نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

Wusat Ullah Khan

آیا صوفیہ، ارطغرل، مسجد قرطبہ ۔۔۔ وسعت اللہ خان

آیا صوفیہ کی حیثیت کے بارے میں چھڑنے والی بحث میں وقت کے ساتھ ساتھ اب مزید پرتوں کا بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

اگلے ہفتے ترکی کی اعلیٰ عدالت استنبول کے آیا صوفیہ میوزیم کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کی سرکاری درخواست پر فیصلہ سنانے والی ہے۔ آیا صوفیہ ڈیڑھ ہزار برس پرانی عمارت ہے اور پانچ سو سینتیس عیسوی میں مشرقی سلطنت روم کے شہنشاہ جسٹینین نے دارالحکومت قسطنطنیہ کے شایان شان بطور گرجا تعمیر کروائی۔ نو سو برس بعد عثمانی سلطان محمد دوم نے چودہ سو تریپن میں قسطنطنیہ فتح کیا تو دنیا کے سب سے بڑے گرجا گھر کی چھتوں اور گیلریوں میں کی گئی مذہبی مصوری کو ڈھانک دیا۔ اس عمارت میں نماز جمعہ کی امامت کی۔ بعدازاں معروف ترک ماہر تعمیرات سنان نے آیا صوفیہ پر اسلامی رنگ چڑھانے کے لیے عمارت میں میناروں کا اضافہ کروایا اور اسے باقاعدہ مسجد میں بدل دیا۔ اگلے پانچ سو برس تک یہاں نماز جاری رہی۔

آیا صوفیہ چرچ کے گنبد کا شکوہ اتنا متاثر کن تھا کہ جب سولہ سو سولہ میں استنبول میں عظیم الشان نیلی مسجد مکمل ہوئی تو اس کے ڈیزائن پر آیا صوفیہ کا آرکیٹیکچر غالب تھا۔ بعد ازاں عثمانی طرز تعمیر نے اسے اپنی تعمیراتی شناخت کا مستقل حصہ بنا لیا۔

پہلی عالمی جنگ کے بعد جب نوجوان ترک قوم پرستوں نے کمال اتاترک کی قیادت میں لاغر سلطنت عثمانیہ کا بوریا لپیٹ کر سیکولر طرز حکومت اپنایا تو آیا صوفیہ کو مسجد سے میوزیم میں بدل دیا گیا۔ عمارت کے گنبد، دیواروں اور راہداریوں میں مذہبی مصوری کے جو شاہکار پلاسٹر تلے چھپا دیے گئے تھے انھیں بحال کیا گیا۔ میوزیم بنانے کا مطلب یہ تھا کہ اب کوئی بھی اس عمارت میں داخل ہو کر فن تعمیر کے اس تاریخی شاہکار کو سراہ سکتا ہے۔

پھر اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو نے آیا صوفیہ کو مشترکہ عالمی میراث میں شامل کر لیا۔ اب رہی موجودہ بحث کہ آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد بنایا جائے یا میوزیم ہی رہنے دیا جائے۔ اس بارے میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے گزشتہ برس عدالت سے تب رجوع کیا جب ان کی جماعت کو استنبول کے بلدیاتی انتخابات میں تین عشروں میں پہلی بار شکست ہوئی۔

مگر اردوان جن کا اپنا تعلق بھی استنبول سے ہے اس شہر پر اپنی سیاسی چھاپ کمزور ہوتے نہیں دیکھ پارہے۔ انھیں بلدیاتی انتخابات میں شکست دینے والے مخالفین کا کہنا ہے کہ طیب اردوان کی جانب سے آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں بحال کرنے کا مدعا مذہبی سے زیادہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے۔ کیونکہ جب اردوان صاحب پورے ایک عشرے تک استنبول کے مئیر رہے تب انھیں آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں بدلنے کا خیال نہیں آیا۔ پچھلے بیس برس سے ان کی جماعت ترکی پر بلا وقفہ مسلسل حکمرانی کر رہی ہے۔ اس دوران بھی وہ چاہتے تو یہ کام کر سکتے تھے۔ مگر اس جانب ان کا دھیان تب ہی گیا جب گزشتہ برس استنبول سیاسی طور پر ہاتھ سے نکل گیا۔

آیا صوفیہ کی حیثیت کے بارے میں چھڑنے والی بحث میں وقت کے ساتھ ساتھ اب مزید پرتوں کا بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ مثلاً بہت سے ترک علما کا کہنا ہے کہ ایک بار جو عمارت مسجد قرار پا جائے اس کی حیثیت نہیں بدلی جا سکتی وہ ہمیشہ مسجد ہی رہے گی۔ البتہ کچھ اسکالرز یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی اور عبادت گاہ کو مسجد میں تبدیل کرنا درست نہیں۔ اگر آیا صوفیہ کو میوزیم کے درجے سے ہٹا کے دوبارہ کسی عبادت گاہ میں ہی تبدیل کرنا ہے تو پھر اسے اس کی اوریجنل حیثیت یعنی چرچ کی شکل میں بحال کیا جائے۔

اس بحث میں یونیسکو کی دلیل ہے کہ ایک بار اگر کوئی تاریخی عمارت عالمی اثاثے کی فہرست میں شامل ہو جائے تو پھر اس کی شناخت اور حیثیت کو یونیسکو کی رضامندی کے بغیر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

آیا صوفیہ مسیحت کے مشرقی آرتھوڈوکس چرچ کا مرکز تھا۔ اس چرچ کے سربراہ آرچ بشپ بارتھولمیو آج بھی استنبول میں ہی رہتے ہیں۔ گویا استنبول مشرقی آرتھوڈوکس چرچ کا ویٹیکن ہے۔ بشپ بارتھولمیو کا کہنا ہے کہ تاریخی حقائق سے چھیڑ چھاڑ تکلیف دہ عمل ہے۔ زخموں کو کریدنے کے بجائے ان پر مرہم لگانے کی کوششں جاری رہنی چاہئیں تاکہ نسلی و مذہبی ہم آہنگی کا عمل پسپا ہونے کے بجائے آگے بڑھتا رہے۔

پچھلے ایک عشرے سے ترکی میں ریاستی سطح پر یہ تاثر بھی مستحکم کیا جا رہا ہے کہ اردوان دراصل عثمانی ترکوں کی عظمت رفتہ کی بحالی چاہتے ہیں۔

فروری دو ہزار پندرہ میں خانہ جنگی سے جوج رہے شام کے شمالی علاقے میں کچھ ترک فوجی دستے ایک خاص مشن کی تکمیل کے لیے داخل ہوئے۔ مشن یہ تھا کہ سلیمان شاہ کی باقیات کو داعش کی دستبرد سے محفوظ رکھنے کے لیے محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے۔ سلیمان شاہ نے گیارہ سو اٹھتر تا بارہ سو چھتیس کے دور حیات میں اناطولیہ میں ایک چھوٹی سی ریاست قائم کی۔ وہ سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے دادا تھے۔

اس کامیاب آپریشن پر اردوان کے حامیوں نے خوب خوب تعریف کی۔ اس کے بعد اردوانی ترکی نے عثمانی ترکی کی طرح اپنے وجود کی طاقت ظاہر کرنے کے لیے قطر سعودی مناقشے میں قطر کا کھل کے ساتھ دیا۔ اس دوران سعودیوں اور ترکوں کے درمیان سلطنت عثمانیہ کے پس منظر میں طعنہ زنی اور پھبتیوں کا مختصر سا میچ بھی ہوا۔ سعودیوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ ترکی دور عثمانی کی طرح آج بھی سنی مسلم دنیا کی قیادت کے لیے اتاؤلا ہو رہا ہے۔ جب کہ سعودی عرب اس منصب کو اپنا حق سمجھتا ہے۔

قیادت کی تازہ شطرنج لیبیا کی بساط پر کھیلی جا رہی ہے جہاں ایک جانب ترکی لیبیا کی بین الاقوامی تسلیم شدہ حکومت کی عسکری مدد کر رہا ہے جب کہ مد مقابل جنرل ہفتر کی باغی حکومت کی پشت پناہی، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہی استنبول کی ایک عدالت میں صحافی جمال خشوگی کے قتل کے مقدمے کی سماعت بھی شروع ہو گئی ہے جسے اکتوبر دو ہزار اٹھارہ میں سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

موجودہ ترک حکومت عثمانی عظمت رفتہ کو پھر سے دھو مانجھ کر چمکانے کے لیے ثقافتی سطح پر بھی فعال ہے۔ اس کی گواہی تو وزیر اعظم سمیت ہر دوسرا پاکستانی ناظر بھی دے گا جو ان دنوں ارطغرل کو مسلم عظمت رفتہ کا تازہ استعارہ سمجھ کر نہایت عقیدت سے دیکھ رہا ہے۔ ارطغرل نے محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی اور ٹیپو سلطان کو بھی مسلم نجات دہندہ کے پائیدان سے مقبولیت کی ریٹنگ میں دائیں بائیں کر دیا ہے۔

ارطغرل صرف پاکستان میں ہی نہیں عرب نوجوانوں میں بھی مقبول ہو رہا ہے۔ چنانچہ مصر میں جنرل عبدالفتح السسی کی حکومت جو پتہ بھی کھڑکنے سے چوکنا ہو جاتی ہے۔ اس نے ارطغرل ٹیلی کاسٹ کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ خلیجی ریاستوں میں صرف قطر کے عوام ارطغرل کھلم کھلا دیکھ سکتے ہیں۔ جب کہ باقی ریاستوں میں عربی میں ڈب سی ڈیز کی مانگ میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے۔

اقبال کی شہرہ آفاق مسجد قرطبہ نظم کون بھول سکتا ہے۔ کون سا مسلمان نہیں چاہے گا کہ مسجد قرطبہ ساڑھے پانچ سو برس بعد کیتھولک کیتھیڈرل کے بجائے اپنے بنیادی مقصد کے لیے پھر سے بحال ہو جائے۔ یاکیتھولک پوپ گرجے کے ایک حصے کو ہی نماز کے لیے کھولنے کی اجازت دے دے۔

فرض کریں رجب طیب اردوان آیا صوفیہ کو میوزیم کے بجائے مسجد کی جگہ چرچ کی اوریجنل عمارت کے طور پر بحال کرنے کا اعلان کر دیں تو کیا حکومت اسپین اور ویٹی کن پر مسجد قرطبہ کی کلی یا جزوی بحالی کے لیے اخلاقی دباؤ بڑھ سکتا ہے؟ کیا اردوان کے اس علامتی اقدام کا کوئی اثر ہوگا؟ میرے پاس ان سوالات کا کوئی قطعی جواب نہیں۔ مگر سوالات کرتے رہنا چاہئیں۔ سوال ہی جواب کی سرنگ کا دروازہ ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔

About The Author