وزیراعظم عمران خان کا کابینہ اور بیوروکریسی کو کارکردگی دکھانے کا الٹی میٹم صرف وفاق اور مرکزی حکومت تک محدود نہیں بلکہ پنجاب حکومت کو بھی پیغام دیدیا گیا ہے کہ گڈ گورننس اور کارکردگی کو مثالی بنایا جائے بصورت دیگر وفاقی کابینہ سے کہیں زیادہ رد و بدل پنجاب کابینہ میں ہو سکتا ہے، جس میں وزیراعلی کی تبدیلی جیسا بڑا فیصلہ بھی سامنے آ سکتا ہے۔
متبادل کے طور مختلف نام زیر گردش ہیں۔ لیکن یہ نام سنجیدہ نہیں پیں، بھلا نیب زدہ کو کیونکر کوئی پنجاب کی پگ پہنائے گا جبکہ عسکری اور سیاسی قیادت کا تمام تر زور احتساب پر ہے۔ ڈرامائی تبدیلی کی صورت میں چوہدری نثار یا چوہدری پرویز الٰہی، عثمان بزدار کے متبادل ہو سکتے ہیں۔ کچھ غیر اہم اور گمنام امیدوار بھی کسی نہ کسی سطح پر زیر بحث ضرور ہیں، ان میں سے کوئی ایک نام لکھ دوں تو میری تحریر کی صحت مشکوک ٹھہرے گی اس لیے احتراز برت رہا ہوں۔
وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار اور کابینہ ارکان کو خصوصی ہدایات دی گئی ہیں کہ صوبائی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے اٹھانے والے سوالات اور اعتراضات کو آئندہ تین چار ماہ میں ختم ہونا چاہیے، کیونکہ پنجاب حکومت کی کارکردگی اور گڈ گورننس پر صرف اپوزیشن نہیں بلکہ حکومتی جماعت تحریک انصاف اور اتحادی (ق) لیگ کو بھی شکایات ہیں، تحریک انصاف کے ارکان صوبائی اسمبلی اپنے جائز کام نہ ہونے اور بے ضابطگیوں کی شکایات پارٹی کے چیئرمین، وزیراعظم عمران خان کو کر چکے ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ اعلیٰ عسکری قیادت بھی عثمان بزدار پر معترض ہے۔
ایک لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک روحانی شخصیت کی آشیر باد سے وزیر اعلیٰ بننے والے عثمان بزدار کے لیے یہ آخری موقع ہے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب میں اعلیٰ بیورو کریسی کی ٹرانسفر، پوسٹنگ کے لیے بھاری رقوم وصول کی جا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کے بھائی کو پریس کانفرنس کرنا پڑی کہ پیسوں کے لین دین میں ملوث بزدار خاندان کے افراد سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔
وزیراعظم عمران خاں نے وفاقی کابینہ کو دسمبر تک کی مہلت دیتے ہوئے کہہ رکھا ہے، کارکردگی نہ دکھانے والے وزرا کو فارغ کر دیا جائے گا اور بیوروکریسی کو بھی ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ کارکردگی دکھائیں بصورت گھر جائیں۔ حکومتی اور تحریک انصاف کے با اعتماد ذرائع نے بتاتے ہیں کہ گڈ گورننس، بہتر کارکردگی کی ہدایات صرف مرکزی حکومت اور وفاق میں موجود بیوروکریسی کے لئے نہیں بلکہ ہیں اس سے کہیں زیادہ سخت ہدایات وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلی عثمان بزدار اور ان کی کابینہ کو بھی دے رکھی ہیں، وفاقی کابینہ، بیوروکریسی اور پنجاب حکومت کے لئے یہ آخری موقع ہے اس کے بعد وزیراعظم عمران خان بے رحمانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے وفاقی اور پنجاب کابینہ میں حیران کن تبدیلیاں کریں گے جس میں بڑے نام بھی زد میں آسکتے ہیں، جیسا کہ جہانگیر ترین کی مثال قوم کے سامنے ہے۔
پنجاب میں اہم اور غیر متوقع تبدیلی بھی زیر غور ہے، وزیراعظم عمران خان تحریک انصاف کے منشور کے تحت گڈ گورننس، کرپشن کے خاتمہ، عام آدمی کو ریلیف اور میرٹ کو یقینی بنانے کے لئے مزید سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اس سلسلہ میں وزیر خارجہ شاہ محمود شاہ قریشی اور وفاقی وزیر اسد عمر وزیراعظم عمران خان کے بڑے حامی ہیں کہ تحریک انصاف کی ساکھ اور چہرہ مسخ نہیں ہونا چاہیے، جبکہ وفاقی وزیر فواد چوہدری خوفناک احتساب کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے سب سے بڑے سپورٹر ہیں۔
پارٹی کے اندر منتخب اور غیر منتخب مشیروں، معاونین خصوصی کا معاملہ بھی وقتی طور پر پس پردہ چلا گیا ہے لیکن معاملہ مستقبل میں بھی چلتا رہے گا۔ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے غیر منتخب حکومتی ذمہ داروں کے دفاع کے عمل کو پارٹی کے اندر ایک موثر گروپ پسند نہیں کرتا۔ یہ گروپ وزیراعظم کی خیرخواہی کا دعویدار ہونے کے ناتے اپنا موقف رکھتا ہے کہ غیر منتخب اور کاروباری حکومتی ذمہ داروں کے دفاع سے وزیراعظم کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے اور تحریک انصاف کو سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس تناظر میں یہ بات واضح ہے کہ پارٹی کے اندر مائنس ون کی کوئی سوچ نہیں پائی جاتی بلکہ پوری جماعت اور پارلیمنٹرین وزیراعظم کی قیادت میں متحد ہیں۔ جہانگیر ترین گروپ بھی دم توڑتا جا رہا ہے جس سے وزیراعظم عمران خان اور وفاقی حکومت کو استحکام اور اعتماد حاصل ہوا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کو وفاقی اور صوبائی وزرا ، مشیر معاونین خصوصی کے مالی بے ضابطگیوں کی شکایات بھی موصول ہوئی ہیں جن کی بنیاد پر وفاقی اور کے پی حکومت کے مشیر اطلاعات کو فارغ کیا گیا ہے۔ مالی بے ضابطگیوں میں ملوث وزرا ، حکومتی ذمہ داروں کو وزیراعظم عمران خان کا زیرو ٹالرنس کا پیغام دیدیا گیا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر