ کا مجموعی کردار، درجنوں ججز کے جُھک جانے، بِک جانے، ڈر جانے، مصلحت کا شکار ہو جانے اور نظریہ ضرورت پر عمل کرنے کی پوری ایک تاریخ موجود ہے۔ پھر سوال کیوں نہ ہوں؟ پھر جواب کیوں نہ کھوجے جائیں؟ پھر الزام کیوں نہ لگیں؟ پھر تشویش کیوں نہ ہو؟
میری دانست میں عدلیہ کی توہین عام افراد یا میڈیا کے تبصروں، تجزیوں، جملوں یا پھر فیصلوں کو رد کرنے سے نہیں ہوتی۔ عدلیہ کی توہین ہوتی ہے جب جب طاقتور افراد یا ادارے عدلیہ کو جنس گراں سمجھتے ہوئے اسے خریدنے کی کوشش کرتے ہیں، یا سیاسی رہنما جب جج، اور ان کے اہل خانہ کو سر عام دھمکاتے ہیں تب عدالت کی ہتک ہوتی ہے۔
جب جب ماورائے عدالت قتل ہوتے ہیں، عدلیہ کی توہین ہوتی ہے۔ معمولی جرائم کے ملزم برسوں جیلوں میں سڑتے اور سماعت کی تاریخ ملنے کو ترستے رہتے ہیں تب ہوتی ہے عدلیہ کی توہین۔ جب بےخطا لوگوں کو لاپتہ کر دیا جاتا ہے اور ان کی مائیں جھولی پھیلا پھیلا کر نظام عدل کو کوستی ہیں تب عدلیہ کی بےعزتی ہوتی ہے۔ عدلیہ کی عزت پر حرف آتا ہے جب ایک ہی الزام پر خاص ملزم کو خاص رعایت ملتی ہے عام ملزم کی ضمانت رد کر دی جاتی ہے۔
لوگ عدالتوں کا تمسخر بناتے ہیں جب مخصوص مقدمات میں انصاف کی دیوی لمبا سا گھونگھٹ ڈال کر بیٹھ جاتی ہے، جن مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچنا چاہیے ان کے کیس لگتے نہیں۔ عدلیہ کی توہین کا باعث وہ ریٹائرڈ جج بھی ہیں جو ریٹائر ہوتے ہی سرکاری عہدے سنبھال لیتے ہیں اور پھر سر سے پاؤں تک انصاف کے لطیفے مشہور ہو جاتے ہیں۔
جج اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ اسی ملک کے تعلیمی اداروں سے پڑھے ہیں، چند ایک قانون کی اعلیٰ تعلیم میں برطانیہ، امریکہ کی یونیورسٹیوں کے ڈگری یافتہ ہیں لیکن قانون کی پریکٹس اسی مملکت پاکستان میں کی ہے۔ ان ججز کی بودوباش، ان کا اوڑھنا بچھونا، سماجی رویے، شخصیت سازی یہ سب کچھ کسی بھی عام پاکستانی جیسا ہی ہوا ہے۔
جب ہم اپنے پورے معاشرے کی انحطاط پذیری پر نوحہ کناں ہیں تو اس میں عدلیہ بھی شامل ہے۔ اگر ہم سب کرپٹ ہیں، سب کے سب چور ہیں، بداخلاق ہیں، بھٹکے ہوئے ہیں تو کیسے کہہ دیں کہ وہ عدلیہ جو ہم میں سے ہی اٹھنے والے چند قابل و عاقل افراد سے بنی ہے، ایسی کسی بھی غلطی سے ماورا ہے۔
آپ نے خود ہی کہا کہ عدلیہ کانچ کی گڑیا نہیں، سو جو عدلیہ کے بڑے ہیں انہیں انا پرستی سے نکل کر بےنیازی، درگزر اپنانا ہو گا۔ ملک کے ہر دیگر ادارے کی طرح عوام کو عدلیہ سے بھی بڑے شکوے ہیں، ججز کو تنقید پر سیخ پا ہونے کی بجائے راستی پر چلنا ہو گا، سو منہ سو بات کریں گے۔ ان پر توہین عدالت کے نوٹس دینے کے بجائے اپنے فعل و عمل سے عدلیہ کا وقار بلند کرنا ہو گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر