نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پیپلز پارٹی کے جرائم کی فہرست سے ”چند نمونے“ ۔۔۔ حیدر جاوید سید

اس شک کی وجہ چند سال قبل کے اس کے خیالات بنے پر جس پر اس کے مومن بھائیوں نے اسے اسرائیلی ایجنٹ قرار دیا تھا

وفاقی وزیر بحری امور سید علی زیدی تین سال تک اس جے آئی ٹی رپورٹ کو سنبھال کر بیٹھے رہے جو کوئی فرشتہ ان کے چوکیدار کو دے گیا تھا۔

وزیر صاحب ان دنوں دبئی ”بال بچے“ چھوڑنے گئے ہوئے تھے اس لئے "خاکی ونوری” ملاقات نہ ہوسکی۔

ہم تو بچپن سے سنتے پڑھتے آئے ہیں کہ فرشتوں کے سامنے سارا جہاں ”کھلا“ ہوتا ہے پھر بند لفافے والی رپورٹ پہنچانے والے فرشتے کو یہ علم کیونکر نہ ہوسکا کہ علی زیدی مع اہل وعیال دبئی گئے ہوئے ہیں۔

وزیر صاحب یہ رپورٹ اس وقت منظرعام پر لائے جب سندھ حکومت نے نثارمورائی‘ عزیر بلوچ اور سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی جے آئی ٹی رپورٹس عوام کیلئے مشتہر کر دیں۔

سچ پوچھیں تو میں پچھلے چند دنوں سے سوچ رہا ہوں کہ اس فقیر راحموں کیخلاف ایک جے آئی ٹی بنوا کر تحقیقات کرواؤں۔

مجھے برسوں سے شک ہو رہا ہے کہ یہ کسی عالمی قوت کا ایجنٹ ہے۔

اس شک کی وجہ چند سال قبل کے اس کے خیالات بنے پر جس پر اس کے مومن بھائیوں نے اسے اسرائیلی ایجنٹ قرار دیا تھا

جواباً اس نے کہا‘

اللہ والیو! پہلے پچھلی ایجنسیوں کی تنخواہیں تو دلوا دو۔ یہ پچھلی ایجنسیوں کا رولہ کیا ہے ”میں نہیں بتاؤں گا“ بالکل اسی طرح جیسے وفاقی وزیر یہ نہیں بتا رہے کہ انہوں نے یہ رپورٹس جو بند لفافے میں کوئی ان کے چوکیدار کو دے گیا تھا تین سال تک سنبھال کر کیوں رکھے رکھیں۔

دو دن ادھر ہم نے تحریک انصاف کے ایک رہنما سے کہا اگر آپ وزیر داخلہ کو کہہ کر فقیر راحموں کیخلاف جے آئی ٹی بنوا دیں تو نصف درجن کے قریب عالمی سازشیں عوام پر کھل سکتی ہیں۔

چائے کا کپ واپس میز پر رکھتے ہوئے انہوں نے جواب دیا شاہ جی! مجھے تو آپ پر بھی شک ہے کہ آپ کسی ایجنسی کیلئے کام کرتے ہیں۔

لیجئے آسمان سے گرے اور کھجور میں اٹک گئے‘ بھلا یہ کیا بات ہوئی‘ ہم تو عظیم قسم کے محب وطن‘ جمہوریت پسند ہیں اور طبقاتی جمہوریت کے ناقد بھی پھر یہ شکوک وشبہات کیوں؟

بحری امور کے وفاقی وزیر پچھلے ہفتہ بھر سے رونق لگائے ہوئے ہیں، ٹی وی چینلز انہیں لائیو لیتے ہیں اور وہ پیپلز پارٹی پر گرجتے برستے ہوئے اس کے مجرمانہ کردار کو بے نقاب کرتے چلے جا رہے ہیں۔

یہاں ساعت بھر کیلئے رک کر آپ کو بتا دوں کہ پروگرام یہی تھا کہ آج پیپلز پارٹی کے مجرمانہ کردار پر کالم لکھا جائے، پھر سوچا ہمارے ایک سید بھائی (وفاقی وزیر علی زیدی) ان دنوں جو جہاد کر رہے ہیں وہی کافی ہے۔

فقیر راحموں نے کہنی مارتے ہوئے کہا

شاہ! اصل میں بھٹو اور بینظیر کی محبت میں تم پی پی پی والوں کے جرائم پر بات نہیں کرتے حالانکہ ایک دنیا واقف ہے کہ اگر پیپلز پارٹی 1857ء کی جنگ آزادی میں جنرل بخت خان کا ساتھ دیتی تو پانسہ پلٹ سکتا تھا۔

اب حیران ہونے کی باری ہماری تھی‘ ویسے پیپلز پارٹی کے جرائم کی فہرست طویل ہے کم ازکم میں تو بابل پر سائرس اعظم کے قبضے کا ذمہ دار بھی اسے ہی سمجھتا ہوں، پہلی اور دوسری جنگ عظیم بھی اسی کی وجہ سے ہوئی۔

معاف کیجئے گا پچھلی شب بارش ہوئی تھی موسم قدرے بہتر ہے‘ اس وقت دھوپ کھلی کھلی سی ہے لیکن تمازت کم ہے، ایسے میں اگرکالم کلامی کے دوران کچھ ادھر ادھر نکل جاؤں تو اسے بیرونی سازش کا حصہ بالکل نہ سمجھ لیجئے گا۔

ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ 2013ء کے انتخابات اور بعدازاں بلدیاتی انتخابات میں لیاری وگرد و نواح میں عزیر بلوچ گروپ نے تحریک انصاف کوسپورٹ کیااور2014 کے دھرنے کیلئے افرادی قوت بھی فراہم کی، پھر 2018ء کے انتخابات میں عزیر بلوچ کی لیاری یوتھ کے کارکنان سید علی زیدی‘ فیصل واؤڈا اور کراچی سے ہی ایک رکن قومی اسمبلی نیازی صاحب کے حلقوں میں پرجوش انتخابی مہم کیوں چلاتے رہے؟۔

چلیں چھوڑیں ان سوالات کے جواب ابھی نہیں اگلے دور میں ملیں گے،

البتہ باسط فاروق نامی ایک صاحب جو کبھی کراچی میں ایک ریاستی محکمہ میں اہم منصب پر ہوا کرتے تھے ان دنوں نجی چینلز کی ڈارلنگ بنے ہوئے ہیں۔

مہمان تجزیہ نگار کے طور پر تجزیہ پیش کرنے کی بجائے جذباتی خطاب فرماتے ہوئے پیپلز پارٹی کے جرائم سے پردے اُٹھاتے چلے جاتے ہیں لیکن مجال ہے کہ انہوں نے کبھی اس خط کا ذکر کیا ہو جو کچھ تاجروں نے ان کے محکمے کے سربراہ کو ان کے بارے میں لکھا تھا۔

حقیقت پوچھئے تو یہاں سبھی حاجی ثناء اللہ ہیں (یہ حاجی ثناء اللہ رانا ثناء اللہ ہرگز نہیں) چلیں لفافے میں بند اس جے آئی ٹی رپورٹ کو گولی ماریں جو فرشتہ علی زیدی کے گھر 2017ء میں دے گیا تھا لیکن ایک سوال ہے وہ یہ کہ اس رپورٹ کے مندرجات وہ 2018ء کے الیکشن میں منظرعام پر کیوں نا لائے؟

حالانکہ انتخابی مہم تو ہوتی ہی ایسے کاموں کیلئے ہے‘

کیا خیال ہے ہم پیپلز پارٹی کے چند اور سنگین جرائم سے پردہ نہ اُٹھا دیں‘ اپنے پہلے دور کی حزب اختلاف سے مل کر اس نے 1973ء کا دستور بنایا، پانچویں دور میں 18ویں ترمیم منظور کروائی، محترمہ بینظیر بھٹو اپنی جان پر کھیل کر شمالی کوریا سے میزائل پروگرام لائی تھیں۔

پی پی پی کے پہلے دور میں 150 روپے پر دستخط کرکے 75روپے وصول کرنے والے ماسٹر صاحبان کی ملازمتیں سرکاری ہوگئیں اورپھر تنخواہ بھی پوری ملنے لگی۔

خیر اس موضوع کو جانے دیجئے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔

ہمارے محبوب وزیراعظم نے کہا ہے کہ غریبوں کی مدد پہلی ترجیح ہے۔

کوئی ہے جو جاکر انہیں بتائے کہ صرف ایک رات کے وقفے سے 40روپے کلو والے ٹماٹر 150روپے کلو ہوگئے‘ چینی اب بھی 87روپے کلو مل رہی ہے۔

فقیر راحموں تو اپنے برانڈ کا سگریٹ مہنگا ہونے پر بھی بہت پریشان ہیں مگر کہتے ہیں اگر ایک پیکٹ ہزار روپے کا بھی ہو جائے تو وہ عمران خان کے ساتھ ہیں۔

اگلے روز تین عجیب واقعات ہوئے خیبر پختونخوا حکومت کے مشیر اطلاعات اجمل وزیر کمیشن لینے کے الزام میں برطرف کردیے گیے اور نیب نے وفاقی وزیر مذہبی امور کے علاوہ پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ کیخلاف تحقیقات کی رفتار بڑھا دی۔

مجھے تو یہ بھی پیپلز پارٹی کی سازش لگتی ہے۔

About The Author